’ڈاکٹرعینی شاہد‘

ہر نیوز چینل اُن کا دیوانہ تھا بلکہ کئی چینل ’’ان کے مطابق‘‘ ڈیمانڈ ماننے کو بھی تیار تھے۔

ڈاکٹرعینی شاہد نے اپنی بھاری بھرکم لہجے اور اپنے چڑیا، طوطے کی خبروں سے خوب عزت سمیٹی۔فوٹو:فائل

اسے بچپن سے ہی محسوس ہوتا کہ وہ بڑا ہوکر کوئی ایسا کام کرئے گا جس میں کھپ شپ ذیادہ ہوگی، اسے رات خواب میں روشنیاں نظر آتی تھیں، کبھی یہ روشنیاں کیمروں میں بدل جاتیں اور کبھی آپریشن تھیٹر کی روشنیوں میں، وہ بچپن سے ہی کوئی بھی واقعہ ایسے بیان کرتا تھا جیسے وہ اس کا عینی شاہد ہو۔



اُردو کی کلاس میں ہلاکو خان کی قتل وغارت اور ہولناکیوں کا ذکر کرتے وہ اپنی بھاری بھرکم آواز سے بہت سے کمزور دل طالب علموں کو خوف سے رلا دیتا تھا۔ اُنہیں یہی محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسکول سے نکلیں گے تو ہلاکو خان اور اس کی خونخوار فوج ان کو پکڑ لے گی، وہ چھٹی کے وقت گیٹ سے باہر جھانکتے کمزور دل طلباء کو اپنی بھاری آواز میں ''بھائو'' کرکے ڈرا دیا کرتا تھا۔ اس کا سب سے محبوب مشغلہ کسی بھی گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو کر آواز لگانا کہ ''چیز ونڈی دی لئی جائو'' اور بچے اس کی آواز پر اکھٹے ہوجاتے تو وہ دوسری گلی کی طرف اشارہ کرتا جب بہت سارے بچے اس جانب بھاگ جاتے تو وہ خود بھی اس خیال سے کہ شاید کوئی چیز واقعی بٹ ہی نہ رہی ہو خود بھی ان کے پیچھے بھاگ جاتا۔ میٹرک تک اس کی لائی اور بنائی ہوئی خبروں پر اسکول کے استاد اور طلباء اعتبار کرنے لگے تھے کیونکہ ان تمام خبروں کا وہ عینی شاہد خود ہوتا تھا۔



لیکن اسے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا پڑی۔ اب اسے محسوس ہوتا تھا کہ بچپن میں دیکھی جانے والی روشنی آپریشن تھیٹر کی ہوگی لیکن اس نے میڈیکل کالج میں بھی عینی شاہد خبروں کو کم نہیں کیا تھا اور اُس کے ساتھی طالب علم اُس کی خبروں میں دل چسپی لیتے تھے۔ اس وقت ملکی منظر نامے میں ان کی کوئی جگہ نہیں تھی، اِس کے باوجود اُنہوں نے ایک جمہوری حکومت کی ''جرنیلی رخصتی'' پر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی۔ جرنیل کی حکومت پکی ہونے پر وہ اپنی جلاوطنی خود ہی متروک کرکے واپس آگئے۔

ایک نجی چینل کے پروگرام میں بطور مہمان شامل ہونے لگے اور پھر ''آگ لینے آئی اور مالک بن بیٹھی'' کے مصداق وہ اسی پروگرام کے اینکر ہوگئے۔ اُس کے ''طوطے، چڑیا'' بھی خبر لانے لگے تھے اور اُس پر وہ اپنے بھاری بھر کم لہجے اور اس واقعے کے عینی شاہد ہوکر اُنہوں نے بہت عزت سمیٹی۔




اس میں کوئی شک نہیں کہ اُنہوں نے کئی بڑوں کی آنکھوں میں کیمرہ میں دیکھ کر آنکھیں ڈالی تھیں۔ ہر نیوز چینل اُن کا دیوانہ تھا بلکہ کئی چینل ''اُن کے مطابق'' ڈیمانڈ ماننے کو تیار تھے۔ اُنہوں نے عینی شاہد ہو کر بہت سوں کو رگڑا۔ ابھی جرنیل چیف ایگزیکٹو سے صدر مملکت ہی ہوئے تھے آمریت سے ''بہترین انتقام'' جنم لے چکا تھا۔

پارٹی کا وزیراعظم تو بن گیا اب مرحلہ کسی جیالے کا تھا جو صدارت کے فرائض سنبھال سکے اس کے لئے جہاں ایک نئے این آر او ٹائپ ترمیم کی ضرورت تھی وہیں عینی شاہد جیسے ڈاکٹرز کو ''سائلنس'' پر لگانے کی ضرورت تھی جو کہ اس محاذ پر بہت سرگرم ہوچکے تھے۔ متوقع صدر کے خلاف ایسی ایسی رپورٹس الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا میں آرہی تھیں کہ اگر قوم میں پڑھنے، سننے یا دیکھنے کی صلاحیت ہوتی شائد جیالے صدر کی اصطلاع تاریخ کی کتابوں میں ہی کہیں درج رہ جاتی۔

حکومت نے اس ''عفریت'' سے نمٹنے کے لئے پی ٹی وی کی''پھاہی'' تیار کی اور ڈاکٹر عینی شاہد اس میں پھنستے چلے گئے۔ سب کچھ جیالے صدر کا من چاہا تھا، بھاری بھر کم لہجہ نرم و نازک ہوتا چلا گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں پی ٹی وی کو ایم ڈی اور چیئرمین کی ضرورت ہی نہ رہی اور اس نے بھی خود ہی پی ٹی وی سے استعفی دے دیا.



وہ چینل جو سب کچھ ''ان کے مطابق'' ہی کرنے کے لئے تیار تھے ان کے اپنے عینی شاہدین کی تعداد بڑھ چکی تھی اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ڈاکٹر عینی شاہد کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے رمضان المبارک کے افطاری پروگرام میں بھی شریک ہونا پڑا۔ وہ اب ایک نجی چینل کے پروگرام میں بیٹھتے ہیں اور جی بھر کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ لیکن اُن کا بھاری بھرکم لہجہ اُن کے کہے کی چغلی کھا رہا ہوتا ہے۔ اب اُنہوں نے جیالے صدر کے بیٹے کے خلاف محاذ بنا رکھا ہے بالکل ایک عینی شاہد کی طرح لیکن وہ اس بات سے شاید بے خبر ہیں کہ میثاق جمہوریت کے تحت آنے والی باری پھر ان کی ہوگی جنہوں نے اُنہیں اُس چینل تک پہنچایا ہے اور آنے والے دور حکومت میں شاید وہ کسی دیہاتی ریڈیو پروگرام میں صحت کے حوالے سے مفید مشورے دے رہے ہونگے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story