6 ننھے پھول ایک بار پھر نااہلی کی بھینٹ چڑھ گئے
6معصوم بچے اِس دنیا سے چلےگئے کہ ریسکیو ادارے وقت پرنہ پہنچ سکے، اور المیہ دیکھیے کہ ندامت اور شرمندگی اب بھی نہیں ہے۔
گذشتہ روز لاہور کے علاقے شاد باغ میں گھر میں آگ لگنے سے 6 معصوم بچے کوئلے کا ڈھیر بن گئے۔ جاں بحق ہونے والے میں مناہل، زین، انہا، دْعا جبکہ جڑواں بچے اذان اور ازہان شامل ہیں۔ مرحوم بچوں کی عمریں ڈیڑھ برس سے چودہ برس کے درمیان تھیں۔ اہل علاقہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ریسکیو کے عملے نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا اور وہ بروقت جائے حادثہ پر نہیں پہنچا جس کی وجہ سے جانی نقصان میں اضافہ ہوا۔
لاہور کے ضلعی رابطہ افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے اعلی سطحی اِختیاراتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو کہ فرائض میں غفلت برتنے والے افراد کے خلاف کارروائی کرے گی۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، ایک مقولہ ہے ناں کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ لیکن ان معصوم کلیوں کے بھسم ہوجانے سے ہمارے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوئے، معمولات زندگی کا متاثر ہونا تو دور کی بات ہم نے یہ تک نہیں سوچا اِن معصوموں کے والدین کس قرب سے گزر رہے ہونگے، سوچتے بھی کیوں کہ یہ بچے کسی اعلیٰ شخصیت کے تو نہیں تھے، میڈیا پر خبر نشر ہوئی، ہیڈلائن بھی بنی، خوبصورت آواز میں اداسی بھرے بیک گرائونڈ کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر سارا دن خبر چلتی رہی، مگر آج نہ کہیں یہ خبر ہے اور نہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ۔
معصوم بچوں کو منوں مٹی تلے دفن کردیا گویا سب جذبات، دکھ اور بہتے آنسو سب ختم ہوگیا۔معصوم بچے جن کی عمریں ڈیڑھ سے چودہ برس تھیں دفن تو ہوگئے مگر ان کی تدفین کے بعد کئی سوال ادھورے چھوڑ گئی ہے۔ کیا ہم ریسکیو کے معاملے میں اس قدر کمزور ہیں کہ شہر لاہور میں بھی آگ پر قابو نہیں پا سکتے؟ ہماری ریسکیو سروس اتنی سست رو ہے کہ آگ لگنے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچے جبکہ وہ دس منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہاں اپنے قارئین کو یہ بھی بتادوں کہ پنجاب اسمبلی کی مسافت بھی جائے حادثہ سے دس منٹ ہے، جبکہ اہم سرکاری عمارات، پاک فوج کے رہائشی کواٹررز، پاکستان ریلویز کے دفاتر اور ریلوے اسٹیشن بھی جائے حادثہ کے قرب و جوار میں موجود ہیں۔
ان حساس اور اہم سرکاری عمارات کے قریب ہونے کے باوجود فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کا بروقت نہ پہنچنا لمحہ فکریہ ہے اور ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے شاد باغ میں آتشزدگی کے باعث جھلس کر جاں بحق ہونے والے بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری رپورٹ طلب کرلی جس کے بعد حکام نے فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122 کے دفاتر کا ریکارڈ سیل کردیا۔
لیکن کیا انکوائری کمیشن بٹھانے، دفاتر سیل کرنے سے ہی مسئلے کا حل ممکن ہے؟ میری نظر میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ جہاں آگ لگنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں وہیں ریاستی اداروں اور حکومتی سطح پر فوری انتظامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ لیکن ملک میں موجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفراسٹرکچر، فائر مین حضرات کا تربیت یافتہ نہ ہونا، غفلت اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں ڈیزل اور پانی کا موجود نہ ہونا بھی جائے وقوعہ پر پہنچنے میں ایک رکاوٹ ہے۔
شاد باغ واقعہ میں بھی یہ عوامل درپیش رہے ہیں۔ مال روڈ اور اُس کے اطراف کی سڑکوں پر پولیس کی جانب سے زمبابوے ٹیم کی سیکورٹی کے لئے فل ڈریس ریہرسل کی جارہی تھی جس کی وجہ سے آس پاس کی سڑکوں پر ٹریفک جام رہی۔ جبکہ کینال روڈ پر بھی شاد باغ کے قریب تنگ سڑک ہونے کی وجہ سے کافی ہجوم رہتا ہے۔ خیر یہ تو ایک مفروضہ ہے مگر اس بارے میں سرکاری اداروں کو مکمل تحقیقات کروا کر رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنی چاہئے اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کو سزا دینے چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی غفلت برتنے سے پہلے ہزار بار سوچے۔
اس بات سے قطعاََ انکار نہیں کہ فائر بریگیڈ کے ڈپارٹمنٹ میں خدمت اور کام سے لگن کے جذبے سے سرشار لوگ موجود ہیں، یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے جانیں بھی قربان کردیتے ہیں مگر اس میں غلطی تو حکام بالا کی ہے جن کی غفلت کی وجہ سے فائر مین بھی اپنا کام سرانجام نہیں دے سکتے۔
مناسب تربیت، حفاظت کے انتظامات اور گاڑیوں کی مرمت، پٹرول اور پانی کا گاڑی میں موجود ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ان انتظامات کے بغیر فائرمین بھی اپنی کاکردگی بہ احسن انجام نہیں دے پاتے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دیگر حادثات کی طرح یہ حادثہ بھی فائلوں کی زینت بنانے کے بجائے اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور فائر بریگیذ سمیت دیگر ریسکیو سروسز کی بہتری کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ آگ کی وجہ سے ہلاکتوں کاسلسلہ صرف پنجاب ہی تک محدود نہیں۔ خیبر پختوانخواہ، بلوچستان، سندھ یعنی سارا پاکستان اس سے متاثر ہے مگر انتظامات سارے ملک کے ہی ایک جیسے ہیں، کراچی ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی کے واقعے نے ملک کے اہم تجارتی مرکز میں بھی فائر سیفٹی کے انتظامات کے قلعی کھول دی تھی۔ صوبہ خیبر میں تبدیلی کے دعوایداروں کے کھوکھلے نعرے بھی گزشتہ ماہ پشاور میں ہونے والے طوفان باد و باراں نے ہوا میں تحلیل کردئیے تھے۔ اب وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ پھر کسی ماں کی گود نہ اجڑے۔ پھر کسی بہن کا کلیجہ چھلنی نہ ہو، پھر کسی چینل پر دکھ بھری موسیقی کے ساتھ ہیڈلائنز نہ بنیں۔
[poll id="425"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لاہور کے ضلعی رابطہ افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے اعلی سطحی اِختیاراتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو کہ فرائض میں غفلت برتنے والے افراد کے خلاف کارروائی کرے گی۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، ایک مقولہ ہے ناں کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ لیکن ان معصوم کلیوں کے بھسم ہوجانے سے ہمارے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوئے، معمولات زندگی کا متاثر ہونا تو دور کی بات ہم نے یہ تک نہیں سوچا اِن معصوموں کے والدین کس قرب سے گزر رہے ہونگے، سوچتے بھی کیوں کہ یہ بچے کسی اعلیٰ شخصیت کے تو نہیں تھے، میڈیا پر خبر نشر ہوئی، ہیڈلائن بھی بنی، خوبصورت آواز میں اداسی بھرے بیک گرائونڈ کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر سارا دن خبر چلتی رہی، مگر آج نہ کہیں یہ خبر ہے اور نہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ۔
معصوم بچوں کو منوں مٹی تلے دفن کردیا گویا سب جذبات، دکھ اور بہتے آنسو سب ختم ہوگیا۔معصوم بچے جن کی عمریں ڈیڑھ سے چودہ برس تھیں دفن تو ہوگئے مگر ان کی تدفین کے بعد کئی سوال ادھورے چھوڑ گئی ہے۔ کیا ہم ریسکیو کے معاملے میں اس قدر کمزور ہیں کہ شہر لاہور میں بھی آگ پر قابو نہیں پا سکتے؟ ہماری ریسکیو سروس اتنی سست رو ہے کہ آگ لگنے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچے جبکہ وہ دس منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہاں اپنے قارئین کو یہ بھی بتادوں کہ پنجاب اسمبلی کی مسافت بھی جائے حادثہ سے دس منٹ ہے، جبکہ اہم سرکاری عمارات، پاک فوج کے رہائشی کواٹررز، پاکستان ریلویز کے دفاتر اور ریلوے اسٹیشن بھی جائے حادثہ کے قرب و جوار میں موجود ہیں۔
