گوادر۔ چاہ بہار بلوچستان۔ عراق کراچی۔ بیروت
پورےخطےمیں بھارت کاسب سےمستحکم دوست ایران ہے۔یہ دوستی افغانستان میں بھارتی اثرونفوذ کی ایرانی پالیسی سے جڑی ہوئی ہے
کاروباری اور معاشی مسابقت موجودہ دور کی سب سے تلخ حقیقت ہے۔ گزشتہ چند صدیوں سے جس طرح انسان نے دوسرے انسان کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کی ہے اس کی مثال انسانی تاریخ میں اس قدر کریہہ اور ظالمانہ نہیں ملتی۔ بادشاہوں کی افواج آتی تھیں، شہر لوٹ کر چلی جاتی تھیں، لوگ پھر اپنے کاروبار زندگی میں مصروف ہو جاتے تھے۔ کئی بادشاہ علاقے فتح کرتے تھے، انھیں اپنی قلمرو میں شامل کرتے تھے اور پھر وہاں کے لوگوں کو بہتر انصاف اور اچھی زندگی کی ضمانت دیتے، اس لیے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو رعایا ان کے خلاف ہو جاتی۔
یہ رعایا جلوس اور ہڑتالیں تو نہ کرتی مگر جب بھی کوئی دوسرا بادشاہ ان کے ملک پر حملہ آور ہوتا تو وہ اس کا ساتھ دیتی اور یوں ایک بدترین غیر ملکی فاتح کی جگہ نسبتاً بہتر غیر ملکی فاتح حکومت کرنے لگتا۔ لیکن آج کے دور کی معیشت اور کاروباری مسابقت کی جنگ نے اتنے ملک برباد کیے ہیں، اتنے شہر اجاڑے ہیں، اسقدر قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہے کہ کروڑوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ایک ملک یا علاقے نے خود کو ترقی دینا ہو، اسے معاشی طور پر مستحکم کرنا مقصود ہو تو اس کے مقابلے پر آنے والے ملک، شہر یا علاقے کو بدترین خانہ جنگی کا شکار کیا جاتا ہے، اسے قتل و غارت کے طوفان میں غرق کیا جاتا ہے، اس پر عالمی دباؤ کے تحت ایک جنگ مسلط کی جاتی ہے اور کبھی کبھی اس پر حملہ کر کے، اس کے وسائل کو قابو میں لے کر اسے مستقل لوٹا جاتا ہے۔ یہ ہے موجودہ صدی کا معاشی، اقتصادی اور کاروباری میدان کا ''عالمی اخلاقی اصول''۔
اسی ''عالمی اخلاقی اصول'' کے تحت پاکستان اور چین کے معاشی راہداری منصوبے کی مخالفت میں علاقائی گدھ اکٹھا ہونا شروع ہو گئے ہیں تا کہ اس منصوبے کے پرندے کو پرواز سے پہلے ہی گلا گھونٹ کر مار دیا جائے۔ پاک چین راہداری کے خلاف ہلاکت انگیز منصوبے کا آغاز 2002 میں ہی کر دیا گیا تھا، جب پاکستان نے گوادر کی بندر گاہ پر چین کی مدد سے کام شروع کیا تھا۔ اس پورے خطے میں بھارت کا سب سے مستحکم دوست ایران ہے۔ یہ دوستی افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ کی ایرانی پالیسی سے جڑی ہوئی ہے۔ جب بھی افغانستان میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومت آئی، بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اس کے مخالفین کو اسلحہ، ٹریننگ، یہاں تک کہ افرادی قوت تک فراہم کی۔
افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت کا قیام بھارت اور ایران کا مشترکہ ہدف ہے۔ گوادر میں چین نے بندر گاہ کا کام شروع کیا تو بھارت نے گوادر سے صرف بہتر کلو میٹر کے فاصلے پر چاہ بہار کے ایرانی شہر میں ایک گہرے پانیوں کی بندر گاہ پر کام شروع کر دیا۔ ایران کی یہ پہلی گہرے پانیوں کی بندر گاہ بنائی جا رہی تھی۔ اس سے پہلے ایران کے پاس بندر عباس کی ایک بندر گاہ تھی جو صرف دس ہزار ٹن کارگو کی اہلیت رکھتی تھی جب کہ زیادہ تر جہاز 25 ہزار ٹن کارگو والے ہوتے ہیں۔ اس لیے زیادہ ترایرانی جہاز دبئی میں مال اتارتے پھر چھوٹے جہازوں میں ایران لے کر آتے۔ بندر عباس ویسے ہی ہرمز کی تنگ پٹی پر واقع ہے اور امریکی جنگی بیڑے بھی وہاں گھومتے رہتے ہیں، اس لیے ایران کو بھارت نے مدد فراہم کی تا کہ وہاں چاہ بہار بندر گاہ بنے اور گوادر کا توڑ کیا جاسکے۔
کچھ عرصہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت نے کام روکے رکھا۔ لیکن جیسے ہی 2012 میں گوادر پورٹ کا انتظام سنگا پور سے لے کر چین کو دیا گیا، بھارت نے امریکا کی پابندیوں کی پروا کیے بغیر چاہ بہار بندر گاہ پر کام دوبارہ شروع کردیا۔ یہ منصوبہ ایران کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کو ملانے کا ہے۔ اس کے لیے بھارت نے کثیر لاگت سے افغانستان میں دلٓارم شہر سے ایرانی سرحدی شہر زرنج تک موٹروے بنا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چاہ بہار سے نو سو کلو میٹر ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے جو بامیان کے افغان صوبے تک جائے گی جہاں ہزارہ قبائل آباد ہیں اور جو ہمیشہ ایران کے اتحادی رہے ہیں۔ وہاں کی ''آئرن اور'' ''ORE IRON''کو بھارت کی اسٹیل ملز تک پہنچایا جائے گا۔
پاکستان اور چین کے درمیان موجودہ معاہدے کے بعد اس مسابقت میں بہت تیزی آئی ہے۔ بھارتی کابینہ نے چاہ بہار بندر گاہ کے لیے 85.12 ملین ڈالر منظور کیے ہیں جس سے اس کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت ہر سال 22 ملین ڈالر اس بندر گاہ کے انتظام پر خرچ کرے گا۔ سات مئی 2015 کو ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ عباس احمد اخوندی اور بھارتی وزیر جہاز رانی و ٹرانسپورٹ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت بھارت دس سال کے لیے یہ بندر گاہ استعمال کرے گا اور دس سال بعد اس پر کی گئی تمام تعمیرات اور مشینری ایرانی ملکیت تصور ہو گی۔ بھارت وہاں ایک کثیر المقاصد کارگو ٹرمینل بنا رہا ہے اور ساتھ ساتھ عارضی مال رکھنے کی بہت بڑی گودی بھی۔
اس بھارت ایران معاہدے کا سرپرست امریکا ہے جو 24 نومبر کو ایران کے چھ ممالک کے ساتھ ایٹمی توانائی معاہدے کے بعد ایران کو اس خطے میں اپنا چوکیدار سمجھنے لگا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ نومبر سے اب تک ایران سے جو تجارتی پابندیاں اٹھی ہیں تو صرف چھ ماہ میں ایران نے سات ارب ڈالر کی تجارت کی ہے۔ امریکا نے افغانستان میں قائم اپنی ٹوڈی حکومت کو بھی اس معاہدے کا حصہ بننے کو کہا۔ افغانستان نے پہلے بھارت سے بامیان میں جاحی گاک کے لوہے کے ذخائر کا معاہدہ کیا اور اب ایران میں افغانستان کے سفیر شائدہ محمد ابدالی نے ریلوے لائن اور ایران سے تین ارب ڈالر کی تجارت کے معاہدات مکمل کر لیے ہیں جن پر چند روز میں دستخط ہو جائیں گے۔
چار ممالک کا میڈیا اس بھارت، ایران اور افغانستان معاشی راہداری کے فوائد پر رطلب اللسان ہے۔ اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ میں شیلم کالج کے پروفیسر اور عبرانی (Hebrew) یونیورسٹی کے فیلوز مستقل مضامین لکھ رہے ہیں کہ اس منصوبے سے ایران عالمی تجارتی برادری کا حصہ بنے گا اور دنیا کے لیے کم خطرناک ہو جائے گا۔ اس کے بعد مغربی میڈیا، اور پھر بھارتی اور ایرانی میڈیا۔ آپ ان کے ٹیلی ویژن کھول لیں، ان کے اخبارات اٹھا لیں، ویب سائٹس پر چلے جائیں آپ کو ایک ہی بحث ملے گی کہ گوادر کی بندر گاہ اور پاک چین معاشی راہداری سے پہلے چاہ بہار افغانستان راہداری پر تجارت شروع کر دی جائے تو پھر چین اور پاکستان کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔
یوں تو ایک سیدھا سادا کاروباری عمل لگتا ہے اور اسے ایسا ہی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن کاروبار، معیشت اور سرمائے کی ہوس نے موجودہ دور میں جو بھیانک جرائم کیے ہیں ان کی ایک جھلک پاکستان کی سرزمین پر نظر آ رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے دبئی میں امریکی، یورپی اور اسرائیلی سرمایہ کاری شروع ہوئی تو سب نے یہ طے کیا کہ اگر بیروت زندہ سلامت اور ہنستا بستا رہا تو دبئی اس کے سامنے نہیں چل سکے گا۔ پہلے حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ شروع کروائی گئی۔ حزب اللہ کے حسن نصراللہ تو بیروت میں جنگ کے دوران لاکھوں لوگوں کے ہجوم سے خطاب کرتے رہے لیکن اسرائیلی بم عام شہریوں، عمارتوں، پلوں اور سڑکوں پر برستے رہے اور بیروت ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔اس کے بعد پورے لبنان کو شیعہ سنی لڑائی میں اسقدر الجھایا گیا کہ وہ آج تک امن کو ترس رہا ہے۔
یہی تجربہ عراق میں دہرایا گیا تا کہ وہ ایرانی فوجی طاقت اور معاشی قوت کے مقابلے میں ابھر نہ سکے۔ افغانستان میں امن کی راہ کو مسدود کرنے کے لیے امت مسلمہ کے اسی اختلاف کو ابھارا گیا۔ پچانوے فیصد افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوئی، پرامن بھی تھی اور اسے پاکستان نے تسلیم بھی کر لیا تھا لیکن ایک معمولی سی اقلیت کو اسلحہ، سرمایہ یہاں تک کہ افرادی قوت دے کر ان کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ آج پاکستان اس کا تختہ مشق ہے۔ بھارت اور امریکا کے کاسہ لیس صرف ایک ہی مقصد لے کر اکٹھے ہیں کہ اگر چاہ بہار معاشی راہداری نے پھلنا پھولنا ہے تو پاکستان کو پرامن نہیں رہنے دینا۔پاکستان کے دشمن یہاں صرف بدامنی چاہتے ہیں، سب بے چینی اور قتل و غارت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بہتے خون میں کسی ایرانی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ ان کے ہم مسلک کا خون بہہ رہا ہے، کسی بھارتی کو اس بات پر خوشی نہیں ہو گی اگر پاکستان میں شیعہ سنی آپس میں متحد ہو جائیں۔
پاکستان میں بسنے والے شیعہ اور سنی دونوں کوپاکستان سے باہر بسنے والے ہم مسلک حکومتوں کے پرچم دفن کرنا ہونگے۔ جو اس ملک کی سرزمین پر بیٹھ کر صرف مسلک کی بنیاد پر کسی دوسرے ملک کی خیرخواہی اور سلامتی کی بات کرتا ہے وہ اس ملک میں اپنی ہی قبر کھود رہا ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہوا تو باچا خان کو بھارت تحفہ تو دے سکتا ہے، اس کے پرچم برداروں کو پناہ نہیں دے گا، علماء کو دیوبند اور بریلی میں تقریر کے لیے تو بلا لے گا مگر اپنی سرزمین پر آباد نہیں ہونے دے گا۔ اس طرح ایران بھی مشہد کی زیارت کے لیے راستہ کھولے رکھے گا مگر کسی پاکستانی کو ایرانی قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت تک نہ دے گا کہ اس نے تو عراق کی جنگ میں مارے جانے والے پاکستانیوں کو بھی خارجی قبرستان میں دفنایا تھا۔ اس سے پہلے کہ کراچی بیروت، بلوچستان، لبنان اور پاکستان کو عراق بنانے کا خواب دیکھنے والے کامیابی کی طرف بڑھیں، ہمیں اس کاروباری مسابقت کے عفریت کو روکنا ہو گا۔
یہ رعایا جلوس اور ہڑتالیں تو نہ کرتی مگر جب بھی کوئی دوسرا بادشاہ ان کے ملک پر حملہ آور ہوتا تو وہ اس کا ساتھ دیتی اور یوں ایک بدترین غیر ملکی فاتح کی جگہ نسبتاً بہتر غیر ملکی فاتح حکومت کرنے لگتا۔ لیکن آج کے دور کی معیشت اور کاروباری مسابقت کی جنگ نے اتنے ملک برباد کیے ہیں، اتنے شہر اجاڑے ہیں، اسقدر قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہے کہ کروڑوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ایک ملک یا علاقے نے خود کو ترقی دینا ہو، اسے معاشی طور پر مستحکم کرنا مقصود ہو تو اس کے مقابلے پر آنے والے ملک، شہر یا علاقے کو بدترین خانہ جنگی کا شکار کیا جاتا ہے، اسے قتل و غارت کے طوفان میں غرق کیا جاتا ہے، اس پر عالمی دباؤ کے تحت ایک جنگ مسلط کی جاتی ہے اور کبھی کبھی اس پر حملہ کر کے، اس کے وسائل کو قابو میں لے کر اسے مستقل لوٹا جاتا ہے۔ یہ ہے موجودہ صدی کا معاشی، اقتصادی اور کاروباری میدان کا ''عالمی اخلاقی اصول''۔
اسی ''عالمی اخلاقی اصول'' کے تحت پاکستان اور چین کے معاشی راہداری منصوبے کی مخالفت میں علاقائی گدھ اکٹھا ہونا شروع ہو گئے ہیں تا کہ اس منصوبے کے پرندے کو پرواز سے پہلے ہی گلا گھونٹ کر مار دیا جائے۔ پاک چین راہداری کے خلاف ہلاکت انگیز منصوبے کا آغاز 2002 میں ہی کر دیا گیا تھا، جب پاکستان نے گوادر کی بندر گاہ پر چین کی مدد سے کام شروع کیا تھا۔ اس پورے خطے میں بھارت کا سب سے مستحکم دوست ایران ہے۔ یہ دوستی افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ کی ایرانی پالیسی سے جڑی ہوئی ہے۔ جب بھی افغانستان میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومت آئی، بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اس کے مخالفین کو اسلحہ، ٹریننگ، یہاں تک کہ افرادی قوت تک فراہم کی۔
افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت کا قیام بھارت اور ایران کا مشترکہ ہدف ہے۔ گوادر میں چین نے بندر گاہ کا کام شروع کیا تو بھارت نے گوادر سے صرف بہتر کلو میٹر کے فاصلے پر چاہ بہار کے ایرانی شہر میں ایک گہرے پانیوں کی بندر گاہ پر کام شروع کر دیا۔ ایران کی یہ پہلی گہرے پانیوں کی بندر گاہ بنائی جا رہی تھی۔ اس سے پہلے ایران کے پاس بندر عباس کی ایک بندر گاہ تھی جو صرف دس ہزار ٹن کارگو کی اہلیت رکھتی تھی جب کہ زیادہ تر جہاز 25 ہزار ٹن کارگو والے ہوتے ہیں۔ اس لیے زیادہ ترایرانی جہاز دبئی میں مال اتارتے پھر چھوٹے جہازوں میں ایران لے کر آتے۔ بندر عباس ویسے ہی ہرمز کی تنگ پٹی پر واقع ہے اور امریکی جنگی بیڑے بھی وہاں گھومتے رہتے ہیں، اس لیے ایران کو بھارت نے مدد فراہم کی تا کہ وہاں چاہ بہار بندر گاہ بنے اور گوادر کا توڑ کیا جاسکے۔
کچھ عرصہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت نے کام روکے رکھا۔ لیکن جیسے ہی 2012 میں گوادر پورٹ کا انتظام سنگا پور سے لے کر چین کو دیا گیا، بھارت نے امریکا کی پابندیوں کی پروا کیے بغیر چاہ بہار بندر گاہ پر کام دوبارہ شروع کردیا۔ یہ منصوبہ ایران کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کو ملانے کا ہے۔ اس کے لیے بھارت نے کثیر لاگت سے افغانستان میں دلٓارم شہر سے ایرانی سرحدی شہر زرنج تک موٹروے بنا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چاہ بہار سے نو سو کلو میٹر ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے جو بامیان کے افغان صوبے تک جائے گی جہاں ہزارہ قبائل آباد ہیں اور جو ہمیشہ ایران کے اتحادی رہے ہیں۔ وہاں کی ''آئرن اور'' ''ORE IRON''کو بھارت کی اسٹیل ملز تک پہنچایا جائے گا۔
پاکستان اور چین کے درمیان موجودہ معاہدے کے بعد اس مسابقت میں بہت تیزی آئی ہے۔ بھارتی کابینہ نے چاہ بہار بندر گاہ کے لیے 85.12 ملین ڈالر منظور کیے ہیں جس سے اس کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت ہر سال 22 ملین ڈالر اس بندر گاہ کے انتظام پر خرچ کرے گا۔ سات مئی 2015 کو ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ عباس احمد اخوندی اور بھارتی وزیر جہاز رانی و ٹرانسپورٹ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت بھارت دس سال کے لیے یہ بندر گاہ استعمال کرے گا اور دس سال بعد اس پر کی گئی تمام تعمیرات اور مشینری ایرانی ملکیت تصور ہو گی۔ بھارت وہاں ایک کثیر المقاصد کارگو ٹرمینل بنا رہا ہے اور ساتھ ساتھ عارضی مال رکھنے کی بہت بڑی گودی بھی۔
اس بھارت ایران معاہدے کا سرپرست امریکا ہے جو 24 نومبر کو ایران کے چھ ممالک کے ساتھ ایٹمی توانائی معاہدے کے بعد ایران کو اس خطے میں اپنا چوکیدار سمجھنے لگا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ نومبر سے اب تک ایران سے جو تجارتی پابندیاں اٹھی ہیں تو صرف چھ ماہ میں ایران نے سات ارب ڈالر کی تجارت کی ہے۔ امریکا نے افغانستان میں قائم اپنی ٹوڈی حکومت کو بھی اس معاہدے کا حصہ بننے کو کہا۔ افغانستان نے پہلے بھارت سے بامیان میں جاحی گاک کے لوہے کے ذخائر کا معاہدہ کیا اور اب ایران میں افغانستان کے سفیر شائدہ محمد ابدالی نے ریلوے لائن اور ایران سے تین ارب ڈالر کی تجارت کے معاہدات مکمل کر لیے ہیں جن پر چند روز میں دستخط ہو جائیں گے۔
چار ممالک کا میڈیا اس بھارت، ایران اور افغانستان معاشی راہداری کے فوائد پر رطلب اللسان ہے۔ اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ میں شیلم کالج کے پروفیسر اور عبرانی (Hebrew) یونیورسٹی کے فیلوز مستقل مضامین لکھ رہے ہیں کہ اس منصوبے سے ایران عالمی تجارتی برادری کا حصہ بنے گا اور دنیا کے لیے کم خطرناک ہو جائے گا۔ اس کے بعد مغربی میڈیا، اور پھر بھارتی اور ایرانی میڈیا۔ آپ ان کے ٹیلی ویژن کھول لیں، ان کے اخبارات اٹھا لیں، ویب سائٹس پر چلے جائیں آپ کو ایک ہی بحث ملے گی کہ گوادر کی بندر گاہ اور پاک چین معاشی راہداری سے پہلے چاہ بہار افغانستان راہداری پر تجارت شروع کر دی جائے تو پھر چین اور پاکستان کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔
یوں تو ایک سیدھا سادا کاروباری عمل لگتا ہے اور اسے ایسا ہی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن کاروبار، معیشت اور سرمائے کی ہوس نے موجودہ دور میں جو بھیانک جرائم کیے ہیں ان کی ایک جھلک پاکستان کی سرزمین پر نظر آ رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے دبئی میں امریکی، یورپی اور اسرائیلی سرمایہ کاری شروع ہوئی تو سب نے یہ طے کیا کہ اگر بیروت زندہ سلامت اور ہنستا بستا رہا تو دبئی اس کے سامنے نہیں چل سکے گا۔ پہلے حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ شروع کروائی گئی۔ حزب اللہ کے حسن نصراللہ تو بیروت میں جنگ کے دوران لاکھوں لوگوں کے ہجوم سے خطاب کرتے رہے لیکن اسرائیلی بم عام شہریوں، عمارتوں، پلوں اور سڑکوں پر برستے رہے اور بیروت ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔اس کے بعد پورے لبنان کو شیعہ سنی لڑائی میں اسقدر الجھایا گیا کہ وہ آج تک امن کو ترس رہا ہے۔
یہی تجربہ عراق میں دہرایا گیا تا کہ وہ ایرانی فوجی طاقت اور معاشی قوت کے مقابلے میں ابھر نہ سکے۔ افغانستان میں امن کی راہ کو مسدود کرنے کے لیے امت مسلمہ کے اسی اختلاف کو ابھارا گیا۔ پچانوے فیصد افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوئی، پرامن بھی تھی اور اسے پاکستان نے تسلیم بھی کر لیا تھا لیکن ایک معمولی سی اقلیت کو اسلحہ، سرمایہ یہاں تک کہ افرادی قوت دے کر ان کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ آج پاکستان اس کا تختہ مشق ہے۔ بھارت اور امریکا کے کاسہ لیس صرف ایک ہی مقصد لے کر اکٹھے ہیں کہ اگر چاہ بہار معاشی راہداری نے پھلنا پھولنا ہے تو پاکستان کو پرامن نہیں رہنے دینا۔پاکستان کے دشمن یہاں صرف بدامنی چاہتے ہیں، سب بے چینی اور قتل و غارت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بہتے خون میں کسی ایرانی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ ان کے ہم مسلک کا خون بہہ رہا ہے، کسی بھارتی کو اس بات پر خوشی نہیں ہو گی اگر پاکستان میں شیعہ سنی آپس میں متحد ہو جائیں۔
پاکستان میں بسنے والے شیعہ اور سنی دونوں کوپاکستان سے باہر بسنے والے ہم مسلک حکومتوں کے پرچم دفن کرنا ہونگے۔ جو اس ملک کی سرزمین پر بیٹھ کر صرف مسلک کی بنیاد پر کسی دوسرے ملک کی خیرخواہی اور سلامتی کی بات کرتا ہے وہ اس ملک میں اپنی ہی قبر کھود رہا ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہوا تو باچا خان کو بھارت تحفہ تو دے سکتا ہے، اس کے پرچم برداروں کو پناہ نہیں دے گا، علماء کو دیوبند اور بریلی میں تقریر کے لیے تو بلا لے گا مگر اپنی سرزمین پر آباد نہیں ہونے دے گا۔ اس طرح ایران بھی مشہد کی زیارت کے لیے راستہ کھولے رکھے گا مگر کسی پاکستانی کو ایرانی قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت تک نہ دے گا کہ اس نے تو عراق کی جنگ میں مارے جانے والے پاکستانیوں کو بھی خارجی قبرستان میں دفنایا تھا۔ اس سے پہلے کہ کراچی بیروت، بلوچستان، لبنان اور پاکستان کو عراق بنانے کا خواب دیکھنے والے کامیابی کی طرف بڑھیں، ہمیں اس کاروباری مسابقت کے عفریت کو روکنا ہو گا۔