مظلوم کراچی

یہاں دن دیہاڑے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے لیکن وزیراعلٰی سندھ کہتے ہیں کہ استعفی کیوں دوں؟

قیادت کا امتحان ایسے موقع پر ہی ہوتا ہے کہ وہ مسائل کا حل نکالے جن میں سرِ فہرست امن وامان اور شہریوں کی زندگی کا تحفظ ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
'کراچی' پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو ملک کو 65 سے 70 فیصد ریوینیو کما کر دیتا ہے۔ کراچی وہ شہر ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب اور قومیت اپنے دامن میں پناہ لینے والوں کو ترقی کے مواقع دیتا ہے۔


یہ وہی شہر ہے جو پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا، جہاں قائداعظم، قائد ملت اور مادر ملت کی آخری آرام گاہیں ہیں لیکن کیا اس شہر کو وہ توجہ دی گئی جو اسکا حق تھا؟ یہ وہی شہر ہے جس کی راتیں جاگتی تھیں لیکن اب تو اکثر دن بھی سوجاتے ہیں؎


یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

کے مصداق اس شہر نے روزانہ کی بنیاد پر بیس پچیس لاشیں بھی اُٹھائیں ہیں اور لگاتار دو دو دن کی جبری بندش ہڑتالوں کی صورت میں بھی برداشت کی ہے لیکن سلام ہے کراچی میں بسنے والے جنہیں عرف عام میں کراچی ۔ آئٹس کہا جاتا ہے کو، کہ جنہوں نے روشنیوں کے شہر سے لیکر خوف کی محبوس فضا تک کا سفر کرنے کے باوجود ہر روز صبح نئے عزم و حوصلے کیساتھ گھر سے نکلتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ شہر کی بگڑی ہوئی امن و امان کی صورتحال انکی گھر واپسی کو یقینی نہیں بناتی۔


جب کور کمانڈر کراچی لیفٹینینٹ جنرل نوید مختار ایک سیمینار میں کراچی کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے گویا آپ عروس البلاد منی پاکستان کا نوحہ سن رہے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ سیاسی و انتظامی نا اہلی نے اس شہر کے مسائل میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے تو لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے کہ سیاست دانوں کی غیر سنجیدگی کا تو یہ عالم ہے کہ جیسے ہی ملک میں جاری دہشت گردی کے تانے بانے 'را ' سے جڑتے دکھائی دئے تو ایک سابق (شاید) جیالے جو صوبائی وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں ، نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پیپلزپارٹی کے دو لیڈران پر را کے ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگا دیا۔ جواباً انہوں نے بھی الفاظ کی گولہ باری کردی۔ حالات کی حساسیت اور نزاکت کا شاید انہیں احساس ہے نہ ادراک۔


یہاں دن دیہاڑے اسماعیلی برادری کے افراد کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے لیکن وزیراعلٰی سندھ کہتے ہیں کہ استعفی کیوں دوں؟ جب کارکردگی خراب ہوگی تو دے دوں گا ابھی کارکردگی بُری نہیں ہے باقی دھماکے تو دوسرے صوبے میں بھی ہوتے ہیں تو کیا وہاں کے وزرائے اعلی نے استعفی دیا؟ ان سے تو کیا ہی شکوہ کریں کہ انکی 'گڈ گورننس' کے شاہکار جابجا سندھ کے دیگر شہروں اور علاقوں میں بکھرے پڑے ہیں لیکن وفاقی حکومت بھی اس ضمن میں کچھ خاص سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔ اسنے بھی اپنی کل جماعتی کانفرنس اور کھانوں سے فراغت کے بعد یہاں کا رخ کیا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ گمشدہ ہی رہے۔



دنیا کے تمام میٹروپولیٹن شہروں کو کم و بیش اسی طرح کے مسائل کا سامنا کسی نہ کسی دور میں کرنا پڑا ہے۔ جب شہر پر مکمل قبضے کی جنگ ہوتی ہے تو معاشی و معاشرتی وسائل آبادی کے مقابلے میں کم پڑنے لگتے ہیں، روز مرہ ضروریات زندگی کی نایابی بھی سر اٹھاتی ہے اور مختلف مافیاز بھی سرگرم ہوتی ہیں۔ ان حالات کو کنٹرول کرنا ہمیشہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ قیادت کا امتحان ایسے موقع پر ہی ہوتا ہے کہ وہ مسائل کا حل نکالے جن میں سرِ فہرست امن وامان اور شہریوں کی زندگی کا تحفظ ہے۔



بلاشبہ ہمارا پورا ملک ہی دہشت گردی کا شکار ہے لیکن کراچی یوں منفرد ہے کہ اس آتش فشاں سے وقتاً فوقتاً لاوا ابلتا رہتا ہے۔ کبھی فرقہ وارانہ رنگ میں تو کبھی لسانیت کے لبادے میں، کبھی اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کی صورت تو کبھی بھتے کی وجہ سے ہونیوالی ورداتوں کی صورت میں۔ لہذٰا اس شہر کو اسطرح بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جاسکتا کہ 1250 شہریوں کی حفاظت کے لئے تو ایک اہلکار دستیاب ہو لیکن اہم شخصیات کے گھروں اور ذاتی حفاظت پر اہلکار تعینات ہوجائیں۔ پولیس وین کو اہلکار دھکے مار مار کر واپس تھانے لیجاتے ہوں لیکن پروٹوکول کی گاڑیاں چمچمارہی ہوں۔


کراچی کی رونقیں اسی وقت بحال ہوسکتی ہیں جب سیاسی قیادت اپنا دامن بچانے کے بجائے اپنی ذمہ داری نبھائے اور اس شہر کی ابتلاء میں اسے تنہا نہ چھوڑے۔

[poll id="427"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

Load Next Story