ان حساس اور اہم سرکاری عمارات کے قریب ہونے کے باوجود فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کا بروقت نہ پہنچنا لمحہ فکریہ ہے اور ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے شاد باغ میں آتشزدگی کے باعث جھلس کر جاں بحق ہونے والے بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری رپورٹ طلب کرلی جس کے بعد حکام نے فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122 کے دفاتر کا ریکارڈ سیل کردیا۔
لیکن کیا انکوائری کمیشن بٹھانے، دفاتر سیل کرنے سے ہی مسئلے کا حل ممکن ہے؟ میری نظر میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ جہاں آگ لگنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں وہیں ریاستی اداروں اور حکومتی سطح پر فوری انتظامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ لیکن ملک میں موجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفراسٹرکچر، فائر مین حضرات کا تربیت یافتہ نہ ہونا، غفلت اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں ڈیزل اور پانی کا موجود نہ ہونا بھی جائے وقوعہ پر پہنچنے میں ایک رکاوٹ ہے۔
شاد باغ واقعہ میں بھی یہ عوامل درپیش رہے ہیں۔ مال روڈ اور اُس کے اطراف کی سڑکوں پر پولیس کی جانب سے زمبابوے ٹیم کی سیکورٹی کے لئے فل ڈریس ریہرسل کی جارہی تھی جس کی وجہ سے آس پاس کی سڑکوں پر ٹریفک جام رہی۔ جبکہ کینال روڈ پر بھی شاد باغ کے قریب تنگ سڑک ہونے کی وجہ سے کافی ہجوم رہتا ہے۔ خیر یہ تو ایک مفروضہ ہے مگر اس بارے میں سرکاری اداروں کو مکمل تحقیقات کروا کر رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنی چاہئے اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کو سزا دینے چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی غفلت برتنے سے پہلے ہزار بار سوچے۔
اس بات سے قطعاََ انکار نہیں کہ فائر بریگیڈ کے ڈپارٹمنٹ میں خدمت اور کام سے لگن کے جذبے سے سرشار لوگ موجود ہیں، یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے جانیں بھی قربان کردیتے ہیں مگر اس میں غلطی تو حکام بالا کی ہے جن کی غفلت کی وجہ سے فائر مین بھی اپنا کام سرانجام نہیں دے سکتے۔
مناسب تربیت، حفاظت کے انتظامات اور گاڑیوں کی مرمت، پٹرول اور پانی کا گاڑی میں موجود ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ان انتظامات کے بغیر فائرمین بھی اپنی کاکردگی بہ احسن انجام نہیں دے پاتے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دیگر حادثات کی طرح یہ حادثہ بھی فائلوں کی زینت بنانے کے بجائے اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور فائر بریگیذ سمیت دیگر ریسکیو سروسز کی بہتری کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ آگ کی وجہ سے ہلاکتوں کاسلسلہ صرف پنجاب ہی تک محدود نہیں۔ خیبر پختوانخواہ، بلوچستان، سندھ یعنی سارا پاکستان اس سے متاثر ہے مگر انتظامات سارے ملک کے ہی ایک جیسے ہیں، کراچی ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی کے واقعے نے ملک کے اہم تجارتی مرکز میں بھی فائر سیفٹی کے انتظامات کے قلعی کھول دی تھی۔ صوبہ خیبر میں تبدیلی کے دعوایداروں کے کھوکھلے نعرے بھی گزشتہ ماہ پشاور میں ہونے والے طوفان باد و باراں نے ہوا میں تحلیل کردئیے تھے۔ اب وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ پھر کسی ماں کی گود نہ اجڑے۔ پھر کسی بہن کا کلیجہ چھلنی نہ ہو، پھر کسی چینل پر دکھ بھری موسیقی کے ساتھ ہیڈلائنز نہ بنیں۔
[poll id="425"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس