وقت کیوں برباد کریں
ایک تو یہ فائدہ ہے کہ آپ نے اصل خبر کو ’’غائب‘‘ کردیا اور لوگ جوکہ خبر جاننا چاہتے ہیں
عروج و زوال کی داستانوں میں جہاں دوسرے عوامل کا ذکر ہے وہاں ایک چیز جو ہر عہد اور قوم کی گمراہی میں پیش پیش نظر آتی ہے وہ ہے "Mis Information"یعنی درست خبروں کا راستہ روک کر غلط خبروں کو اسی Track پر چلا دینا۔
یہ دو طرفہ عمل ہے۔ ایک تو یہ فائدہ ہے کہ آپ نے اصل خبر کو ''غائب'' کردیا اور لوگ جوکہ خبر جاننا چاہتے ہیں وہاں آپ نے ایک خبر''گھڑ'' کر چلا دی اور انتظار کیا کہ اگر ''تیر'' نشانے پر لگ گیا ہے تو وہ فوائد حاصل ہوجائیں گے جو کسی خاص مقصد کے تحت اس ''خبری بددیانتی'' سے مقصود ہیں اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو ''تردید'' اور ''معذرت'' تو ہے ہی کرلیں گے۔
کسی زمانے میں اخبار میں ''تردید'' یا ''اعتذار'' چھپتا تھا تو لوگ تعجب اور دلچسپی سے دیکھتے تھے اور ایک عرصے تک یہ لوگوں میں ''مذکور'' و ''معروف'' رہتا تھا کہ فلاں اخبار نے یہ غلطی کی ہے اور کافی عرصے تک اخبار کی ساکھ نشانے پر لگی رہتی تھی۔
''ساکھ'' ہی تو اصل چیز ہے جس پر اخبار ''بِکتا'' ہے ۔ پروف ریڈنگ اور اس کو مزید پروف چیکنگ کے مراحل سے گزارا جاتا تھا اور ایک غلطی برسوں کام کرنے والوں کے لیے طعنہ بنی رہتی تھی کہ ''میاں دیکھ لینا کہیں اس دن کی طرح نہ ہو کہ۔۔۔۔'' قصہ طولانی!
یہی حال جرائد و رسائل کا تھا ایک مضمون پر قانونی سزائیں تو ہوتی تھیں اخلاقی طور پر بہت شرمندگی کا سامنا رہتا تھا۔ خصوصاً دینی معاملات اور دینی معلومات کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا تھا ہر فقہ اور مسلک کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور ایسی چیز شایع ہو جوکہ تمام لوگوں کو پسند ہو اور جس پر ان کا ''اجماع'' ہو۔
یہ لکھنا اور پڑھنا اس وقت تبدیل ہوگیا جب Channels آن ایئر آگئے اور وہ بات جس کے لیے دنوں، مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا لمحوں میں ملک کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہے اور لوگوں کو اطلاع ہوجاتی ہے اور لوگ بخوبی جان لیتے ہیں کہ ملک کے فلاں شہر، قصبے میں کیا واقعہ پیش آیا۔ بجائے اس کے کہ چند دنوں میں خبر آئے اور ''آتے آتے'' کیا بن جائے آپ حقائق چند گھنٹوں میں جان لیتے ہیں۔
اسی چیز نے قوم کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔ ''خبریت'' کے بارے میں نقطہ نظر میں ''ابہام'' آج بھی موجود ہے۔ ہم بین الاقوامی Definition کو سمجھتے نہیں ''مانتے'' نہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم خود اپنی خبروں کی کوئی تعریف مقرر کریں اور اسے درست بھی مانا جائے کیونکہ اس میں ہمارا یعنی چینل کا مفاد وابستہ ہے اس شخص کا مفاد وابستہ ہے جو ''موجد'' ہے خبر کا یا ''گھڑنے'' کا۔
ایک چینل ایک بات کو کچھ اور قرار دے رہا ہے تو دوسرا اس کے ''مقابل'' ہے اور وہاں کوئی دوسری تعریف ہے۔ یہ ''تقابل'' اور ''دوڑ'' بلکہ ''خبری دوڑ'' صرف چینلز کو تھکا رہی ہے۔مشین اور بندے بوڑھے ہو رہے ہیں۔ ناظرین کے پاس ''مقامی'' اور ''بین الاقوامی'' بہت ''چوائس'' ہے بس ایک Switch Over کرنے کی ہی تو بات ہے۔
مگر کیوں ایسا ہو آپ Switch Over کیوں ہوجائیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے ہمارے چینلز کی بھی اور اخبارات و جرائد کی بھی۔ آپ جھوٹ کو ایک حد تک بول سکتے ہیں۔ اگر اتنا بولیں کہ ''سچ لگنے لگے'' تو لطف ختم ہوجاتا ہے اور ان تمام چیزوں میں تلاش کس چیز کی ہے؟ لطف کی! پچھلے دنوں کوشش پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی رہی اور وجہ یہ تھی کہ اس ملک کی ''ناکارہ سیاست'' نے بار بار فوج کو مداخلت کا موقع دیا اور فوج نے اچھا کام کیا جس سے سیاستدان مزید خوف زدہ ہوگئے اور اب تو فوج کے نام سے ہی ان کے ''نتھنے'' پھڑکنے لگتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ اس ملک میں وہ سیاست کیوں نہیں ہوسکتی جس کے ذریعے ملک کے عوام کا بھلا ہوسکے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بھی ایک کمیٹی بنا دینی چاہیے کیونکہ اس سوال کا کوئی جواب ہے ہی نہیں اور کمیٹی نے بھی آخر کار یہی فیصلہ دینا ہوتا ہے۔
سارے ملک کا حال خراب ہے۔ ہم دشمن نہیں ہیں ملک کے کہ خوشی کے ترانے سناتے رہیں، ملک عوام سے ہے اور اگر عوام سارا وقت پٹرول کی تلاش میں اور حکومت پٹرول کی فراہمی میں ناکامی میں صرف کرے تو ملک کس قدر ترقی کرے گا کیا کہیں کسی کا نام لکھیں گے شاید تو ہمیں ہی مشکل ہوگی آپ کو تو یاد ہوگا کہ کون کون ملک کے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی باتیں کرتا ہے بلدیاتی نظام صوبے قائم نہیں ہونے دے رہے۔ اس نظام کا مقصد ہے کہ اقتدار کے فوائد عوام تک پہنچ جائیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقتدار ملتے ہی بلدیاتی نظام قائم ہوجاتا اور عوام کے مسائل کا حل عوام کے پاس ہوتا تو پھر حکومت کے نام پر الیکشن میں جو اخراجات ممبران نے اور وزرا مقرر ہونے والوں نے کیے تھے وہ واپس منافع کے ساتھ کیسے آتے۔ لہٰذا ضرورت تھی کہ یہ سب کچھ ان کے ہاتھوں میں رہے یہ خرچہ بھی نکال لیں اور منافع بھی۔ آخر سیاست اس ملک میں بلکہ اس خطے میں ایک کاروبار ہی تو ہے۔ عوام کی خدمت بے وقوفوں کا کام ہے۔ پلے سے پیسہ خرچ کرو اور پھر عوام کی خدمت کرو!
یہ شوق ہے مغربی ملکوں کا وہاں کے لوگوں کے کاروبار الگ اور سیاست الگ ہوتی ہے یہاں تو کاروبار کرتے کرتے سیاست اور سیاست کرتے کرتے کاروبار ہوتا ہے۔ سچ بات ہے آدھی صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہمارا ملک ابھی تک شاید دوسروں کے پاؤں پر کھڑا ہے۔ اپنے پاؤں پتہ نہیں کہاں رکھ دیے اس ملک نے؟
یہ بات ایک بار سے زیادہ بار کہی لکھی جاچکی ہے کہ کئی ممالک نے پاکستان کے Man Power اور ذہین لوگوں سے فائدہ حاصل کیا اور شاید اب بھی کر رہے ہیں۔ ہم Man Power کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جہاں 50 ملازم ہونے چاہیے تھے وہاں ہر حکومت نے اپنی سہولت کے تحت بھرتیاں کرکے 500 کردی ہے۔ کام 50 آدمیوں کا کرنے والے 500اور کام صفر! دیکھ لیجیے اپنے شہروں کا سارا سسٹم تباہی کی وجہ یہی ہے۔ دنیا بھر کی ہوائی کمپنیاں نئے Roots کھول رہی ہیں۔ ہم بند کر رہے ہیں ، پرانے Roots، جہاز نہیں ہیں۔ بیان بھی کمال کا دیتے ہیں یہ لوگ کہ فلاں روٹ منافع بخش نہیں رہا۔ وہ روٹ 40 سال سے منافع بخش تھا اب اسے کیا ہوگیا، یہ نہیں کہتے کہ ہماری سروس کا معیار گھٹیا ہے۔ ہم سہل پسند ہیں اور ہم نے اضافی لوگ رکھ لیے ہیں جن کو مفت کی تنخواہ دینی ہوتی ہے۔
کاش کبھی کوئی واقعی انکوائری ہو اور دیکھا جائے کہ ان اداروں میں جو لوگ براجمان ہیں ان کا مصرف کیا ہے۔ وہ کیوں ہیں وہاں جہاں ان کو نہیں ہونا چاہیے۔ عدل کی ضرورت ہے۔ عدل یہ ہے کہ ہر چیز درست جگہ پر ہو۔ جب آپ چیزوں کو غلط جگہ رکھ دیتے ہیں تو آپ عدل کے خلاف کام کرتے ہیں۔ لوگ کسی نہ کسی کام کے تو ہوں گے ان کو وہاں روانہ کریں جہاں وہ واقعی کام کریں آرام نہ کریں۔ دفتروں کو چیک کیا جائے کون کتنا (دفتر میں)آتا ہے رہتا ہے اور نہیں تو کیوں نہیں؟ ترقی کا پہیہ خود نہیں چلتا۔ چلانا پڑتا ہے قوت سے، خدمت سے، محنت سے اور ایمانداری سے۔ دنیا کی تمام قومیں ان اصولوں پر عمل کرتی ہیں آپ کو بھی کرنا پڑے گا۔ آج نہیں تو کل کوئی نہ کوئی ضرور ایسا آئے گا جو یہ سب کچھ کرے گا تو اچھا نہیں ہے کہ آج ہی یہ کرلیا جائے۔ وقت کیوں برباد کریں؟
یہ دو طرفہ عمل ہے۔ ایک تو یہ فائدہ ہے کہ آپ نے اصل خبر کو ''غائب'' کردیا اور لوگ جوکہ خبر جاننا چاہتے ہیں وہاں آپ نے ایک خبر''گھڑ'' کر چلا دی اور انتظار کیا کہ اگر ''تیر'' نشانے پر لگ گیا ہے تو وہ فوائد حاصل ہوجائیں گے جو کسی خاص مقصد کے تحت اس ''خبری بددیانتی'' سے مقصود ہیں اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو ''تردید'' اور ''معذرت'' تو ہے ہی کرلیں گے۔
کسی زمانے میں اخبار میں ''تردید'' یا ''اعتذار'' چھپتا تھا تو لوگ تعجب اور دلچسپی سے دیکھتے تھے اور ایک عرصے تک یہ لوگوں میں ''مذکور'' و ''معروف'' رہتا تھا کہ فلاں اخبار نے یہ غلطی کی ہے اور کافی عرصے تک اخبار کی ساکھ نشانے پر لگی رہتی تھی۔
''ساکھ'' ہی تو اصل چیز ہے جس پر اخبار ''بِکتا'' ہے ۔ پروف ریڈنگ اور اس کو مزید پروف چیکنگ کے مراحل سے گزارا جاتا تھا اور ایک غلطی برسوں کام کرنے والوں کے لیے طعنہ بنی رہتی تھی کہ ''میاں دیکھ لینا کہیں اس دن کی طرح نہ ہو کہ۔۔۔۔'' قصہ طولانی!
یہی حال جرائد و رسائل کا تھا ایک مضمون پر قانونی سزائیں تو ہوتی تھیں اخلاقی طور پر بہت شرمندگی کا سامنا رہتا تھا۔ خصوصاً دینی معاملات اور دینی معلومات کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا تھا ہر فقہ اور مسلک کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور ایسی چیز شایع ہو جوکہ تمام لوگوں کو پسند ہو اور جس پر ان کا ''اجماع'' ہو۔
یہ لکھنا اور پڑھنا اس وقت تبدیل ہوگیا جب Channels آن ایئر آگئے اور وہ بات جس کے لیے دنوں، مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا لمحوں میں ملک کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہے اور لوگوں کو اطلاع ہوجاتی ہے اور لوگ بخوبی جان لیتے ہیں کہ ملک کے فلاں شہر، قصبے میں کیا واقعہ پیش آیا۔ بجائے اس کے کہ چند دنوں میں خبر آئے اور ''آتے آتے'' کیا بن جائے آپ حقائق چند گھنٹوں میں جان لیتے ہیں۔
اسی چیز نے قوم کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔ ''خبریت'' کے بارے میں نقطہ نظر میں ''ابہام'' آج بھی موجود ہے۔ ہم بین الاقوامی Definition کو سمجھتے نہیں ''مانتے'' نہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم خود اپنی خبروں کی کوئی تعریف مقرر کریں اور اسے درست بھی مانا جائے کیونکہ اس میں ہمارا یعنی چینل کا مفاد وابستہ ہے اس شخص کا مفاد وابستہ ہے جو ''موجد'' ہے خبر کا یا ''گھڑنے'' کا۔
ایک چینل ایک بات کو کچھ اور قرار دے رہا ہے تو دوسرا اس کے ''مقابل'' ہے اور وہاں کوئی دوسری تعریف ہے۔ یہ ''تقابل'' اور ''دوڑ'' بلکہ ''خبری دوڑ'' صرف چینلز کو تھکا رہی ہے۔مشین اور بندے بوڑھے ہو رہے ہیں۔ ناظرین کے پاس ''مقامی'' اور ''بین الاقوامی'' بہت ''چوائس'' ہے بس ایک Switch Over کرنے کی ہی تو بات ہے۔
مگر کیوں ایسا ہو آپ Switch Over کیوں ہوجائیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے ہمارے چینلز کی بھی اور اخبارات و جرائد کی بھی۔ آپ جھوٹ کو ایک حد تک بول سکتے ہیں۔ اگر اتنا بولیں کہ ''سچ لگنے لگے'' تو لطف ختم ہوجاتا ہے اور ان تمام چیزوں میں تلاش کس چیز کی ہے؟ لطف کی! پچھلے دنوں کوشش پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی رہی اور وجہ یہ تھی کہ اس ملک کی ''ناکارہ سیاست'' نے بار بار فوج کو مداخلت کا موقع دیا اور فوج نے اچھا کام کیا جس سے سیاستدان مزید خوف زدہ ہوگئے اور اب تو فوج کے نام سے ہی ان کے ''نتھنے'' پھڑکنے لگتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ اس ملک میں وہ سیاست کیوں نہیں ہوسکتی جس کے ذریعے ملک کے عوام کا بھلا ہوسکے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بھی ایک کمیٹی بنا دینی چاہیے کیونکہ اس سوال کا کوئی جواب ہے ہی نہیں اور کمیٹی نے بھی آخر کار یہی فیصلہ دینا ہوتا ہے۔
سارے ملک کا حال خراب ہے۔ ہم دشمن نہیں ہیں ملک کے کہ خوشی کے ترانے سناتے رہیں، ملک عوام سے ہے اور اگر عوام سارا وقت پٹرول کی تلاش میں اور حکومت پٹرول کی فراہمی میں ناکامی میں صرف کرے تو ملک کس قدر ترقی کرے گا کیا کہیں کسی کا نام لکھیں گے شاید تو ہمیں ہی مشکل ہوگی آپ کو تو یاد ہوگا کہ کون کون ملک کے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی باتیں کرتا ہے بلدیاتی نظام صوبے قائم نہیں ہونے دے رہے۔ اس نظام کا مقصد ہے کہ اقتدار کے فوائد عوام تک پہنچ جائیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقتدار ملتے ہی بلدیاتی نظام قائم ہوجاتا اور عوام کے مسائل کا حل عوام کے پاس ہوتا تو پھر حکومت کے نام پر الیکشن میں جو اخراجات ممبران نے اور وزرا مقرر ہونے والوں نے کیے تھے وہ واپس منافع کے ساتھ کیسے آتے۔ لہٰذا ضرورت تھی کہ یہ سب کچھ ان کے ہاتھوں میں رہے یہ خرچہ بھی نکال لیں اور منافع بھی۔ آخر سیاست اس ملک میں بلکہ اس خطے میں ایک کاروبار ہی تو ہے۔ عوام کی خدمت بے وقوفوں کا کام ہے۔ پلے سے پیسہ خرچ کرو اور پھر عوام کی خدمت کرو!
یہ شوق ہے مغربی ملکوں کا وہاں کے لوگوں کے کاروبار الگ اور سیاست الگ ہوتی ہے یہاں تو کاروبار کرتے کرتے سیاست اور سیاست کرتے کرتے کاروبار ہوتا ہے۔ سچ بات ہے آدھی صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہمارا ملک ابھی تک شاید دوسروں کے پاؤں پر کھڑا ہے۔ اپنے پاؤں پتہ نہیں کہاں رکھ دیے اس ملک نے؟
یہ بات ایک بار سے زیادہ بار کہی لکھی جاچکی ہے کہ کئی ممالک نے پاکستان کے Man Power اور ذہین لوگوں سے فائدہ حاصل کیا اور شاید اب بھی کر رہے ہیں۔ ہم Man Power کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جہاں 50 ملازم ہونے چاہیے تھے وہاں ہر حکومت نے اپنی سہولت کے تحت بھرتیاں کرکے 500 کردی ہے۔ کام 50 آدمیوں کا کرنے والے 500اور کام صفر! دیکھ لیجیے اپنے شہروں کا سارا سسٹم تباہی کی وجہ یہی ہے۔ دنیا بھر کی ہوائی کمپنیاں نئے Roots کھول رہی ہیں۔ ہم بند کر رہے ہیں ، پرانے Roots، جہاز نہیں ہیں۔ بیان بھی کمال کا دیتے ہیں یہ لوگ کہ فلاں روٹ منافع بخش نہیں رہا۔ وہ روٹ 40 سال سے منافع بخش تھا اب اسے کیا ہوگیا، یہ نہیں کہتے کہ ہماری سروس کا معیار گھٹیا ہے۔ ہم سہل پسند ہیں اور ہم نے اضافی لوگ رکھ لیے ہیں جن کو مفت کی تنخواہ دینی ہوتی ہے۔
کاش کبھی کوئی واقعی انکوائری ہو اور دیکھا جائے کہ ان اداروں میں جو لوگ براجمان ہیں ان کا مصرف کیا ہے۔ وہ کیوں ہیں وہاں جہاں ان کو نہیں ہونا چاہیے۔ عدل کی ضرورت ہے۔ عدل یہ ہے کہ ہر چیز درست جگہ پر ہو۔ جب آپ چیزوں کو غلط جگہ رکھ دیتے ہیں تو آپ عدل کے خلاف کام کرتے ہیں۔ لوگ کسی نہ کسی کام کے تو ہوں گے ان کو وہاں روانہ کریں جہاں وہ واقعی کام کریں آرام نہ کریں۔ دفتروں کو چیک کیا جائے کون کتنا (دفتر میں)آتا ہے رہتا ہے اور نہیں تو کیوں نہیں؟ ترقی کا پہیہ خود نہیں چلتا۔ چلانا پڑتا ہے قوت سے، خدمت سے، محنت سے اور ایمانداری سے۔ دنیا کی تمام قومیں ان اصولوں پر عمل کرتی ہیں آپ کو بھی کرنا پڑے گا۔ آج نہیں تو کل کوئی نہ کوئی ضرور ایسا آئے گا جو یہ سب کچھ کرے گا تو اچھا نہیں ہے کہ آج ہی یہ کرلیا جائے۔ وقت کیوں برباد کریں؟