جناح کا پاکستان کہاں ہے
بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اس قسم کے واقعات پر مکمل قابو پائے جانے کی کوئی خاص امید نظر نہیں آ رہی۔
گئے بدھ کو جو کچھ ہوا وہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ وطن عزیز میں عقیدے کی بنیاد پر اجتماعی قتل، مخالف مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ، غیر مسلموں کی بستیوں کو تاراج کرنا، ان کی عبادت گاہوں کو بموں سے اڑانا اور ان کی لڑکیوں کو جبری تبدیلیٔ مذہب کے بعد ان سے شادی کرنا وہ سفاکانہ کارروائیاں ہیں، جو کم از کم دو دہائیوں سے معمول بن چکی ہیں۔ دو برس قبل ایک اور پرامن اور بے ضرر بوہری کمیونٹی کے علاقے میں بم دھماکے کرکے انھیں ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب باری ایک اور پرامن و بے ضرر اسماعیلی کمیونٹی کی تھی۔ سو انھیں بھی 45 لاشوں کا تحفہ دے کر خون میں نہلا دیا گیا۔
بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اس قسم کے واقعات پر مکمل قابو پائے جانے کی کوئی خاص امید نظر نہیں آ رہی۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ اول، ریاست کے منطقی جواز سے جو ابہام پایا جاتا ہے، وہ مذہبی شدت پسندی پر قابو پانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ دوئم، حکمران اشرافیہ اپنی نااہلی کے باعث عملاً راست اقدامات کرنے کی نہ صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی نیت، صرف بلند آہنگ دعوے کر سکتی ہے۔ سوئم، ریاستی ادارے فرسودہ انتظامی ڈھانچے کے باعث اس پیشہ ورانہ اہلیت سے عاری ہیں جو پائیدار اور دیرپا فیصلہ سازی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں امن و امان کا معاملہ ہو یا ترقیاتی منصوبہ سازی یا اس پر عمل درآمد، حکومتی اقدامات ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس لیے جب تک 68 برس سے جاری غلطیوں، خرابیوں اور خامیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، معاملات کی درستی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر حکمران معاملات کی درستی کے لیے واقعی کسی حد تک سنجیدہ ہو گئے ہیں، تو انھیں تین سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول، بابائے قوم کے تصورِ پاکستان کو کس نے اور کیوں مسخ کیا؟ دوئم، بابائے قوم کے تصور سے انحراف کا اب تک کیا نقصان ہوا ہے؟ سوئم، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کن جرأت مندانہ اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، تو اس پر تسلسل کے ساتھ بحث ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس بات کا بار بار اعادہ ضروری ہے کہ پاکستان کسی ایک فرقہ یا مسلک کے مسلمانوں کی کاوشوں کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ برصغیر میں موجود تمام فرقوں، مسالک اور فقہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا نتیجہ ہے۔ اب تمام مصلحتوں اور غیر ضروری پردہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوام اور نوجوان نسل کو یہ بتانا ہو گا کہ دسمبر 1906میں ڈھاکا کے نواب سلیم اللہ کے گھر محمڈن ایجوکیشنل سوسائٹی کے اجلاس کے موقعے پر پورے برٹش انڈیا سے 3 ہزار مسلمان اکابرین و مندوبین شریک ہوئے۔ جہاں انھوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سیاسی جماعت بنانے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس نئی سیاسی جماعت کا نام آل انڈیا مسلم لیگ اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا سر سلطان محمد شاہ آغا خان مرحوم نے تجویز کیا، جنھیں تمام مندوبین نے متفقہ طور پر اس نئی جماعت کا پہلا صدر منتخب کیا۔
لوگوں کے علم میں یہ بات بھی لانے کی ضرورت ہے کہ اس جماعت کے کئی برس تک خزانچی رہنے والے راجہ صاحب محمود آباد (امیر احمد خان) اثنائے عشری شیعہ تھے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ایک اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کی قبریں آج بھی لی مارکیٹ کراچی کے اسماعیلی قبرستان میں موجود ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی رہنما نواب بہادر یار جنگ مہدوی (جنھیں بلوچستان میں ذکری کہا جاتا ہے) عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک اور مرکزی رہنما چوہدری ظفر اللہ خان کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا۔ لہٰذا عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ ایک ایسا گلدستہ تھا، جس میں ہر عقیدے اور ہر مسلک کے مسلمان شامل تھے اور سب نے مل جل کر ایک وسیع البنیاد ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کی تھی۔
لوگوں کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر فقہہ یا مسلک کی بنیاد پر ریاست کا قیام مقصود ہوتا یا تھیوکریٹک ریاست بنانے کی خواہش ہوتی تو برٹش انڈیا میں جید علما کی کمی نہیں تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک باصفاء اور صاحب بصیرت عالم دین موجود تھا۔ مگر برصغیر کے مسلمانوں کا مطمع نظر ایک جدید جمہوری ریاست کا قیام تھا، اسی لیے انھوں نے عصری تعلیم سے آراستہ خوش لباس و خوش اطوار محمد علی جناح کا انتخاب کیا۔ لوگوں کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے جھنڈے میں سفید پٹی بلاسبب نہیں ہے۔ یہ غیر مسلموں کو ظاہر کرتی ہے۔ جنھیں بانی ملک نے مساوی حقوق دینے کا دستور ساز اسمبلی کو پابند بنایا تھا۔ اس لیے ملک پر کسی ایک مسلک یا فقہہ کی بالادستی کا خواب، ریاست کے منطقی جواز کو مبہم اور ریاستی انتظام کو پیچیدہ بنانے کا سبب بن رہا ہے۔
چوہدری محمد علی سے جنرل ضیا الحق تک جن حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے اسلامائزیشن کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کی، اس کے نتیجے میں فقہی اور مسلکی تقسیم مزید گہری ہوئی۔ اسی طرح مذہب کو بنیاد بنا کر افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے کی خواہش نے ملک کو مذہبی شدت پسندی، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا تحفہ دیا۔ ضیا الحق کے حواری اور لواحقین، پرسکون اور پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ اس کا خمیازہ پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس ملک کی بنیاد وفاقیت پر ہے۔ 1940ء کی قرارداد کو دیکھ لیں یا 1946ء کے عام انتخابات میں صوبوں کے فیصلہ کا جائزہ لیں۔ ہر صورت میں ہمیں پاکستان کا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ وفاقی نوعیت ہی کا نظر آتا ہے۔ لہٰذا اسے وحدانی ریاست میں تبدیل کرنے کی خواہش نے ریاست گریز جذبات کو پروان چڑھانے اور مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی خواہش کے نتیجے میں پہلے ملک دولخت ہوا اور اب بلوچستان سمیت ہر چھوٹے صوبے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ مگر حکمران وفاقیت کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے سے گریزاں ہیں۔ تمام صوبے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظور ی کے باوجود اسلام آباد کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں، جو وفاقیت کے تصور کی نفی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے کن جرأت مندانہ اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے؟ لیکن عرض یہ ہے کہ نیک نیتی، سنجیدگی اور جرأت مندی کے ساتھ اگر اقدامات نہیں کیے جا سکتے اور مختلف نوعیت کی مصلحتیں راستے کی دیوار بنی رہیں گی، تو پھر اس موضوع پر مزید گفتگو بیکار ہے۔ لیکن اگر حکمرانوں کی سوچ میں سنجیدگی کی ذرا سی بھی رمق موجود ہے، دل میں اس ملک کے عوام کے لیے کسی قدر درد موجود ہے اور واقعی ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی خواہش ہے تو پھر جرأت مندی کے ساتھ چار کلیدی نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اول، مذہبی شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ان کا کسی مصلحت کے بغیر قلع قمع کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے ان قوانین کی تنسیخ یا ان میں مناسب ترمیم ضروری ہے، جو حقوق انسانی کی شقوں سے متصادم اور مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کو تحفظ دینے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
دوئم، پورے ملک میں یکساں مقامی حکومتی نظام اب وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ اس نظام کو ایڈہاک بنیادوں پر بے دلی سے نافذ کرنے کے بجائے حقیقی روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوں کو ضرور اعتماد میں لیا جائے، لیکن قانون سازی وفاقی پارلیمنٹ کرے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مقامی حکومتی نظام نظم حکمرانی کی تیسری سطح یعنی Third tier ہو، یعنی سیاسی انتظامی اور مالیاتی طور پر اسی طرح بااختیار ہو جیسے کہ وفاقی نظام میں صوبے ہوتے ہیں۔ ملک کے ان تمام شہروں کو جن کی آبادی 10 لاکھ یا اس سے زیادہ ہو، خودمختار میٹروپولیٹن سسٹم متعارف کرایا جائے۔ سوئم، پولیس کی تطہیر اور تنظیم نو کی جائے۔ پولیس میں بھرتیاں مقامی بنیادوں پر کی جائیں اور پولیس کمشنر ضلع میئر کے تابع ہو۔ پولیس سے دہرا نظام ختم کیا جائے۔ چہارم، جس طرح وفاقی اور صوبائی سول سروسز ہیں، اسی طرز پر میونسپل سروسز کا کمیشن قائم کیا جائے اور منتخب افسران اور اہلکاروں کی ضلعی انتظام اور ترقیاتی منصوبہ بندی میں تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
اگر اس اندوہناک اور سفاکانہ سانحے سے حکمرانوں نے سبق نہیں سیکھا اور ان عناصر پر ہاتھ ہلکا رکھنے کی کوشش کی جو ملک میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے ذمے دار ہیں، تو پوری مشق بے سود رہے گی۔ یہ بات پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے کہ وہ عناصر جو ملک کے آئین، اس کے وجود اور اداروں کو تسلیم نہ کرتے ہوں، ان کے ساتھ نہ تو مذاکرات کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی رعایت دی جا سکتی ہے۔ اس لیے عوام کے منتخب نمایندوں کو محض ذاتی پرخاش کی خاطر تنگ کرنے کے بجائے ان عناصر کے خاتمے پر توجہ مرکوز کی جائے، تو مثبت نتائج آ سکتے ہیں۔ وگرنہ چہار سو لوگ یہی سوال کرتے نظر آئیں گے کہ جناح کا پاکستان کہاں ہے؟