قدرتی آفات پیشگی حفاظتی اقدام

آج جب دس برس مکمل ہونے کو ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں جہاں دس برس قبل کھڑے تھے


[email protected]

8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز اورملکی تاریخ کے بد ترین ہولناک زلزلے کو رواں برس ماہ اکتوبر میں پورے دس برس ایک عشرہ مکمل ہورہا ہے، اس خوفناک زلزلے میں ہزاروں افراد جاں بحق، ہزاروں زخمی ہوئے، بیسیوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، سیکڑوں مکانات منہدم ہوئے، سیکڑوں افراد لاپتہ ہوئے۔ غرض کہ ناقابل بیان جان ومالی نقصانات ہوئے اور اس ناگہانی آفت سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اچانک کسی بھی بڑے حادثے سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس قطعی کوئی انتظامات نہیں تھے لہٰذا بڑے بڑے پروگرامز کا انعقاد ہوا عزم کیا گیا کہ آیندہ کسی بھی بڑی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر شعبے میں پیشگی انتظامات کیے جائیںگے اور ذہنی و عملی طور پر تمام پیشگی اقدامات اٹھائے جائیںگے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن آج جب دس برس مکمل ہونے کو ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں جہاں دس برس قبل کھڑے تھے، کسی قسم کے کوئی پیشگی انتظامات و اقدامات تو بہت دور کی بات ہے اس سلسلے میں عملی طور پر طویل المیعاد منصوبہ بندی کے شواہد تک ندارد۔ مذکورہ بالا دس برس کے عرصے میں کئی مزید حادثات رونما ہوئے، قدرتی آفات کا سامنا ہوا، مزید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا جن سے حکومتی تمام دعوؤں کی قلعی کھل گئی، کبھی زلزلوں کے جھٹکے آئے تو کبھی سیلاب، کبھی طوفان بادوباراں تو کبھی فیکٹریوں اور کارخانوں میں لگی آگ لیکن کسی ایک آفت پر بھی وقت پر ہم بحسن وخوبی قابو نہ پاسکے۔

طوفان بادوباراں سے خیبر پختونخوا کی حالیہ تباہی بھی ہمیشہ کی طرح حکومتی دعوؤں کو منہ چڑا رہی ہے ہم وقت پڑنے پر بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن پیشگی انتظامات و اقدامات نہیں کرتے آفت آنے کے بعد امداد کا اعلان اور جاں بحق افراد کے لیے ہر ایک جان کی قیمت کا اعلان ہماری روایت بن چکی ہے لیکن بعد از آفت یہ تمام اعلانات ایسے ہی ہیں کہ ''اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیا چگ گئیں کھیت!'' اور ''کی اس نے میرے قتل کے بعد جفا سے توبہ'' ہائے اس زود پشیمان کا پشیماں ہونا''

ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی کسی بھی بڑے زلزلے اور قدرتی آفت کے قوی اور تباہ کن امکانات موجود ہیں جب کہ اس سے بچاؤ، حفاظت اور نبرد آزما ہونے کی تمام تر سہولیات و انتظامات ندارد ہیں۔ ماہرین متعدد بار اپنے خدشات سے آگاہ کرچکے ہیں اس وقت برصغیر کی زمینی پلیٹ شمال کی جانب تین سے چار سینٹی میٹر سالانہ ایشین پلیٹ کی طرف جارہی ہے یہ عمل لمبے عرصے سے جاری ہے کبھی پاکستان کا زلزلوں کے مرکز سے فاصلہ 380 کلومیٹر تھا جو اب 70 سے 90 کلومیٹر رہ گیا ہے ۔ان کے درمیان جو علاقہ ہے وہ پہاڑوں میں تبدیل ہوگیا ہے کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم اسی سلسلے کی وجہ سے ہیں، زمین کے اندر جب اس طرح کے دباؤ بڑھیںگے تو انرجی اسٹور ہوتی رہے گی جو بعد میں خارج بھی ہوتی رہے گی اور زلزلوں کا موجب بنتی رہے گی۔

ماہرین کے مطابق سندھ کے ساحلی علاقے بھی زلزلوں کی زد میں ہیں اور کراچی میں زیر زمین چٹانیں اپنی پوزیشن تبدیل کررہی ہیں جب کہ کئی نئی چٹانیں ظہور پذیر ہورہی ہیں جو کسی بھی وقت خدانخواستہ کراچی کی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں اس ارضیاتی تبدیلیوں کے باعث زلزلوں کا مزید خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق کراچی کئی صدیوں سے زلزلوں کی زد میں ہے، کراچی میں اس وقت سیکڑوں عمارتیں انتہائی مخدوش حالت میں ہیں، تھوڑی سی شدت کے ساتھ آنے والے زلزلے سے ان کے زمین بوس ہونے کا خطرہ ہے، نیز کراچی اصل میں فلیٹوں کی سرزمین ہے یہاں بڑی تعداد میں کثیر المنزلہ فلیٹس موجود ہیں جن کی تعمیر میں جدید انجینئرنگ ٹیکنالوجی سے استفادے کے بجائے اسے مجرمانہ غفلت سے نظر انداز کردیاگیا ہے نیز کسی بھی بڑے زلزلے کی صورت میں اس وقت کسی بھی ادارے کے پاس ہیوی مشینری بھی بڑی تعداد میں موجود نہیں ہے کہ جو کسی عمارت کے گرنے کی صورت میں اس کا فوری ملبہ صاف کرسکے۔ اس تمام حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی بڑے زلزلے یا قدرتی آفت کے نتیجے میں کراچی میں انتہائی بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا نہایت قوی خدشہ موجود ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی شہر ایک ایسے علاقے میں آباد ہوا جس کی زمین دریائے سندھ کے صدیوں کے بہاؤ سے لائی ہوئی مٹی سے بنی ہے اور زمین کی تہوں میں زلزلے کا سبب بننے والے کئی ایسے زمینی سلسلے ہیں جو طبقات الارض اصطلاح میں فالٹ (Fault Line ) کہلاتے ہیں ان آف کچھ کا فالٹ جو عرف عام میں ''اﷲ بندے'' کے نام سے موسوم ہے کراچی کے جنوب مشرق میں واقع ہے، فالٹ کے ارضی سلسلوں سے کئی قدیم زلزلے وابستہ ہیں جن کی وجہ سے ماضی میں اس سرزمین پر واقع عمارتوں کو سخت نقصان پہنچا ہے اس کے علاوہ ایک اور بھی فالٹ ہے جو ساحل مکران کے متوازی ہے، جہاں پچھلے کئی برسوں میں زمینی حرکت محسوس کی گئی اور اس کی بدولت ایک مرتبہ قریبی سمندری حصے میں اونچی لہریں بھی پیدا ہوئیں جن کی وجہ سے ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچا ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات با آسانی سمجھ میں آتی ہے کہ کراچی اور اس کے نواح میں کسی بھی وقت، کسی بھی نوعیت کا زلزلہ آسکتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں کراچی میں مختلف ایام میں زلزلوں کے جھٹکے محسوس کیے جاتے رہے ہیں تاہم خوش قسمتی سے کوئی بھی جھٹکا شدید نوعیت کا نہیں تھا۔ سوائے ان دو کے جو 28 نومبر 1945اور 17 دسمبر 1985 کو ریکارڈ کیے گئے۔

ماہرین تعمیرات کے مطابق زلزلے سے محفوظ رہنے کے لیے عمارتوں کی ساخت میں مضبوطی لازمی ہے تاکہ ایک طرف تو وہ زمین کی حرکت کے ساتھ اپنے آپ کو سہار سکیں اور دوسری طرف ان کے ستونوں اور شہتیروں میں اتنی لچک ہو کہ وہ اندرونی کھنچاؤ کے بغیر ایک یا دو انچ تک جھول سکیں ان مقاصد کے لیے تعمیرات میں اچھے کنکریٹ کا استعمال ضروری ہے۔ نیز تعمیرات کے سلسلے میں ان علاقوں کو منتخب کیا جائے جن کی زمین سخت اور پتھریلی ہو، نرم اور سیلانی جگہوں پر تعمیرات نہ کی جائیں، ندی نالوں اور پہاڑیوں والے علاقوں پر پہاڑی سلسلے کے عین بیچ کی پٹی نسبتاً کم محفوظ علاقہ ہے، آب رسانی اور تمام تاروں کے نظام زیر زمین رکھے جائیں، اس بات کا خیال رکھا جائے اور ان کی شکل مستطیل نما رہے تاکہ وہ زلزلے کے جھٹکوں اور تیز ہواؤں کا زور برداشت کرسکیں، سمندری طوفان اور لہروں سے ساحل کی حفاظت کے لیے مضبوط اور اونچے پشتے تعمیر کیے جائیں اور سڑکیں اور شاہراہیں چوڑی رکھی جائیں ان تمام حفاظتی اقدامات کے ذریعے زلزلے سے زیادہ تباہی اور بربادی کے امکانات نہایت کم ہوجائیںگے اور جانی و مالی نقصانات سے بھی بڑی حد تک محفوظ رہا جاسکے گا۔

نیز جہاں سے فالٹ لائن گزر رہی ہے یعنی پٹی زلزلے کی زد میں آتی ہے وہاں عمارتیں تعمیر کرنے کے بجائے چراگاہیں اور پارک بنائے جائیں تاکہ زلزلہ آنے کی صورت میں جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو، زلزلوں کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں گیس اور پانی کے پائپ اور بجلی کے تار وغیرہ ٹوٹ جاتے ہیں جگہ جگہ آگ لگ جاتی ہے جس پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا اس کے علاوہ گندگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ طرح طرح کی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو انسانوں کے لیے زلزلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ جس کی روک تھام اور بچاؤ کے لیے حفاظتی نقطہ نظر سے پیشگی منصوبہ بندی اشد ضروری ہے۔ زلزلے کی پیش گوئی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے انسان تمام تر جدید ترقی کے باوجود قدرت کے معمولی اقدامات کے سامنے تا حال بے بس ہے شاید آنے والے ایام میں ان پر مکمل قابو پایا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں