خواتین پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے سماجی تنظیم

غیرسرکاری تنظیم کےمطابق سال2014کےدوران ملک بھرمیں کم ازکم314خواتین کےساتھ زیادتی اور173کےساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی


انعم مشکور May 17, 2015
قتل اورتشدد کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے،دوسرے پرسندھ اورتیسرے پرخیبرپختونخوارہا ۔ فوٹو : ایکسپریس

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق ملک میں خواتین پرتشددکے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے ایسی کئی خواتین ہیں جن کوجسمانی وذہنی تشددکانشانہ بنایاجاتاہے اوران کی عزت کواس طرح پامال کیاجاتاہے کہ کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی یہ خواتین معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصررہتی ہیں۔

غیرسرکاری تنظیم کے مطابق سال 2014 کے دوران ملک بھر میں کم ازکم 314خواتین کے ساتھ زیادتی اور 173کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، 2569 پر تشددہوا جن میں سے930 خواتین پولیس تشدد کا شکار ہوئیں،گزشتہ سال 595 خواتین کو اغوا کیا گیا اور 329 کی جبری شادی کی گئی جن میں 133بچیاں بھی شامل ہیں، ایک سال کے دوران 187خواتین زیادتی کے بعدقتل کی گئیں، 279 کو کاروکاری کے الزام میں اور956کومختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا، تشدد اورقتل کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے دوسرے نمبرپرسندھ اورتیسرے نمبر پر خیبرپختونخوا رہا۔

ماہرین کے مطابق جب تک خواتین پرتشددکے خلاف بننے والے قوانین کوکتابوں سے نکال کر معاشرے میں نافذ نہیں کیا جاتااس وقت تک خواتین سے زیادتی،تشدد،جبری شادی اور قتل کے واقعات کوروکناناممکن ہے،خواتین کے حقوق کے لیے بنائے گئے نئے قوانین کی آگہی کی حوالے سے پولیس کی تربیت پرخاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ پولیس بہت سے نئے قوانین سے متعلق آگاہ ہی نہیں ا سی لیے وہ متاثرہ خواتین کوانصاف کی فراہمی میں ناکام رہتی ہے۔

مددگارہیلپ لائن کے دفترمیں اپنی آب بیتی سناتے ہوئے کراچی کے علاقے لیاقت آبادکی28سالہ عائشہ نے بتایاکہ اس کی شادی 2سال قبل منصورنامی شخص سے ہوئی تھی جوپہلے سے شادی شدہ تھا،عائشہ نے بتایاکہ شادی کے بعد سے ہی اس کے شوہرنے اسے نہ صرف ذہنی وجسمانی تشدد کانشانہ بناناشروع کردیا بلکہ موبائل فون چھین کرکے والدین کے گھرجانے سے بھی روک دیا۔

30مارچ 2015 کوساس نجمہ اور شوہر منصور نے تشدد کا نشانہ بنایااور سرکے بال کاٹ دیے، عائشہ نے بتایاکہ وہ ایک دن موقع پاکرشوہرکے گھرسے بھاگ کراپنے والدین کے پاس پہنچی جس کے بعداس کے والدین نے تھانہ لیاقت آبادمیں منصوراوراس کی والدہ نجمہ کے خلاف درخواست دی اورعدالت سے بھی رجوع کیاہے۔

تاہم اب تک اسے انصاف نہیں ملا ،ضیااحمداعوان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جب عائشہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مدد گار پہنچی تو مددگار کی ٹیم نے اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے لیاقت آبادتھانے کے ایس ایچ اوسے رابط کیااور ان کے نا م لیٹر لکھاہے، مددگار ہیلپ لائن کی جانب سے عائشہ کوعدالت سے انصاف فراہم کرنے کے لیے بھرپورتعاون کیاجائے گا،انھوں نے کہاکہ پہلے خواتین پرتشددکے واقعات دیہی علاقوں میں ہوتے تھے مگراب توشہروں میں بھی خواتین کے ساتھ تشددکے واقعات بڑھ گئے ہیں جس کے باعث شہری علاقوں کی خواتین بھی انصاف کی منتظررہتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں