سابق مصری صدر محمد مرسی کو سزائے موت

مرسی کو اپنےدوراقتدارمیں مظاہرین کی گرفتاریوں اوران پرتشدد کرنےکا حکم دینےپرپہلےہی 20 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے


Editorial May 18, 2015
مرسی جب اقتدار میں آئے تو وہ اور ان کے حامی اگر ترکی کے ماڈل کو سامنے رکھتے تو آج مصر مختلف ہوتا۔ فوٹو : فائل

مصر میں ایک فوجداری عدالت نے سابق صدر محمد مرسی، اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع اور ان کے100سے زائد ساتھیوں کو 2011 میں جیل توڑنے کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے تاہم اس سزا کی ملک کے مفتی اعظم سے توثیق ابھی باقی ہے۔ قانون کے مطابق مفتی اعظم سزا کی منظوری دے بھی دیں تو ملزمان کو فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔ مفتی اعظم کی جانب سے رائے دیے جانے کے بعد عدالت دو جون کو مقدمے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔

محمد مرسی اور دیگر قیدیوں کو پنجروں میں بند کر کے عدالت میں پیش کیا گیا، بہت سے ملزمان کو ان کی غیرموجودگی میں سزا سنائی گئی جن میں قطر میں رہائش پذیر ممتاز عالم دین یوسف القرضاوی بھی شامل ہیں۔ محمد مرسی نے حالیہ فیصلے کو مسترد کیا ہے جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر کا عدالتی نظام انتہائی ناقص ہے۔ اے ایف پی کے مطابق سزا سنائے جانے کے چند گھنٹے بعد ہی صحرائے سینا میں مسلح افراد کے حملے میں تین جج ہلاک جب کہ دو افراد زخمی ہو گئے۔ مرسی کو اپنے دور اقتدار میں مظاہرین کی گرفتاریوں اور ان پر تشدد کرنے کا حکم دینے پر پہلے ہی 20 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

ڈاکٹر محمد مرسی کو 28 جنوری 2011میں قاہرہ میں اخوان المسلمون کے 24 کارکنوں سمیت گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا تھا مگر دو دن ہی بعد وہ جیل سے فرار ہو گئے تھے اور یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ انھوں نے اپنے مسلح ساتھیوں کی مدد سے جیل توڑی ہے۔ بعد ازاں جیل توڑنے کے الزام میں مرسی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سابق صدر مرسی کو سزائے موت سناتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مرسی کے حامی قیدی جیل توڑنے کے دوران کئی قیدیوں اور پولیس اہلکاروں کو قتل کر کے فرار ہو گئے تھے۔ مرسی نے جون 2012ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں 51.73 فیصد ووٹ حاصل کیے جس کے بعد مصر کی حکمران فوجی کونسل نے ملک کا اقتدار ان کے حوالے کر دیا اور اس طرح وہ مصر کے پانچویں صدر بنے۔ مرسی کے پیشرو حسنی مبارک کا 30 سالہ اقتدار 2011میں بھرپور عوامی احتجاج کے نتیجے میں ختم ہو گیا تھا۔

مرسی نے 30 جون 2012ء سے لے کر 3 جولائی 2013تک حکومت کی۔ انھوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں اپنے مخصوص نظریات نافذ کرنے کی کوشش کی جس کے باعث لبرل قوتیں اور اپوزیشن سیاسی جماعتیں ان کے خلاف صف آراء ہو گئیں۔ فوج کے سربراہ عبدالفتح السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا' صدر مرسی اور اخوان المسلمون کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کر لیا۔ مرسی کی برطرفی کی خبر سننے کے بعد ان کے مخالفین نے جشن منایا اور التحریر اسکوائر پر آتش بازی کی۔ مرسی کے حامی بھی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد اخوان المسلمون اور فوج میں شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں اور یہ سلسلہ کافی دنوں تک جاری رہا جس کے دوران درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے۔

اخوان المسلمون اور لبرل قوتوں کے درمیان جھگڑا کوئی نیا نہیں تھا بلکہ ایک طویل عرصے سے ان کے درمیان چپقلش جاری تھی اسی چپقلش کے نتیجے میں سابق صدر انور السادات بھی مارے گئے تھے۔ مرسی کو اقتدار سنبھالنے کے بعد جلد بازی سے کام لینا کے بجاے یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ وہ بالکل تھوڑے مارجن سے صدر منتخب ہوئے ہیں اور ان کی مخالف قوتیں بھی بہت طاقتور ہیں ایسی صورت میں بہتر ہوتا اگر مرسی اپنے ملک کے حالات، مذہبی اور نظریاتی تقسیم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نظریات کو بزور قوت نافذ کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ اگر وہ تحمل اور سیاسی معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پالیسیاں اپوزیشن کی مشاورت سے بتدریج نافذ کرتے تو ممکن ہے کہ مصر میں ان کے خلاف لبرل قوتوں کے جذبات نہ بھڑکتے اور اس چپقلش کا آغاز نہ ہوتا جو بڑھتے بڑھتے بالآخر ان کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ مخصوص نظریات کا حامل ہونے کے باعث محمد مرسی کا اقتدار نہ صرف اسرائیل بلکہ سعودی حکومت کے لیے بھی ناپسندیدہ ٹھہرا۔

مرسی نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کی یہ کہتے ہوئے شدید مذمت کی کہ امریکا نے اس بات کے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے کہ حملہ آور مسلمان تھے اور صرف طیارے ٹکرانے سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر تباہ نہیں ہوا بلکہ اندرون خانہ کہانی کچھ اور ہے جسے منظر عام پر نہیں لایا جا رہا۔ امریکا نے مرسی کے ان بیانات کو ناپسند کرتے ہوئے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ مرسی انتہائی پڑھے لکھے سیاستدان ہیں انھوں نے 1982ء میں یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے میٹریل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ آزاد حیثیت سے 2000ء سے 2005ء تک ممبر پارلیمنٹ بھی رہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے صدر مرسی کی سزائے موت کے عدالتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قدیم مصر کی یاد تازہ ہو گئی۔ مرسی کی سزا کے خلاف اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا بلکہ وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق' جمعیت علمائے اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمن اور امیر جماعت الدعوۃ حافظ محمد سعید نے مرسی کی سزائے موت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مصری عدالتیں انصاف کا قتل عام کر رہی ہیں' عالمی برادری اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے مصری عدالت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق مصری صدر کی سزا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے' عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے' ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں' ہم اس عدالتی فیصلے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ صدر مرسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کے محرکات سیاسی ہیں اور عدلیہ کو فوجی بغاوت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بہر حال اس فیصلے کے بعد مصر میں حالات مزید خراب ہوں گے۔

المیہ یہ ہے کہ مصر میں جمہوری عمل کے ذریعے برسراقتدار آنے والے صدر کو ایک فوجی آمر نے ہٹا دیا جب کہ مصر کی لبرل قوتیں آمریت کی حامی بن گئیں، اصولی طور پر جمہوری نظام مختلف اور متحارب نظریات کو متحد رکھنے کی کوشش کرتا ہے، محمد مرسی جب اقتدار میں آئے تو وہ اور ان کے حامی اگر ترکی کے ماڈل کو سامنے رکھتے تو آج مصر مختلف ہوتا، اسی طرح مصر کی لبرل قوتیں اور اقلیتیں بھی محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے تعاون کا ہاتھ بڑھاتیں اور ان کے ساتھ مشاورت سے نظام کو چلایا جاتا تو بھی مصرمیں جمہوریت ترقی کر رہی ہوتی لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سابق آمر حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہو گیا ہے لیکن ایک نئی آمریت مصر پر مسلط ہو گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں