امید کی کرن
دہشت گردی کے اس ماحول میں اسماعیلی برادری نے علم دوستی اور بردباری کا ثبوت دیا
دہشت گردی کے اس ماحول میں اسماعیلی برادری نے علم دوستی اور بردباری کا ثبوت دیا۔گزشتہ ہفتے صفورا چورنگی پردہشت گردوں کی جانب سے بس پر فائرنگ اور 45 افراد کی شہادت کے بعد جب 14 مئی کو شہر میں یومِ سوگ تھا، اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کو یومِ احتجاج کے نام پر بند کردیا گیا تھا تو آغا خان بورڈ سے منسلک تعلیمی ادارے کھلے رہے۔ شہر میں صرف آغا خان بورڈ کے امتحانات شیڈول کے مطابق ہوئے۔
اس برادری نے اپنے پیاروں کی موت اور قریبی عزیزوں کے گھروں کو اجڑنے کے باوجود نہ کوئی سڑک بند کی اور نہ ہی کوئی سگنل توڑا گیا۔ جب الاظہر گارڈن سے جنازے اٹھے تو سب کچھ ترتیب سے ہوا، کسی نہ کسی کو دھکا نہیں دیا، اسماعیلی برادری نے پاکستانی معاشرے میں ایک ایسی مثال قائم کی جس پر ہر باشعور شخص عمل پیرا ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں مذہبی تعصب اور فرقہ وارایت پھیلانے کی تاریخ قدیم ہے۔ 80ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے دورِاقتدار میں پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بنیادی کردار ادا کرنے والوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ملک میں فرقہ وارانہ تنظیموں کی حوصلہ افزائی کا آغاز ہوا' اس میں ذرایع ابلاغ کے بعض لوگ بھی شامل تھے۔
اربابِ اختیار نے اس خطرناک رجحان کی پردہ پوشی کی۔ پھر نئی صدی میں دہشت گردی کی لہر نے جہاں تمام روشن خیال لوگوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں فرقہ واریت میں بھی نامور شخصیات قتل ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے معزز بن گئے اور پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے معتوب قرار پائے۔ صفورا چورنگی پر بس فائرنگ کا معاملہ ایک طرف امن وامان اور دوسری طرف مخصوص ذہنوں کی تیاری سے منسلک ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں پشاور پبلک اسکول کے بچوں کی شہادت کے بعد منتخب وزیر اعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو گول میز کانفرنس میں مدعو کیا اور فوج کے سربراہ اپنے جنرلوں یک ساتھ شریک ہوئے۔ نیشنل ایکشن پلان پر اتفاقِ رائے ہوا۔ اس پلان پر عملدرآمد کے لیے حکمتِ عملی تیار ہوئی۔ شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب ہوا۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں رینجرز اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کیا۔ اخبارات میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاریوں اور ہلاکتوں کی خبریں شایع ہوئیں مگر کراچی کے حالات پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور ٹارگیٹ کلرز کی گرفتاری کی خبروں کے بعد کراچی میں کچھ دن امن رہا۔
آرام باغ کے قریب مسجد پر خودکش حملہ ہوا اور پھر شہر میں ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی۔ ڈیفنس میں سبین محمود اور فیڈرل بی ایریا میں ڈاکٹر وحید الرحمن کو شہید کردیا گیا۔ پولیس والوں پر حملوں میں شدت آگئی اور پھر صبح کے 10 بجے ایک بس پر حملے میں 45 افراد کو شہید کردیا گیا۔ یوں ان واقعات سے ثابت ہوا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عمل نہیں ہوا یا کہیں خامی رہ گئی۔ نیشنل ایکشن پلان میں اسلحے کی فراہمی روکنے پر کوئی خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ملک میں ہر قسم کے اسلحے کی بھرمار ہے۔ جدید ترین اسلحہ آسانی سے مل جاتا ہے۔
روایتی طور پر کہا جاتا ہے کہ افغانستان سے اسلحہ آتا ہے۔گزشتہ سال سمندر سے اسلحے کی اسمگلنگ کے الزامات لگے، اسلحے کے کاروبار میں بااثر سردار، منتخب اراکینِ اسمبلی اور ایجنسیوں سے منسلک افراد کے نام آتے ہیں۔ اسلحے کی ضبطی ایک انتہائی مشکل معاملہ ہے اور چند دنوں میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
کچھ ماہرین 5 سال اور کچھ 10 سال کی مدت طے کرتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں فوری طور پر اسلحے کے کاروبار کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں تو اس ضمن میں کئی سال بھی لگ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جب شمالی وزیرستان اور قبائلی علاتوں میں آپریشن ہوا تو بہت سے دہشت گرد فرار ہوکرکراچی پہنچ گئے۔ خیبر پختون خواہ، پنجاب اور سندھ پولیس نے اس معاملے میں کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ پنجاب میں دہشت گردوں کی کمین گاہوں کے خاتمے کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
کراچی میں پولیس اور رینجرز نے مؤثر کارروائیاں کیں۔ بہت سے دہشت گرد مارے گئے مگر ایک اور بات ثابت ہوگئی کہ دہشت گردوں کی ہلاکتوں سے ان کا نیٹ ورک متاثر نہیں ہوا۔ دہشت گردی سے مذموم مقاصد حاصل کرنے والے طاقت ورگروہوں کو نئے لوگ دستیاب ہوگئے۔ ان کالعدم تنظیموں کی مالیاتی سپلائی لائن بھی نہیں کٹی۔ کراچی کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے ایک سیمینار میں کراچی شہر میں مختلف نوعیت کی مافیاز کا ذکر کیا ہے جو ایک حقیقت ہے۔بدقسمتی سے سیاستدان، بیوروکریٹس اور ایجنسیاں ان مافیاز کی سرپرستی کرتی رہی ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ان مافیازکے خلاف بھرپور مہم چلائی جائے اور شہر کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے۔ بہت سے معاملات رجعت پسند ذہنوں کی تیاری سے منسلک ہوگئے۔ یہ رجعت پسند ذہن کراچی سمیت دیگر شہروں اور دیہاتوں میں تیار ہورہے ہیں۔ ان میں تعلیمی ادارے اور مدارس بھی ہیں۔ ذرایع ابلاغ رجعت پسندانہ اور غیر منطقی مواد کو شایع اور نشر کر کے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی ریاست رجعت پسندی کے نقصانات اور دہشت گردی کے اسباب اور نقصانات کے بارے میں اپنا بیانیہ Narrative واضح کرے۔ اس بیانیہ کی تمام سیاسی جماعتیں تائید کریں، جو سیاسی جماعتیں اس بیانیہ کی حمایت نہ کریں ان کے خلاف دہشت گردوں کی حمایت کے الزام میں سپریم کورٹ میں مقدمات چلائے جائیں۔
اس بیانیہ کی روشنی میں مدرسوں میں اصلاحات کی جائیں اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب کو تبدیل کیا جائے۔ پورے ملک میں زکوٰۃ، فطرے اور صدقات کی رقوم کالعدم تنظیموں کو نہ بھیجی جائیں اور جو افراد اور ادارے اس معاملے میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات قائم کیے جائیں۔ بہرحال اسماعیلی برادری نے جو روایت قائم کی ہے وہ امید کی کرن ہے۔