زمبابوے کا دورہ لاہور
دعا ہے کہ مستقبل میں جو بھی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں وہ پاکستان کا ہی ہو کسی ایک شہر کا نہیں۔
خواہش تو تھی کہ بات کا آغازسری لنکن ٹیم پر 2009 میں ہونے والے حملے سے کروں، لیکن پھر سوچا کہ جب خوشی کا موقع آ گیا ہے تو پھر تلخ یادوں کو زندہ کیوں کیا جائے ۔۔۔۔ اس لیے یہ طے کیا ہے کہ ماضی کو چھوڑ کر حال اور مستقبل کی بات کی جائے گی۔
ناجانے مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ قارئین مضمون کے ٹائٹل 'زمبابوے کا دورہ لاہور' سے کچھ مایوس مایوس ہوسکتے ہیں لیکن یقین کریں کہ اپنی اِس تحریر میں کوئی منفی بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ ہاں لیکن کچھ باتیں ہیں جن کا ذکر کرنا چاہوں گا، ہوسکتا ہے آپ بھی وہ باتیں سوچ رہے ہوں ۔ تو چلیں بات کا آغاز کرتے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ آج رات زمبابوے کی ٹیم لاہور پہنچ رہی ہے اور 6 سال بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونے جارہی ہیں ۔ جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے ۔ لیکن ہمارے کچھ المیات ہیں (المیہ کی جمع)۔ پہلا المیہ تو یہ کہ ہم اپنی بات لوگوں تک ٹھیک طرح سے پہنچانے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم کام تو کرلیتے ہیں لیکن کام کرنے سے پہلے نتائج کا نہیں سوچتے۔
گزشتہ دنوں زمبابوے کے دورہ پاکستان کے حوالے سے سیکورٹی پلان کی خبر آنکھوں کے آگے سے گزری۔ خبر کے مطابق زمبابوے کی ٹیم کو 'اسٹیٹ گیسٹ' کا درجہ دیا جائے۔ پھر 6000 پولیس اہلکار سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے جبکہ 60 گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر بھی ساتھ ہوگا۔ اِس قدر سخت سیکورٹی سے ہٹ کر قذافی اسٹیڈیم کے ارد گرد تمام سڑکیں بند کردی گئیں اور جب ٹیم سفر کرے گی تو اُس وقت بھی تمام مارکیٹیں اور سڑکیں بند ہوجائیں گی۔ پاکستان کے حالات کی نسبت یہ تمام حربے ٹھیک ہیں۔ اگرچہ اِس سے عام لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا مگر زمبابوے کا دورہ پاکستان پُرسکون انداز میں ختم ہوجائے اِس سے بڑھ کر ابھی ہمارے لیے کچھ اہم نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن اِس تمام تر سیکورٹی کے دیکھتے ہوئے خیالات نے ذہن میں جگہ بنانا شروع کی اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اِس قدر سیکورٹی جب رکھنی ہی تھی تو پھر یہ دورہ صرف لاہور تک ہی کیوں محدود رکھا گیا؟ آپ اعتراض کریں میں خود ہی یہ بات رکھ دیتا ہوں کہ اگرچہ یہ بات بھی ٹھیک ہے پشاور، کراچی اور کوئٹہ کے حالات ایسے نہیں کہ کوئی رسک لیا جائے ۔ لیکن اِن حالات کے باوجود بھی تو صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلی، فوج کی اعلیٰ قیادت سفر کرتی ہے تو غیر ملکی ٹیم کیوں نہیں؟ جب ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ مہمان ٹیم کو اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دینا ہی ہے تو پھر یہ بھی کوشش کرلینی چاہیے تھی کہ دیگر شہروں میں بھی میچ کروالیے جائیں۔ ویسے کسی نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ جس قدر سیکورٹی دی جارہی ہے اِس میں تو بلوچستان کے علاقے خضدار اور کراچی کے لیاری تو کیا جنگ زدہ علاقے میں بھی سیزیز منعقد ہوسکتی تھی۔
اعتراض یہاں ہر گز نہیں کہ سارے میچ لاہور میں کیوں ہورہے ہیں۔ اگر سارے میچ کراچی یا پشاور میں ہوتے تب بھی اعتراض اُسی طرح ہوتا۔ اُس کی ایک وجہ ہے اور وجہ یہ ہے کہ 5 میچ ایک ہی گراونڈ میں ہونے جارہے ہیں ۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ لاہور کے رہنے والے ایک ہی ٹیم کے خلاف 5 میچ دیکھنے کیوں جائیں گے؟ کوئی دفتر یا اسکول سے ایک دن چھٹی لے سکتا ہے 2 دن لے سکتا ہے لیکن کوئی 5 دن تو فارغ نہیں ہوسکتا تھا نا؟ اب آپ خود سوچیں کہ اگر طویل وقفے کے بعدہونے والے میچ میں گراونڈ خالی ہوں تو کس قدر منفی تاثر دنیا کو ملے گا کہ 6 سال بعد کرکٹ بحال ہوئی اور لوگ دیکھنے ہی نہیں پہنچے شاید وہاں کہ لوگوں کو کرکٹ دیکھنے کا شوق ہی نہیں۔
یہ سب باتیں کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر آج اِس مسئلہ پر غور نہ کیا گیا تو مستقبل میں بھی اِس طرح کے مسائل کا ہمیں سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیونکہ آج اگر زمبابوے لاہور کے علاوہ کہیں اور جانے سے منع کرسکتی ہے تو پھر دیگر ٹیمیں بھی اِس روش کو اپنا سکتی ہیں کہ ہم سارے میچ لاہور میں ہی کھیلیں گے کیونکہ ابھی کچھ ہی ماہ قبل کینیا کی ٹیم بھی لاہور کے دورہ پر ، ارے معاف کیجیے گا میرا مطلب پاکستان کے دورہ پر آئی تھی۔ اِس لیے ہمیں ٹیمیں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے حوالے سے جو تصویر آپ میڈیا پر دیکھتے ہیں تو اگرچہ مکمل غلط نہیں لیکن مکمل درست بھی نہیں ہے۔ یہاں لوگ بالکل اُسی طرح زندگی گزارتے ہیں جس طرح پوری دنیا میں۔ آج ہی کی خبر ہے کہ امریکہ میں ایک ریسٹورنٹ میں فائرنگ سے 9 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ یہ پورا دورہ بخیر و عافیت مکمل ہوجائے اور مستقبل میں جو بھی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں وہ پاکستان کا ہی ہو کسی ایک شہر کا نہیں تاکہ نہ یہاں احساس محرومی کا مسئلہ جنم لے اور نہ ہی دنیا کو یہ تاثر ملے کہ پاکستان میں ایک شہر کے علاوہ پورا ملک خطرے کی علامت ہے۔
[poll id="426"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ناجانے مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ قارئین مضمون کے ٹائٹل 'زمبابوے کا دورہ لاہور' سے کچھ مایوس مایوس ہوسکتے ہیں لیکن یقین کریں کہ اپنی اِس تحریر میں کوئی منفی بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ ہاں لیکن کچھ باتیں ہیں جن کا ذکر کرنا چاہوں گا، ہوسکتا ہے آپ بھی وہ باتیں سوچ رہے ہوں ۔ تو چلیں بات کا آغاز کرتے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ آج رات زمبابوے کی ٹیم لاہور پہنچ رہی ہے اور 6 سال بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونے جارہی ہیں ۔ جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے ۔ لیکن ہمارے کچھ المیات ہیں (المیہ کی جمع)۔ پہلا المیہ تو یہ کہ ہم اپنی بات لوگوں تک ٹھیک طرح سے پہنچانے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم کام تو کرلیتے ہیں لیکن کام کرنے سے پہلے نتائج کا نہیں سوچتے۔
گزشتہ دنوں زمبابوے کے دورہ پاکستان کے حوالے سے سیکورٹی پلان کی خبر آنکھوں کے آگے سے گزری۔ خبر کے مطابق زمبابوے کی ٹیم کو 'اسٹیٹ گیسٹ' کا درجہ دیا جائے۔ پھر 6000 پولیس اہلکار سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے جبکہ 60 گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر بھی ساتھ ہوگا۔ اِس قدر سخت سیکورٹی سے ہٹ کر قذافی اسٹیڈیم کے ارد گرد تمام سڑکیں بند کردی گئیں اور جب ٹیم سفر کرے گی تو اُس وقت بھی تمام مارکیٹیں اور سڑکیں بند ہوجائیں گی۔ پاکستان کے حالات کی نسبت یہ تمام حربے ٹھیک ہیں۔ اگرچہ اِس سے عام لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا مگر زمبابوے کا دورہ پاکستان پُرسکون انداز میں ختم ہوجائے اِس سے بڑھ کر ابھی ہمارے لیے کچھ اہم نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن اِس تمام تر سیکورٹی کے دیکھتے ہوئے خیالات نے ذہن میں جگہ بنانا شروع کی اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اِس قدر سیکورٹی جب رکھنی ہی تھی تو پھر یہ دورہ صرف لاہور تک ہی کیوں محدود رکھا گیا؟ آپ اعتراض کریں میں خود ہی یہ بات رکھ دیتا ہوں کہ اگرچہ یہ بات بھی ٹھیک ہے پشاور، کراچی اور کوئٹہ کے حالات ایسے نہیں کہ کوئی رسک لیا جائے ۔ لیکن اِن حالات کے باوجود بھی تو صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلی، فوج کی اعلیٰ قیادت سفر کرتی ہے تو غیر ملکی ٹیم کیوں نہیں؟ جب ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ مہمان ٹیم کو اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دینا ہی ہے تو پھر یہ بھی کوشش کرلینی چاہیے تھی کہ دیگر شہروں میں بھی میچ کروالیے جائیں۔ ویسے کسی نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ جس قدر سیکورٹی دی جارہی ہے اِس میں تو بلوچستان کے علاقے خضدار اور کراچی کے لیاری تو کیا جنگ زدہ علاقے میں بھی سیزیز منعقد ہوسکتی تھی۔
اعتراض یہاں ہر گز نہیں کہ سارے میچ لاہور میں کیوں ہورہے ہیں۔ اگر سارے میچ کراچی یا پشاور میں ہوتے تب بھی اعتراض اُسی طرح ہوتا۔ اُس کی ایک وجہ ہے اور وجہ یہ ہے کہ 5 میچ ایک ہی گراونڈ میں ہونے جارہے ہیں ۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ لاہور کے رہنے والے ایک ہی ٹیم کے خلاف 5 میچ دیکھنے کیوں جائیں گے؟ کوئی دفتر یا اسکول سے ایک دن چھٹی لے سکتا ہے 2 دن لے سکتا ہے لیکن کوئی 5 دن تو فارغ نہیں ہوسکتا تھا نا؟ اب آپ خود سوچیں کہ اگر طویل وقفے کے بعدہونے والے میچ میں گراونڈ خالی ہوں تو کس قدر منفی تاثر دنیا کو ملے گا کہ 6 سال بعد کرکٹ بحال ہوئی اور لوگ دیکھنے ہی نہیں پہنچے شاید وہاں کہ لوگوں کو کرکٹ دیکھنے کا شوق ہی نہیں۔
یہ سب باتیں کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر آج اِس مسئلہ پر غور نہ کیا گیا تو مستقبل میں بھی اِس طرح کے مسائل کا ہمیں سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیونکہ آج اگر زمبابوے لاہور کے علاوہ کہیں اور جانے سے منع کرسکتی ہے تو پھر دیگر ٹیمیں بھی اِس روش کو اپنا سکتی ہیں کہ ہم سارے میچ لاہور میں ہی کھیلیں گے کیونکہ ابھی کچھ ہی ماہ قبل کینیا کی ٹیم بھی لاہور کے دورہ پر ، ارے معاف کیجیے گا میرا مطلب پاکستان کے دورہ پر آئی تھی۔ اِس لیے ہمیں ٹیمیں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے حوالے سے جو تصویر آپ میڈیا پر دیکھتے ہیں تو اگرچہ مکمل غلط نہیں لیکن مکمل درست بھی نہیں ہے۔ یہاں لوگ بالکل اُسی طرح زندگی گزارتے ہیں جس طرح پوری دنیا میں۔ آج ہی کی خبر ہے کہ امریکہ میں ایک ریسٹورنٹ میں فائرنگ سے 9 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ یہ پورا دورہ بخیر و عافیت مکمل ہوجائے اور مستقبل میں جو بھی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں وہ پاکستان کا ہی ہو کسی ایک شہر کا نہیں تاکہ نہ یہاں احساس محرومی کا مسئلہ جنم لے اور نہ ہی دنیا کو یہ تاثر ملے کہ پاکستان میں ایک شہر کے علاوہ پورا ملک خطرے کی علامت ہے۔
[poll id="426"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس