امریکی اخبار نے پاکستانی کمپنی ’ایگزیکٹ‘ کا بھانڈا پھوڑ دیا

سافٹ ویئرکمپنی ایگزیکٹ جعلی آن لائن ڈپلومے اور ڈگریوں کی پیشکش کرکے سالانہ اربوں روپے کمارہی ہے، نیویارک ٹائمز


ویب ڈیسک May 18, 2015
اس بات کا قوی امکان ہے کہ جعلی ڈگریوں کی فروخت سے حاصل ہونے والا سرمایہ بول میڈیا گروپ میں استعمال ہوگا۔ فوٹو؛فائل

امریکی اخبار نیویارک ٹائمزنے ''ایگزیکٹ'' نامی پاکستانی سافٹ ویئرکمپنی کابھانڈا پھوڑدیا جومبینہ طورپر جعلی آن لائن ڈپلومے اور ڈگریوں کی پیشکش کرکے سالانہ اربوں روپے کمارہی ہے۔

https://img.express.pk/media/images/q74/q74.webp

https://img.express.pk/media/images/newyork-times/newyork-times.webp

ایکسپریس نیوزکے مطابق امریکا کے سب سے بڑے اخبار نیویارک ٹائمزنے کراچی میں قائم ادارے ایگزیکٹ (AXACT) کے متعلق رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ سافٹ ویئربرآمد کرنے والی پاکستان کی سب سے بڑی کمپنی ہونے کی دعویدار ایگزیکٹ کااصل کاروبار دنیابھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کرناہے اوراس مقصد کے لیے ایگزیکٹ کمپنی نے جعلی درس گاہوں کی سیکڑوں ویب سائٹس بنارکھی ہیں جہاں درجنوں شعبوں میں مختلف ڈگریاں آن لائن حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جب آپ ان ویب سائٹس پرجاتے ہیں تووہاں آپ کو مختلف پروفیسرحضرات خوش آمدید کہتے نظر آئیں گے۔



https://img.express.pk/media/images/q124/q124.webp

https://img.express.pk/media/images/ax/ax.webp

نیویارک ٹائمزکا ایگزیکٹ ہیڈکوارٹرز میں کام کرنے والے سابق ملازمین کے حوالے سے کہناہے کہ کمپنی میں 24گھنٹے سیلزایجنٹ کام کرتے ہیں اورصارفین کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہیں اورنہ صرف جعلی ڈگری کے حصول کے خواہش مندافراد کو تسلی بخش جواب دیاجاتا ہے بلکہ ایسے افرادجو حقیقی معنوں میں تعلیم کے لیے داخلے کے خواہش مندہوتے ہیں انھیں کسی نہ کسی کورس میں داخل کرادیا جاتاہے جوکبھی مکمل نہیں ہوتا۔ ایگزیکٹ کی سیلزٹیم ہائی اسکول ڈپلوماسے ڈاکٹریٹ ڈگری تک فروخت کرتی ہے اوراس کے لیے صارفین کو 350ڈالر سے 4 ہزار ڈالرتک اداکرنا پڑتے ہیں۔

https://img.express.pk/media/images/q223/q223.webp

نیویارک ٹائمزکے مطابق یہ سیلزایجنٹ انگریزی لب ولہجے کے ذریعے جعلی امریکی سرکاری عہدیدار بن جاتے ہیں تاکہ صارفین کومہنگے سرٹیفکیٹس خریدنے پرراغب کیاجا سکے۔ انھیں عربی پربھی دسترس حاصل ہوتی ہے۔ نیویارک ٹائمزنے سابقہ ملازمین کے متعلق بتایاکہ اس دھوکادہی کے ذریعے کمپنی ماہانہ لاکھوں ڈالرمنافع کمارہی ہے اوریہ تمام پیسہ سمندرپار قائم مختلف کمپنیوں کے ذریعے پھرپاکستان آتاہے اوریہاں ناکافی اور غیرموثر انٹرنیٹ قوانین اورکمپنی کی جارحانہ قانونی پالیسی اسے خوب تقویت پہنچارہی ہے۔ اس کمپنی نے امریکامیں بھی اپنے دفاتربنا رکھے ہیں۔



https://img.express.pk/media/images/q319/q319.webp

نیویارک ٹائمزکے مطابق ویب سائٹس پر ہونے والے اس فراڈمیں مسکراتے امریکی پروفیسروں کی سیکڑوں تصاویراور وڈیوزکا سہارالیا گیاہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ویب سائٹس پر ڈھیروں تصدیقی تحریریں، پرجوش وڈیوزاور جان کیری کے دستخط والے امریکی محکمہ خارجہ کے سرٹیفکیٹ کی نمائش کی گئی ہے۔ ویب سائٹس پرموجود وڈیوزمیں دکھائے گئے پروفیسرز حقیقت میں اداکارہیں جبکہ یونیورسٹی کیمپس صرف ویب سائٹ پرتصاویر کی حدتک موجودہیں۔

https://img.express.pk/media/images/q415/q415.webp

https://img.express.pk/media/images/bol-1/bol-1.webp

ایگزیکٹ کے جعلی ڈگریوں کے اس کاروبارپر پراکسی انٹرنیٹ سروسزاور قوانین موجودنہ ہونے کے باعث پردہ پڑاہوا ہے۔ 370جعلی ویب سائٹس کے ذریعے دنیابھر کے لوگوں کودھوکا دیاجا رہاہے۔ کوئی بھی شخص 3سے 4لاکھ روپے میں امریکی یونیورسٹی کی جعلی ڈگری لے سکتاہے۔ ایگزیکٹ کمپنی کاعملہ اپنے کئی صارفین کوبلیک میل بھی کرتا رہاہے۔ اخبارکے مطابق ایگزیکٹ کمپنی پاکستان میں بول ٹی وی کے نام سے ایک ٹی وی چینل بھی لانا چاہتی ہے جس کے لیے دھڑادھڑ بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ اخبارکا کہناہے کہ جعلی ڈگریوں سے حاصل ہونے والاسرمایہ بول میڈیاگروپ میں استعمال کیاجائے گا۔ ان جعلی ڈگریوں کومصدقہ ظاہرکرنے کے لیے تصدیق کرنے والے جعلی ادارے بھی بنائے گئے ہیں۔

https://img.express.pk/media/images/q513/q513.webp

نیویارک ٹائمزکے نمائندے نے ایگزیکٹ کاموقف جاننے کے لیے کمپنی سے متعددبار رابطے کی کوشش کی اوراس کے مالکان کو سوالنامے بھیجے گئے تاکہ وہ جواب دے سکیں توجواب میں انہوں نے قانونی نوٹس بھجوا دیاجس میں ان خبروں کو غیرمصدقہ اورسازش پرمبنی مفروضے قرار دیاگیا۔ مذکورہ خبرپر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایگزیکٹ نے بیان جاری کیاجس میں کہا گیاہے کہ خبرسازش اورمفروضے پرمبنی ہے جس میں بے بنیاداورجھوٹے الزامات لگائے گئے جب کہ کمپنی کاموقف نہیں لیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں