شکریہ زمبابوے

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا کام دنیا بھر میں کھیل کو فروغ دینا ہے مگر افسوس کہ وہ گنتی کے چند ممالک تک ہی محدود رہی۔


Saleem Khaliq May 19, 2015
مہمان ٹیم نے ہرارے ایئرپورٹ سے اڑان بھرلی جو دبئی میں کچھ دیرقیام کے بعد علامہ اقبال ایئرپورٹ لاہور پہنچے گی۔ فوٹو: فائل

لاہور: '' اوہ! آپ کراچی میں رہتے ہیں، وہاں کے حالات تو بہت خراب ہیں، سنا ہے کسی بھی وقت فائرنگ شروع ہو جاتی اور کسی کی جان محفوظ نہیں ہے''

جب کبھی میں اپنے شہر سے باہر جاؤں مجھے یہ یا اس سے ملتے جلتے چند الفاظ تقریباً ہر ملاقات میں سننے پڑتے ہیں، یقیناً شہرقائد کے دیگر لوگ بھی اس تجربے سے گزرتے ہوں گے،میں مانتا ہوں کہ کراچی میں بہت سے مسائل ہیں،فائرنگ، چوری چکاری اور چھینا جھپٹی وغیرہ ہوتی رہتی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ یہاں کے لوگ اپنے معمولات زندگی بسر نہیں کر پا رہے، ہوٹل، سینما اور دیگر تفریحی مقامات پر ہمیشہ رش دیکھنے کو ملتا ہے، پاکستان بھر سے لوگ یہاں کمانے کےلیے آتے ہیں،مگر شہرکا تاثر باہر بہت خراب ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ملک کو بیرون ملک شام اور افغانستان کی طرح خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی صورتحال میں بہت بہتری آ چکی مگر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر محض میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگا لیا کہ یہاں کے حالات اب بھی بہت خراب ہیں، ایسے میں زمبابوین ٹیم کو داد دینی چاہیے جو تمام تر منفی رپورٹس کے باوجود دورے پر آ رہی ہے، ہو سکتا ہے بہت سے لوگ سوچیں کہ آئی سی سی نے آزادانہ سیکیورٹی ماہر کی رپورٹ پر تاثر قائم کیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ صاحب بھی زمبابوین وفد کے ساتھ لاہور آئے، تمام انتظامات کا ساتھ جائزہ لیا، مگر ان کی رپورٹ منفی اور الیسٹر کیمبل و دیگر کی مثبت رہی، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا کام دنیا بھر میں کھیل کو فروغ دینا ہے مگر افسوس کہ وہ گنتی کے چند ممالک تک ہی محدود رہی۔

100 سے زائد سال ٹیسٹ کرکٹ کو ہو چکے مگر اب تک10ہی ٹیسٹ ٹیمیں ہیں،اس سے ''فروغ اور معیار میں بہتری''کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی میں کونسل نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، اب جب اپنی کوشش سے زمبابوین ٹیم کو بلا لیا تو امپائرز و ریفری کو نہ بھیج کر منفی تاثر دیا جا رہا ہے، جب ایک ٹیم آنے کو تیار ہے تو چند آفیشلز کو بھیج کر مثبت پیغام دیا جا سکتا تھا مگر آئی سی سی نے ایسا نہ کیا، یوں بطور گورننگ باڈی اس کے کردار پر سوالیہ نشان ثبت ہو چکا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ ہمارے ملک کے حالات آئیڈیل نہیں مگر اسے جنگ زدہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، حالیہ کچھ مثبت اقدامات کی وجہ سے مجموعی طور پر خاصی بہتری آ چکی، یہ ٹھیک ہے کہ اب بھی بعض واقعات سب کا دل دہلا دیتے ہیں، مگر اس وجہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا جا سکتا، کبھی نہ کبھی تو کسی ٹیم کو بلانا ہی تھا، اب وہ وقت آ گیا تو اتنی بہترین سیکیورٹی فراہم کرنی چاہیے کہ دنیا ہمارا مثبت امیج بھی دیکھے، کچھ عرصے قبل چین کے صدریہاں آ کر گئے، سیاسی سرگرمیاں بھی جاری ہیں، ہزاروں لوگ جلسوں میں شریک ہوتے ہیں جنھیں فول پروف سیکیورٹی دی جاتی ہے، ایسا زمبابوین ٹیم سے میچز میں بھی ممکن ہے، جہاں مہمان کرکٹرز اور شائقین کو ایسی سیکیورٹی دینی چاہیے کہ دنیا کےلیے مثال ثابت ہو،ویسے اب دنیا کے کسی شہر کو محفوظ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اگر ایسا ہوتا تو آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں ورلڈکپ کی سیکیورٹی پر ریکارڈ اخراجات نہ ہوتے، ہر اسپورٹنگ ایونٹ کے بجٹ میں سیکیورٹی پر بھاری رقم رکھی جاتی ہے،اس سے عالمی خطرات کا اندازہ ہوتا ہے لیکن مقابلے پہلے کی طرح جاری و ساری ہیں، ایسے میں ہمارے ملک کو بھی دوسرا چانس ملنا چاہیے، مہمان کرکٹرز کو سربراہ مملکت کے جیسی سیکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے، امید ہے کہ وہ ٹور کے بعد ہنسی خوشی واپس جائیں گے، اس کی کوچنگ ڈیو واٹمور کے سپرد ہے، وہ اسی حیثیت سے کئی برس پاکستان میں گزار چکے اور اکثر ایسا بھی ہوا کہ خود ہی ٹیکسی پر شاپنگ و ڈنر کےلیے چلے جاتے، ہر انسان کو سب سے زیادہ اپنی اولاد پیاری ہوتی ہے، واٹمور کی بیٹی بھی لاہور میں رہ کر گئی ہیں، وہ اگر سمجھتے کہ یہ ملک محفوظ نہیں تو کبھی اسے نہ بلاتے،انھوں نے ہی کھلاڑیوں کو دورے پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مہمان ٹیم سیکیورٹی وغیرہ کی وجہ سے زیادہ گھوم پھر تو نہیں سکے گی مگر اسے سہولیات کی فراہمی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے، پی سی بی اور حکومت پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پوری دنیا کی نگاہیں اس سیریز پر لگی ہوئی ہیں، بیچارے کرکٹرز بھی یہ سوچ کر یہاں آ رہے ہوںگے جیسے محاذ جنگ پر گئے ہوں، ہمیں منفی سوچ تبدیل کرنی ہے، ایک بار ایسا ہو گیا تو پھر بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی اپنی ٹیموں کو بھیجنے پر تیار ہوں گے، اسے صرف کرکٹ سیریز نہیں سمجھنا چاہیے، میچز کے نتائج اتنی اہمیت نہیں رکھتے جتنے آف دی فیلڈ معاملات ہیں، یہ سمجھیں کہ ملک کی عزت کا معاملہ ہے، ٹیم سے زیادہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مرکز نگاہ ہوں گے، ہمیں ان سے امید ہے کہ عمدگی سے فرائض انجام دے کر قوم کا سر فخر سے بلند رکھیںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں