پاکستان کی معیشت میں بہتری کے اشارے
دہشتگردی کی روک تھام میں دلچسپی نہیں لی گئی، نہ ڈیم بنائے گئے اور نہ ہی قوم کو کوئی بڑا پروجیکٹ دیا۔
وزیراعظم نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے ابھی تقریباً 2 سال مکمل ہوئے ہیں لیکن موڈیز، بلومبرگ اور دیگر ملکی و غیر ملکی ادارے اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان 2 سال کے دوران پاکستان کی معیشت بہتری کی راہ پر گامزن ہوگئی ہے۔ جس وقت وزیراعظم محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا اس وقت ملک کی معاشی صورتحال انتہائی ابتر تھی اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا۔ قومی خزانہ خالی تھا۔ ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا تھا۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ قیام پاکستان سے 2008، 6700 ارب روپے، 2008 سے 2013 تک 8100 ارب روپے قرضہ تھا، 2008 سے 2013 تک جو قرضہ حاصل کیا گیا تھا جو وہ ملکی تاریخ کا ریکارڈ قرض تھا۔ جب کہ موجودہ حکومت کو 14800 ارب روپے کا قرضہ ورثے میں ملا تھا۔ گردشی قرضہ 14700 ارب تھا۔ ملک میں دہشتگردی عروج پر تھی، توانائی کا بحران عذاب بن گیا تھا۔ کارخانے اور فیکٹریاں مسلسل بند ہورہے تھے۔ بیروزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ غربت میں اضافہ ہورہا تھا، بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑدیا تھا۔ جب کہ ملکی حالت کو بہتر بنانے کے لیے زرداری حکومت نے کوئی قابل ذکر دلچسپی نہیں لی۔ بس قرض لیے اور اپنی مدت پوری کی۔
زرداری دور میں توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ دہشتگردی کی روک تھام میں دلچسپی نہیں لی گئی، نہ ڈیم بنائے گئے اور نہ ہی قوم کو کوئی بڑا پروجیکٹ دیا۔ انرجی، تعلیم اور دیگر شعبوں میں بہتری لانے کے بجائے کرپشن میں اضافہ کیا گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آگئے۔ اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار تباہ ہوگیا تھا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ روپیہ کی قدر مسلسل گر رہی تھی۔ پاکستان کے قریبی دوست ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز کررہے تھے۔ قوم بری طرح مایوس ہوچکی تھی۔ ان حالات میں وزیراعظم نواز شریف کو ملک میں امن، توانائی بحران کے خاتمے اور معیشت کو بہتر بنانے کے چیلنج کا سامنا تھا۔ اقتصادی حالات کی بہتری کے لیے وزیرِاعظم محمد نوازشریف کا اپنا وژن ہے، انھوں نے اپنے منشور کے ٹائٹل پر یہ سلوگن دیا تھا کہ مضبوط معیشت، خوشحال پاکستان، وزیراعظم کی رہنمائی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے معیشت کی بہتری کے لیے جو پالیسیاں بنائیں وہ محض دو سال میں نتیجہ خیز ثابت ہونے لگیں اور ملک و بیرون ملک میں معیشت کی بہتری کے حوالے سے رپورٹیں سامنے آنے لگیں۔
پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج اور اس سے معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے باوجود نواز حکومت نے معیشت کا رخ موڑ دیا۔ کمزور معیشت اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باوجود حکومت نے معاشی کامیابیوں کا سفر شروع کردیا۔ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کے باعث روپے کی قدر میں اضافہ ہوا۔ اسٹاک ایکسچینج بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں قابل ذکر حد تک کم کی گئیں۔ بجلی کی قیمت میں 2 بار کمی کی گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں کمی کی جب کہ حکومت ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لیے بھی اقدامات کررہی ہے۔
نواز حکومت نے دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا اور پاک فوج کی مدد سے بھرپور کامیابیاں حاصل کیں۔ اس آپریشن میں حکومت اور فوج کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ دوسری جانب کراچی میں آپریشن کرکے قتل و غارت گردی کے گھناؤنے کھیل کا خاتمہ کردیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور لاقانونیت کے خلاف ایسے اقدامات کیے گئے کہ کراچی کے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ پھانسی کی سزا بحال کرکے خطرناک مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ حکومت اور پاک فوج کی کوششوں سے ملک میں قیام امن کی راہ ہموار ہوگئی۔ اس سلسلے میں مزید کارروائیاں جاری ہیں۔
قیام امن کے بعد دوسرا سب سے بڑا چیلنج موجودہ حکومت کے لیے توانائی بحران تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی وزیراعظم نواز شریف نے توانائی بحران کے خاتمے کے لیے کام شروع کردیا تھا۔ ملکی وسائل سے کئی پروجیکٹ شروع کیے گئے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارا عظیم ہمسایہ دوست چین تاریخ میں پہلی بار 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس میں توانائی کے کئی منصوبے بھی شامل ہیں جو توقع ہے کہ 2018 تک مکمل ہوجائیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات مل جائے گی۔ حکومت لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے لیے تمام وسائل استعمال میں لانا چاہتی ہے۔ ان میں پانی، کوئلہ، ہوا اور دھوپ بھی شامل ہے۔ سستی بجلی کے حصول کے لیے پاور ونڈ اور سولر انرجی کے متعدد منصوبوں پر کام شروع کردیا گیا ہے، ابھی چند دن قبل وزیرِاعظم نے بھاولپور میں ملک کے پہلے شمسی توانائی کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا ہے، اس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ابھی یہاں سے 100 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے اور آپ دیکھیں گے کہ یہاں سے مزید 900 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔
یہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا سولر انرجی پلانٹ ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہم ملک میں روشنیاں واپس لائیں گے اور 2018 تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے، جوں جوں معاشی صورتحال بہتر ہوتی جارہی ہے، مہنگائی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی عوام دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ 10 سال میں پہلی مرتبہ مہنگائی کی شرح اپنی کم ترین سطح یعنی 3.2 فیصد پر آگئی ہے۔ واضح رہے کہ 1991 میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی جو کم ہو کر 9.8 فیصد رہ گئی تھی جب کہ دوسرے دور حکومت سے پہلے مہنگائی کی شرح 13.7 فیصد تھی جو بعد میں کم ہو کر 3.1 فیصد کی شرح پر آگئی تھی۔
پاکستان کے اقتصادی اشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں، یہی وجہ ہے کہ چین نے بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے، امریکی سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر اتفاق کیا ہے۔ قطر، ترکی اور متعدد ممالک کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جب کہ متعدد ممالک نے سرمایہ کاری کے لیے اپنی رضامندی بھی ظاہر کی۔ مذکورہ سطور سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لیے آیندہ چند برس انتہائی اہم ہیں کیونکہ ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کی جو بنیاد ابھی رکھی گئی ہے آیندہ برسوں کے اس کے ثمرات کھل کر سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