باتیں ہماری یاد رہیں گی
زندگی میں عموماً کچھ واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے۔
ISLAMABAD:
زندگی میں عموماً کچھ واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے۔ ضروری نہیں کہ ان کا تعلق ہماری ذات سے ہی ہو، بعض واقعات دوسروں کے بھی ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ ثوبان امتیازی کی کتاب ''باتیں ہماری یاد رہیں گی'' میں کچھ ایسے ہی واقعات کا ذکر ہے۔ ثوبان اردو زبان اور ادب میں ایم اے ہیں، راولپنڈی کے گورڈن کالج میں اردو کے استاد رہے ہیں۔ قانون بھی پڑھا اگرچہ ملازمت بینک میں کی ہے اور اسی سلسلے میں لندن میں رہے ہیں۔
ثوبان امتیازی لکھتے ہیں ''میری والدہ بڑی شفیق اور نرم دل تھیں۔ جو ملتا تھا ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ اپنے ہوں یا غیر کے سب بچوں پر جان چھڑکتی تھیں۔ آخر عمر میں بینائی سے محروم ہو گئی تھیں۔ ایک آنکھ سے جس کا آپریشن ہوا تھا، دھندلا دھندلا نظر آتا تھا۔ بس اسی سے کام چلاتی تھیں۔'' 1956ء میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ حج پر گئیں۔ ایک دن طواف کر کے جب وہ ایک طرف جا کر بیٹھیں تو دل میں ہوک اٹھی کہ حجر اسود کا بوسہ دوں۔ میاں سے کہنے لگیں ''مجھے حجر اسود کا بوسہ تو دلوا دو۔'' وہ چیخ کر بولے ''تم آنکھوں سے معذور ہو۔ اتنا رش ہے۔
میں کیسے تمہیں حجر اسود کا بوسہ دلوا دوں۔'' چپ ہو گئیں اور دل ہی میں کہنے لگیں ''اے میرے اللہ! تُو نے مجھے اتنی دور سے اپنے گھر بلایا ہے۔ مجھ نابینا، معذور ور بوڑھی عورت کو کسی طرح حجر اسود کا بوسہ تو دلوا دے۔'' ابھی یہ دعا دل سے نکلی ہی تھی کہ ان کے میاں کی آواز آئی ''چلو چلو۔۔۔ اٹھو! ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ حجر اسود کا بوسہ دلوا دیں گے۔'' یہ سن کر وہ خوش ہو گئیں، جلدی سے اٹھیں اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر ایک صاحب کے پیچھے چل پڑیں۔ وہ صاحب عربی میں کچھ کہتے ہوئے لوگوں کو ہٹا رہے تھے اور ہمارے لیے راستہ بنا رہے تھے۔
آخر ان صاحب نے انھیں حجر اسود کا بوسہ دلوا دیا اور واپس لا کر اسی جگہ بٹھا دیا۔ پھر وہ غائب ہو گئے۔ نہ جانے کون تھے، کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے۔
مرزا یوسف بیگ ثوبان امتیازی کی بیگم کی ایک بہت پیاری سہیلی رضوانہ کے شوہر تھے۔ لندن میں ایک مشترکہ دوست ڈاکٹر عرفان کے ہاں، ان کی دعوت ہوئی۔ وہاں عمرہ کے لیے ان کے سعودی عرب جانے کا ذکر نکل آیا۔ مرزا یوسف بیگ کہنے لگے، لو مجھ سے اس کا احوال سنو۔ ہوا یوں کہ مرزا یوسف اپنی ضعیف والدہ کو ان کے انکار کرنے کے باوجود کراچی سے واپس لندن آتے ہوئے اپنے ساتھ لے آئے۔
کچھ عرصہ تو وہ مطمئن رہیں اور پھر تنہائی اور موسم سے اکتا کر کراچی واپس جانے پر اصرار کیا۔ مرزا پہلے تو بہانے کرتے رہے پھر آخر تیار ہو گئے۔ کہنے لگے ''اماں! میں تمہیں عمرہ کرواتے ہوئے واپس کراچی لے جاؤں گا۔'' ان کی والدہ خوش ہو گئیں۔ مرزا نے اپنا اور والدہ کا پاسپورٹ سعودی سفارت خانے میں جمع کرا دیا، چھٹی کی درخواست بھی اپنے دفتر کو دے دی۔ چند دن میں ویزے لگ کر پاسپورٹ مل گئے اور چھٹی بھی منظور ہو گئی۔
اب یوسف مرزا نے مصری ایئرلائن سے دو سیٹیں لندن، جدہ، کراچی کے لیے بک کرائیں، اور والدہ کو لے کر روانہ ہو گئے۔ جہاز لندن سے اڑ کر قاہرہ پہنچا۔ وہاں سے انھیں دوسرے جہاز سے جدہ جانا تھا۔ جب وہ مقررہ وقت پر چیک اِن کاؤنٹر پر پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ ان کے ویزوں کی میعاد ختم ہو گئی اور وہ سعودی عرب نہیں جا سکتے۔ مرزا صاحب حیران ہو گئے۔ بقول شخصے ان کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔
انھوں نے مصری ایئرلائن کے کارکن کو بتایا کہ ان کی والدہ بوڑھی ہیں، مسئلہ ہو جائے گا انھیں جانے کی اجازت دے دی جائے۔ مصری کارکن نے کہا کہ وہ صرف یہ کر سکتا ہے کہ ان کو ہنگامی طور پر دو دن کا انٹری ویزا دلوا دے اور وہ قاہرہ میں سعودی سفارت خانے سے عمرے کے نئے ویزے لگوا لیں اور دوسری فلائٹ سے جدہ چلے جائیں۔ مرزا یوسف نے اسے غنیمت سمجھا، کارکن نے انھیں دو دن کا عارضی انٹری ویزا دلوا دیا۔
اب وہ اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان سے کہا ''اماں! تم یہیں بیٹھی رہنا، کہیں نہیں جانا، میں بس یوں گیا اور یوں آیا۔'' ان کی والدہ نے پوچھا ''تم کہاں جا رہے ہو؟'' انھوں نے جواب دیا ''سعودی عرب کے سفارت خانے نیا ویزا لگوانے، کیونکہ پرانا ویزا ختم ہو گیا ہے۔'' انھوں نے دیکھا، ان کی ماں یہ سن کر متفکر ہو گئیں۔ کہنے لگیں ''بیٹا! اپنا خیال رکھنا۔'' یوسف نے پوچھا ''کیوں اماں؟'' کہنے لگیں ''بیٹا! یہ مصر ہے اور یہاں کے لوگ بہت خراب ہوتے ہیں۔ تجھے پتہ نہیں کہ حضرت یوسف ؑ کے ساتھ کیا ہوا تھا اور بیٹا! تیرا نام بھی یوسف ہے۔ کہیں تجھے بھی کوئی بہلا پھسلا کر کسی اندھے کنوئیں میں نہ پھینک دے۔''
مرزا یوسف نے ماں کو تسلی دی کہ انھیں کچھ نہیں ہو گا، پھر ایئرپورٹ سے نکل کر ٹیکسی لی اور سیدھے قاہرہ میں سعودی سفارت خانے پہنچ گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ سفارت خانہ بند ہو چکا ہے اور اب کل کھلے گا۔ اب کیا کر سکتے تھے، پھر ٹیکسی لی اور ایئرپورٹ واپس آ گئے لیکن یہاں ایک اور افتاد پڑی۔ جب وہ ایئرپورٹ کے اندر لاؤنج میں جانے لگے تو انھیں دروازے پر روک دیا گیا۔ انھوں نے بہت کچھ اشاروں سے دربان کو سمجھایا، مگر وہ نہ سمجھا۔ انگریزی وہ جانتا نہ تھا اور عربی یہ بول نہیں سکتے۔ بڑی مشکل سے اس نے انھیں اندر جانے کی اجازت دی۔
اندر گئے تو وہ جگہ بھول گئے جہاں اپنی والدہ کو بٹھا کر گئے تھے، کیونکہ نکلے کسی دروازے سے تھے اور داخل کسی اور دروازے سے ہوئے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے۔ اماں، اماں! آوازیں بھی دیں، مگر بے سود۔ ابھی وہ تھک کر ایک جگہ بیٹھے ہی تھے کہ دیکھا ایک کونے میں ان کی والدہ بیٹھی اونگھ رہی ہیں۔ اماں کو دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ والدہ کے پاس گئے، ان کو جگایا۔ والدہ نے پوچھا ''کیا اب وقت چلنے کا ہو گیا؟'' یوسف نے انھیں بتایا کہ نہیں کل چلیں گے اور دل میں کہا، اگر ویزا مل گیا تو۔
ماں اور بیٹے دونوں بھوکے تھے، کھانا کھایا۔ یوسف تو تھک بھی بہت گئے تھے آرام کرنے ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ رات سوتے جاگتے کسی طرح گزری۔ صبح ہوتے ہی یوسف ایئرپورٹ سے باہر آئے، ٹیکسی لی اور سعودی عرب کے سفارت خانے پہنچ گئے۔ ٹیکسی والا کوئی بھلا مانس تھا۔ باتوں باتوں میں ان کی پریشانی کا حال معلوم ہوا تو اس نے ان کو حوصلہ دیا اور ویزا حاصل کرنے میں ان کی پوری مدد کرنے کا یقین دلایا۔ پھر وہ ان کے ساتھ سعودی سفارت خانے کے اندر گیا اور عربی میں سارا معاملہ وہاں عملے کو سمجھایا۔ اب ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا۔ بندہ ایک تھا اور پاسپورٹ دو۔ پوچھا، یہ دوسرا پاسپورٹ جن خاتون کا ہے وہ کہاں ہیں۔ بتایا کہ میری والدہ ہیں اور ایئرپورٹ پر بیٹھی ہیں۔
کلرک نے کہا کہ ان کا یہاں ہونا ضروری ہے ورنہ ویزا نہیں ملے گا۔ یوسف پھر اس ٹیکسی میں ایئرپورٹ گئے۔ ماں کو ساتھ لے کر سامان ایک جگہ حفاظت سے رکھوایا اور پھر سعودی ایمبیسی پہنچے۔ اس سے پہلے ایئرپورٹ پر یہ تماشا ہوا کہ ٹیکسی غلط جگہ کھڑی تھی تو پولیس والے کرین پر اٹھا کر اسے لے چلے یوسف کی والدہ ٹیکسی میں بیٹھ چکی تھیں۔ انھوں نے بیٹے کو آواز دی کہ جہاز اڑنے لگا ہے، تم جلدی اندر آؤ۔ یوسف نے پولیس والے کو روکا، ٹیکسی والے نے عربی میں اسے بتایا کہ معاملہ کیا ہے۔ بہرحال بہ ہزار دقت یہ ایمبیسی پہنچے۔ ایک گھنٹے میں نیا ویزا مل گیا۔ ٹیکسی والا انھیں پھر واپس ایئرپورٹ لے کر آیا اور یوسف اور ان کی والدہ دو گھنٹے بعد اگلی فلائٹ سے جدہ روانہ ہو گئے۔
مرزا یوسف اور ان کی والدہ جدہ سے مکہ تو پہنچ گئیں مگر یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ٹیکسی والے نے اس ہوٹل سے جہاں ان کو جانا تھا کافی پہلے یہ کہہ کر اتار دیا کہ آگے چڑھائی بہت ہے ٹیکسی اوپر نہیں جا سکتی۔ مجبوراً یوسف نے بستر کی ایک چادر نکال کر زمین پر بچھائی، والدہ کو اس پر بٹھایا اور سامان لے کر ہوٹل گئے جو کچھ بلندی پر تھا، پھر واپس ماں کو لینے آئے۔ یہاں پہنچے تو دیکھا کہ جس چادر پر ان کی ماں بیٹھی تھیں اس پر بہت سے سکے پڑے ہیں۔ جو بھی قریب سے گزر رہا تھا، وہ والدہ کے آگے چادر پر کچھ سکے ڈالتا چلا جا رہا تھا۔
ان کو غصہ تو بہت آیا مگر پھر مسکرائے، سکے جمع کیے، چادر لپیٹی ماں کو لے کر ہوٹل پہنچے اور وہ سکے ایک نو دس سالہ عرب لڑکے کو دے دیے ۔ اگلے روز یوسف نے اپنی ماں کو کندھے پر بٹھا کر طواف کرایا، سعی کرائی اور پھر دو چار دن مکہ میں ٹھہر کر کراچی جانے کے لیے جدہ کا رخ اختیار کیا۔