ہمارا ناقص تعلیمی نظام
فارسی زبان کی مذکورہ بالا کہاوت وطن عزیز کے ہر شعبہ زندگی پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے
تن ہمہ داغ داغ شُدر پِنبہ کجا کجا نہم
فارسی زبان کی مذکورہ بالا کہاوت وطن عزیز کے ہر شعبہ زندگی پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے جو مدتِ دراز سے میرٹ کے قتل عام، سفارش کلچر اور بدعنوانی اور رشوت ستانی کا شکار ہونے کی وجہ سے مسلسل انحطاط اور روز بہ روز تیزی سے زوال پذیر ہے۔ وہ محکمے جو کبھی مثالی اور قابل رشک ہوا کرتے تھے نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے اپنی اصل شناخت کھو چکے ہیں۔ یہ داستان دکھ بھری بھی ہے اور پرانی بھی۔ مثال کے طور پر جہاز رانی کے محکمے کو ہی لے لیجیے۔ جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پالیسی کے تحت مختلف اداروں کو قومیایا تو اس وقت پاکستان کے تجارتی بیڑے میں شامل بحری جہازوں کی تعداد 200 تھی۔ مگر مسلسل کرپشن کی بھینٹ چڑھتے رہنے کے نتیجے میں یہ تعداد کم ہوتے ہوتے اب صرف 6 رہ گئی ہے۔
پاکستان ریلوے جو افواج پاکستان کے بعد ملک کا سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا ادارہ ہے کرپشن اور نااہلی کی نذر ہوجانے کے نتیجے میں زبوں حالی کا شکار ہے اور وزیر باتدبیر خواجہ سعد رفیق کی دن رات کی محنت کے باوجود اس اونٹ کی بہت سی ٹیڑھی کلیں ابھی تک سیدھی نہیں ہوسکی ہیں۔پاکستان اسٹیل ملز کی حالت بھی تسلی بخش نہیں ہے جب کہ ہماری قومی ائیرلائن پی آئی اے دنیا کی عظیم ترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔سب سے برا حال ہمارے تعلیم کے شعبے کا ہے۔ جب سے ہمارا ملک معرض وجود میں آیا ہے تب سے آج تک تقریباً 23 تعلیمی پالیسیاں اور عملی منصوبے (ایکشن پلانز) آزمائے جانے کے باوجود کسی پیش رفت کے آثار نظر آنے کے بجائے معاملات زوال ہی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کو تاحال کسی مسیحا کی تلاش ہے جو اس کے مردہ جسم میں نئی روح پھونک سکے۔
جنرل پرویز مشرف کا دور حکمرانی خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ رہا ہو، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس دور میں تعلیم کے شعبے پر بھرپور توجہ دی گئی اور اس میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی گئی۔ تعلیم کے شعبے کی جانب سے غفلت آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان کا آئین واضح طور پر یہ تاکید کرتا ہے کہ ''پاکستان کی ریاست کو ناخواندگی کا خاتمہ کرنا ہوگا ، مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرنی ہوگی۔'' آئین کے یہ الفاظ روز روشن کی طرح عیاں اور قطعی غیر مبہم ہیں۔انسانی ترقی کی رپورٹ کے حوالے سے اقوام عالم کی فہرست میں پاکستانی قوم کا نمبر136واں ہے۔ اگرچہ پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک شمار کیا جاتا ہے مگر یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے۔ یونیسکو ڈیٹا سینٹر کے اعداد وشمار کے مطابق پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی شرح 33.8 فیصد جب کہ مردوں کی شرح 47.18 فیصد ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وطن عزیز کی کل آبادی میں خواتین کا حصہ تقریباً آدھے سے کچھ زیادہ ہی ہے۔پاکستان میں تعلیم کی زبوں حالی کی کہانی نئی نہیں بلکہ برسوں پرانی ہے۔ یہاں ایک دور ایسا بھی گزر چکا ہے جب وفاقی کابینہ میں وزیر تعلیم کی اسامی کافی عرصے تک خالی پڑی رہی اور کسی کو اسے پُر کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ اس کے علاوہ اگر وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم کی فہرستوں پر محض ایک سرسری سی نظر ڈالی جائے تو آپ کو اس میں ایسی ایسی شخصیات کے نام بھی نظر آئیں گے جو اس مخصوص اہمیت کے حامل شعبے سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ اخلاقی تقاضے اجازت نہیں دیتے کہ ان شخصیات کے نام گنے جائیں۔ اس کے بالکل برعکس پڑوسی ملک بھارت کی مثال لے لیجیے جہاں آزادی کے فوراً بعد وفاقی وزارت تعلیم کا قلم دان مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عالم فاضل کے حوالے کیا گیا جن کے سیاسی نظریات سے لاکھوں اختلافات کے باوجود ان کی علمی حیثیت اور عظمت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
ہمارے ملک میں تعلیم کی زبوں حالی کا اندازہ ''الف اعلان'' کی ایک حالیہ رپورٹ سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو ملک کے 148 اضلاع اور ایجنسیوں پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور دشواریوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے کہ ملک کے بعض حصوں میں رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود تعلیم کی شاہراہ پر پیش قدمی کا عمل جاری و ساری ہے۔ یہ صورتحال عزم محکم اور عمل پیہم کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ جب کہ ملک کے بعض حصوں کی کیفیت اس کے برعکس ہے جن میں صوبہ سندھ نمایاں طور پر شامل ہے جہاں کی حکومت تعلیم کے فروغ میں سست روی اور ناکامی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حالت تعلیم ترقی کے اعتبار سے بہتر ہے مگر اس کے جنوبی وسطی اور شمالی اضلاع کے تعلیمی حالات میں موجود فرق بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ آزاد کشمیر نے اب تعلیم کے میدان میں پنجاب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی ڈھانچے (Infrastructure) کی کمی اورکمزوری کے باوجود شمالی علاقہ جات میں گلگت اور بلتستان نے تعلیم کے شعبے میں بہتر اور نمایاں کارکردگی اور پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے جوکہ انتہائی لائق تحسین اور قابل ستائش ہے اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ترقی کا انحصار وسائل کی کثرت پر نہیں بلکہ قوت ارادی اور مسلسل جدوجہد اور محنت پر ہوتا ہے۔آئیے اب رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان پر نظر ڈالتے ہیں جہاں کی تعلیمی حالت کو صرف دو الفاظ یعنی ''مایوس کن'' کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
خیبرپختونخوا کی کیفیت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ اس صوبے کی انتظامیہ اس شعبے کی بہتری اور ترقی کے لیے دن رات کوشاں ہے۔وطن عزیز میں تعلیم کے شعبے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں عام آدمی کو معیاری تعلیم میسر نہیں ہے۔ یہاں اساتذہ کی بھرتی میں میرٹ کے بجائے سفارش اور رشوت ستانی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مطلوبہ اہلیت کے حامل افراد پیچھے رہ جاتے ہیں اور خالی اسامیاں نااہل استادوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ گھوسٹ ٹیچرز اور گھوسٹ اسکولوں کا ہے جس کے باعث تعلیم کے لیے مختص فنڈز بدعنوان افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر محض ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کی ترقی کا اصل راز تعلیم ہی میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کے شعبے کو وہ اہمیت ہی نہیں دی جا رہی جس کا یہ مستحق ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے جوکہ انتہائی شرمناک ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس معمولی سی رقم کو بھی جائز طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ریاستی نظام تعلیم انحطاط کا نہیں بلکہ انہدام کا شکار ہوچکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت نے پورے سسٹم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ نجی ادارے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ ادارے محض امرا و رؤسا ہی کی دسترس تک محدود ہیں جب کہ عام آدمی تو کجا ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص بھی اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔تعلیم کا یہ ناقص اور انتہائی ظالمانہ نظام درحقیقت پاکستانی عوام کے ساتھ سراسر زیادتی اور بے انصافی اور آئین پاکستان کی صریحاً خلاف ورزی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں 5 سے 16 تک کی عمر کے 9.2ملین بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں جب کہ 10 ملین نونہال چائلڈ لیبر کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور بے شمار ہونہار جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ اس سنگین صورتحال کے اصل ذمے دار ہمارے حکمران ہیں۔