کہاں کا انصاف
امریکن میڈیا اس خبر کو پچھلے کئی دنوں سے کور کر رہا ہے اور ہال میں موجود لوگوں کے بار بار انٹرویوز دکھا رہا ہے
یقیناً آپ نے گارلینڈ (ٹیکس) میں ہونے والی شوٹنگ کے بارے میں پڑھایا سنا ہوگا۔
کچھ دن پہلے وہیں (جہاں شوٹنگ ہوئی) ایک کارٹون ڈرائنگ مقابلہ ہو رہا تھا جہاں بہت سے لوگ اکٹھا تھے پھر وہاں دو دہشت گرد آگئے اور انھیں ایک جانباز پولیس، عام پولیس بھی نہیں ایک جانباز ٹریفک پولیس نے ہلاک کرکے وہاں موجود تمام لوگوں کی جان بچالی، حملہ کرنے والے دہشت گردوں میں سے ایک پاکستانی مسلمان بھی تھا جس کا نام نادر صوفی تھا۔
امریکن میڈیا اس خبر کو پچھلے کئی دنوں سے کور کر رہا ہے اور ہال میں موجود لوگوں کے بار بار انٹرویوز دکھا رہا ہے جو اس حملے سے بہت سہم گئے ہیں، حملے کے ایک ہی دن بعد یہ خبر بھی آنے لگی کہ حملے کی ذمے داری آئی ایس آئی ایس نے لے لی ہے اور میڈیا سمیت پوری امریکن قوم سخت غصے میں ہے ایسے لوگوں پر جو انسانیت کے خلاف ہیں اور معصوموں کو جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پچھلے کچھ دن سے ہم نے اس واقعے کی بہت تفصیل سے جانچ کی ہے اور اسی لیے ہمارے کچھ سوال ہیں اس میڈیا سے جو اس واقعے کی یکطرفہ تصویر دیکھ رہا ہے، سوال یہ کہ وہاں یہ مقابلہ کون کروا رہا تھا، مقابلہ کس قسم کے کارٹون ڈرائنگ کا ہو رہا تھا؟ اور وہ دو لڑکے اس وقت وہاں کیا کر رہے تھے جن کو مار دیا گیا؟ کل ملاکر کتنے لوگوں کو ان لڑکوں نے ہلاک کیا؟ ان سوالوں کے جواب شاید آپ کو مشکل سے ملیں، یہ سوال وہ ہیں جن کے جواب شاید اوباما کو پتہ تھے اسی لیے انھوں نے اس واقعے پر پبلک کے سامنے بات کرنے سے انکار کردیا، یہ وہی صدر اوباما ہیں جو امریکا کی کسی ریاست میں اگر تیز ہوا بھی چل جائے تو اس پر پندرہ مختلف ٹی وی چینلز پر کمنٹس دینے سے نہیں چوکتے۔آئیے ہم آپ کو ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔
اس وقت وہاں جو مقابلہ ہو رہا تھا اس کا نام تھا "Draw Mohd" جس میں حصہ لینے والے ہر شخص کو نعوذ باللہ حضور پاکؐ کا اسکیچ بنانا تھا جیتنے والے کو دس ہزار ڈالر انعام ملنا تھا، مقابلے کے انعقاد کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ ہر شخص کو ''فریڈم آف اسپیچ'' ہے اور وہ جس طرح چاہیں اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔
''فریڈم آف اسپیچ'' امریکا میں باقاعدہ قانون ہے جو فرسٹ ایمنڈمنٹ کہلاتا ہے، ڈرائنگ کا مقابلہ شام پانچ بجے شروع ہوا اور یو ٹیوب پر لائیو فیڈ پر دکھایا جا رہا تھا، ہر تھوڑی دیر میں کوئی شخص مائیک پر آتا اور پوری دنیا کو یہ بتاتا کہ وہ یہ ڈرائنگ کیوں بنانا چاہتا ہے، جب کہ اس ایونٹ کا نام ''فریڈم آف اسپیچ'' دیا گیا تھا لیکن ہر شخص مائیک پر آکر صرف مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اظہار کر رہا تھا اور وہ ایسی چیز کرکے دکھانا چاہتا تھا جو اسلام کی رو سے منع ہے یعنی حضور پاکؐ کی تصویر بنانا۔
چھ بج کر باون منٹ پر ہال میں موجود ایک شخص نے مائیک پر اعلان کیا کہ باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی ہے اور ہم نے دروازے اندر سے بند کرلیے ہیں، ہم کو صحیح طرح نہیں پتہ کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔
چلیے اب دوسرے سوال کا جواب، یہ ایونٹ کون کروا رہا تھا؟ 2013 میں دو امریکنوں نے ایک انٹرنیٹ بلاگ شروع کیا جو فریڈم آف اسپیچ پر تھا۔ اس میں کوئی بڑی بات نہیں، امریکا میں ہر ہفتے ہزار سے زیادہ بلاگ شروع ہوتے ہیں اور چھ سو سے زیادہ بند ہوجاتے ہیں یہ بھی ایک عام سا بلاگ تھا جس کا نام تھا امریکن فریڈم ڈیفنس، اس کو چلانے والے دو افراد تھے ایک خاتون پامیلا گیلر جو اپنی ریگولر جاب کے ساتھ اس بلاگ کو ہفتے میں دس گھنٹے دیتیں اور ان کی طرح رابرٹ اسپنر بھی دس بارہ گھنٹے اس بلاگ کو دیتے۔
2013 میں اس بلاگ نے اپنی آمدنی 3,721 ڈالر سالانہ دکھائی تھی جو کسی بھی بلاگ کی آمدنی کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن پھر اسی سال یہ بلاگ اچانک مسلمانوں کے خلاف زیادہ لکھنے لگا اور یہ صاف صاف نظر آنے لگا کہ اس بلاگ کو ایسے لوگ سپورٹ کر رہے ہیں جو مسلمانوں کا امیج خراب کرنا چاہتے ہیں، درجنوں فریڈم آف اسپیچ کے مسائل ہیں امریکا میں لیکن پھر بھی اس بلاگ کو سوائے مسلمانوں کے خلاف بات کرنے کے کچھ نظر نہیں آتا، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس بلاگ نے 2014 میں یکدم پانچ لاکھ چالیس ہزار ڈالر کما لیے، اس میں سے آدھے پامیلا اور آدھے رابرٹ نے رکھ لیے یعنی دس گھنٹے ہفتے میں کام کرنے کے حساب سے ان کی تنخواہ چار سو ڈالر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ بنی، اب اتنے ڈالرز اس بلاگ کو کون دے رہا تھا کسی کو نہیں پتہ۔
پامیلا وہی ہیں جو Altlasshrug.com نامی ویب سائٹ چلاتی تھیں، آج سے دس سال پہلے اور اس ویب سائٹ پر سب سے پہلے حضور پاکؐ کی تصویر پوسٹ کرنے کی گستاخی کی گئی تھی اور اس کے بعد وہی تصویر 2006 میں ڈینش اخبار میں چھاپی گئی۔ پامیلا وہی خاتون ہیں جنھوں نے ''اوباما مسلمان ہیں'' مشہور کیا تھا اور 2008 میں یہ بھی کہا تھا کہ 1980 میں اوباما پاکستان گئے تھے ڈرگس کے لیے اور جہاد لے کر واپس آئے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان دو ''دہشت گردوں'' کو گولی کس نے ماری؟ اس ایونٹ کی سیکیورٹی پر پچاس ہزار ڈالرز سے زیادہ خرچ کیے گئے تھے، وہ کوئی بہت بڑا اسٹیڈیم نہیں تھا ایک چھوٹا سا کمیونٹی سینٹر تھا، تو ظاہری سی بات ہے کہ وہاں کے چپے چپے پر سیکیورٹی ہوگی، اس کے باوجود گیٹ پر ان دو ٹیررسٹوں کو جس نے مارا وہ ٹریفک پولیس کا اہلکار تھا، ہر پولیس والے کو ٹریننگ دی جاتی ہے کہ گولی گھٹنے کے نیچے مارو، اس کے باوجود ٹریفک پولیس نے ان کو موقع پر ہی مار دیا۔
آخری سوال کہ ان دہشت گردوں نے کتنے لوگوں کو مارا؟ اس کا جواب ہے کسی کو نہیں، وہ اندر جا ہی نہیں پائے تھے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ باہر ہوا کیا ہے، ایسا کیا بولا باہر انھوں نے سیکیورٹی سے کہ انھیں جان سے مار دیا گیا۔
بیشتر سوال جو ہمارے ذہن میں تھے ان کے جواب مل گئے صرف ایک سوال کا جواب نہیں ملا، ان دو دہشت گردوں کو مار دیا بہت اچھا کیا، ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن وہ 125 دہشت گرد جو اس وقت ہال کے اندر موجود تھے اور جنھوں نے اپنے پینٹ برش کو تلوار بناکر دو بلین مسلمانوں کے دل میں اتار دیا ان کا حساب کون لے گا؟