سیاست کے کھیل
43 سال پہلے وہی دن اور وہی مہینہ تھا جب ہم پر بھارت نے کاری ضرب لگائی تھی۔
KARACHI:
خواجہ سعد رفیق کو نااہل قرار دینے کی خبر پندرہ گھنٹوں سے گونج رہی تھی۔ منگل کی صبح بھی وہی سوالات تھے کہ بے ضابطگی ہوئی ہے یا دھاندلی؟ سوشل میڈیا پر بھی خواجہ صاحب کی حمایت و مخالفت میں پیغامات کا تیز بہاؤ تھا۔ ''ریلوے کی پٹری سے اتر جانا اور اسپیکر کو مخاطب کرنا کہ اگلی باری آپ کی ہے'' جیسے معاملات فیس بک کی زینت بن رہے تھے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا مٹھائی بانٹنا اور بھنگڑے ڈالنا ٹی وی اسکرین پر دکھایا جا رہا تھا۔ مسلم لیگ والے دفاعی پوزیشن پر آجانے کے باوجود ٹی وی ٹاک شوز میں مقابلہ کر رہے تھے۔ انتخابی عملے کی نااہلی کی سزا امیدوار اور ووٹر کو کیوں ملے؟ یہ سوالات تلخ و ترش ہوتے خواجہ سعد رفیق کی پریس کانفرنس کے تھے۔
2013 کے انتخابات کے بعد سے عمران خان نے دھاندلی کی مسلسل بات کی تھی۔ چار حلقوں کو کھلوانے اور چالیس تک مان جانے کے بعد لیگیوں نے اسے آئین سے ہٹ کر قرار دے دیا۔ انتخابات گزرنے پر پہلے سال میں تحریک انصاف نے دارالخلافے کی جانب مارچ کا اعلان کیا۔ دن گزرتے رہے اور 14 اگست آگئی۔ اسلام آباد کا ڈی چوک اور دو پارٹیوں کے دھرنے تاریخ میں پہلی دفعہ عجیب و غریب کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ دن گزرتے رہے اور شروع میں نواز شریف کے حامی دفاعی پوزیشن پر آتے گئے۔ دھرنوں میں افتخار چوہدری، خلیل رمدے، نجم سیٹھی، محبوب انور سمیت درجن بھر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ آصف زرداری، خورشید شاہ، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی، احسن اقبال، اسحق ڈار پر تنقید کے نشتر چلائے گئے۔ حمزہ شہباز کے علاوہ مریم نواز اور سلمان شہباز کو مجبور کیا گیا کہ وہ الزامات کے جوابات دیں۔ ہم لمحہ بہ لمحہ خواجہ سعد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
مینڈیٹ چوری کرنے اور 35 پنکچر جیسے جملے محاورے بن گئے۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے سے محسوس ہوا کہ پورا ملک تھم سا گیا ہے۔ نہ آگے بڑھ سکتے تھے اور نہ پیچھے ہٹ سکتے تھے۔ پاکستانی اپنی گفتگو اور بحث و مباحثے میں دو حصوں میں بٹ چکے تھے۔ ہر گروہ کے خیالات میں شدت آتی جا رہی تھی۔ نواز شریف اور عمران خان کے لیے تعریف و تنقید آسمان کو چھو رہی تھی۔ ہر طرف اندھے مقلد تھے جو صرف اور صرف اپنے قائد کی حمایت کر رہے تھے۔ ہر جانب نابینا پیروکار تھے جو صرف اور صرف مخالف سیاستدان پر تنقید کر رہے تھے۔ احتجاج نہ ختم ہو رہا تھا اور نہ کسی نتیجے پر پہنچ رہا تھا۔ ایسے میں دھرنا 126ویں دن تک پہنچ گیا۔ دسمبر کا سولہواں دن اور سن دو ہزار چودہ کا کیلنڈر پاکستانیوں کے سامنے آگیا۔ ہم آہستہ آہستہ خواجہ سعد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
43 سال پہلے وہی دن اور وہی مہینہ تھا جب ہم پر بھارت نے کاری ضرب لگائی تھی۔ ہماری نادانیاں اور عیار دشمن کی کارستانیاں۔ اس مرتبہ ہم نادان تو نہیں البتہ غافل ضرور تھے۔ بزدل دشمن نے پشاور کے اسکول میں ڈیڑھ سو پھول جیسے بچوں کو ہمیں پھول پہناکر انھیں مٹی میں اتارنے پر مجبور کردیا۔ اس نقصان نے قوم کو متحد کردیا۔ ایک دوسرے سے دست و گریباں عوام و قائدین یکجا ہوگئے۔ دھرنا ختم ہوا اور پوری قوم دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک میز کے گرد جمع ہوگئی۔ ہم لمحہ بہ لمحہ خواجہ سعد رفیق کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
نواز شریف دھرنے کے خاتمے اور قوم کے اتحاد سے سکون کی کیفیت میں آگئے۔ یہ اطمینان ان پر ایک ذمے داری ڈال رہا تھا کہ وہ دھاندلیوں کی تحقیقات کروائیں۔ ان پر یہ فرض عائد کر رہا تھا کہ آنے والی نسلوں کو شفاف انتخابات نصیب ہوں۔ ملک میں کوئی انتخابی نتیجے کو ماننے سے انکاری نہ ہو۔ کوئی نہ کہے کہ اسے جان بوجھ کر ہروایا گیا ہے۔ کالم نگار کی تو اس سے بڑھ کر خواہش ہے کہ ایک ووٹ کی برتری سے حکومت پانچ سالہ میعاد پوری کرے۔ نہ کوئی جھکے نہ دبے اور نہ بکے۔ کوئی لوٹا نہ بنے اور یہ میوزیم میں نظر آئے۔ پھر ہمارے ملک میں بھی برطانیہ کی طرح ہو کہ ایک ممبر اتنا بیمار ہو کہ اسمبلی میں نہ آسکے۔ پھر حکومت اور اپوزیشن کے ووٹ برابر ہوجائیں۔ پھر انتخابات کا اعلان ہو۔ پھر 635 کے ایوان میں جب مارگریٹ تھیچر 318 ویں سیٹ جیت لیں تو ملکہ انھیں فون کرکے ملاقات کی دعوت دیں۔ دو خواتین ملیں تو مل کر اپنے ملک کی پارلیمان کی سب سے بڑی قائد کو حکومت بنانے کی دعوت دیں۔ پھر مارگریٹ تھیچر اپنے برطانیہ کی ملکہ کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر دعوت قبول کرنے کا اشارہ دیں۔ جوانی میں اخبارات میں مراسلات سے ادھیڑ عمری میں کالم نگاری تک یہ تمنا اب تک تمنا بن کر دل کے کسی گوشے میں موجود ہے۔ یقین جانیے! اب بھی ہمارا موضوع خواجہ سعد رفیق کا انتخابی حلقہ ہے۔
وہ ایک غریب سیاسی کارکن تھا۔ مزدوروں کا حامی اور اپنے پریس کے باہر تھڑے پر سو جانے والا خواجہ رفیق۔ وہ فقیر منش، جسے لیڈر کے بجائے کارکن کہلوانا پسند تھا۔ بھٹو کے دور میں انھیں شہید کردیا گیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں خواجہ سعد رفیق کے ساتھ احمد رضا قصوری تھے۔ سعد نے کہا کہ ہمارے والد کی شہادت کے وقت ہم بچے تھے۔ جوان ہوتے تو ہم بھی قصوری صاحب کی طرح اپنے والد کے قتل کی ایف آئی آر درج کرواتے۔ یہاں تک سعد ٹھیک ہیں۔ غلطی ان سے کہاں ہوئی؟
شہید کارکن کے بیٹے کو شریف برادران نے عزت بھی دی اور ایک مقام دلانے کی کوشش کی۔ انتخابی سیاست میں ایک مقام پانا بھی سعد رفیق کی خواہش تھی۔ وہ اپنے والد کی طرح صرف کارکن کہلوانے پر قناعت کرنے کو تیار نہ تھے۔ اقتدار کی غلام گردشیں ان کا ٹارگٹ تھیں۔ نوجوان سعد نے مشرف دور میں پارٹی کی جانب سے اہمیت نہ ملنے پر عمران خان کا شریک سفر ہونا چاہا۔ معاملات طے ہو رہے تھے کہ نواز شریف نے روٹھے سعد کو منایا۔ اب تو آپ کو یقین آگیا کہ آج ہمارے کالم کے ہیرو خواجہ سعد رفیق ہی ہیں۔
سن گیارہ کے سرد موسم نے سعد کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ تحریک انصاف کی مقبولیت ان کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے خطرہ تھی۔ یہ ڈر اور شک اس وقت یقین میں بدلا جب سعد کی کامیابی کو تسلیم نہ کیا گیا۔ چار حلقوں میں لاہور کا NA-125 جس کی قومی اسمبلی میں نمایندگی خواہ سعد رفیق کر رہے تھے۔ مئی میں کامیابی کے رنگ کے ٹھیک دو برسوں بعد بھنگ پڑ گئی۔ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق بے ضابطگیوں کی بنا پر خواجہ سعد نااہل قرار پا چکے ہیں۔ کالم کی اشاعت تک معاملہ سپریم کورٹ میں ہوگا۔ ہم کھل کر وہ بات تحریر نہیں کرسکتے جو منگل کی صبح ٹی وی چینل پر کی تھی۔