توکون اور میں کون
کبھی سوچا ہے کہ یہاں ایک اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ڈرون حملے ٹھیک نہیں
یہ لوگ ہر وقت ڈالر کا ہار پہن کر امریکا مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں لیکن عوام ان کی باتوں پر کان تک نہیں دھرتے۔ کبھی سوچا ہے کہ یہاں ایک اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ڈرون حملے ٹھیک نہیں، اس سے جہاں ہماری خود مختاری متاثر ہوتی ہے وہیں بے گناہوں کا خون بھی بہتا ہے لیکن یہ ہر وقت امریکا کے جھنڈے جلانے والوں کے ساتھ، لبیک کیوں نہیں کہتے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا بہت ہی پارسا ہے یا پھر انھیں یہ نعرے سمجھ نہیں آتے یا پھر ان نعرے لگانے والوں کی نیت سے وہ واقف ہیں۔
یہاں ایک کتا بھی مر جاتا ہے تو ہمیں امریکا، اسرائیل، بھارت اور روس کی سازش لگتی ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی فرصت نہیں ملتی۔ ہماری یہ ہی منافقتیں ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس یہاں سر عام قتل کرتا ہے اور پھر باہر بھی نکل جاتا ہے۔ ایک بے انصافی سانحے کی شکل اختیار کر لیتی ہے ایک قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے لیکن ہمارے یہاں ہر روز سانحات ہوائوں کی طرح ہو کر گزر جاتے ہیں۔ دو دن شور شرابہ ہوتا ہے اور پھر سب کہنے لگ جاتے ہیں کہ تو کون اور میں کون۔ یہ غیرت مند اور بے غیرت کے طعنے دینے والوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اجتماعی ذلت اور اجتماعی جدوجہد کس چڑیا کا نام ہے۔
آئیے آپ کو یہ بتانے کے لیے کسی مسلم ملک نہیں بلکہ جاپان لے کر چلتا ہوں جہاں ہزاروں لوگوں نے ایک ساتھ کھڑے ہو کر بتایا کہ نفرت اور جدوجہد کس چڑیا کا نام ہے۔
ظلم اور بربریت کی ماضی قریب میں سب سے ہولناک مثال دوسری جنگ عظیم ہے۔ اس میں ہر طاقت نے جمہوریت، انصاف اور امن کے نام پر خون کی ہولی کھیلی، لیکن سب کا مقصد اپنے تسلط کو قائم رکھنا یا بڑھانا تھا۔ تاریخ کے اوراق میں سب کی بربریت درج ہے۔ حالیہ دنوں میں اُس وقت کے تمام خونخوار درندوں نے جنگ کی یاد اس طرح سے منائی کہ جیسے اب سب کے دامن صاف ہو چکے ہیں۔
جنگ عظیم کے سب سے ہولناک مناظر وہ تھے جب جاپان پر ایٹم بم گرائے گئے۔ لمحہ بھر میں لاکھوں لوگوں کو ختم کر دیا گیا۔ جاپان ٹوٹ رہا تھا اور اس جنگ کے اختتام سے کچھ وقت پہلے جمہوریت اور انسانیت کے سب سے بڑے چیمپئن امریکا نے جاپان کے اہم حصہ اوکیناوا پر چڑھائی کر دی ۔ ایک لاکھ 85 ہزار فوجیوں کے ساتھ امریکا نے یہاں گھس کر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کر دی ۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکیوں نے ہر چوتھا آدمی قتل کر دیا، مگر اوکیناوا کے لوگوں میں آج تک اپنا خوف پیدا نہ کر سکا۔
اوکیناوا، جاپان کے جنوب شمال میں انتہائی اہم جگہ پر موجود ہے جہاں سے اس خطے کے سمندر پر اپنا تسلط قائم کیا جا سکتا ہے۔ اوکیناوا کی تاریخ پتھروں کے زمانے سے ملتی ہے لیکن اس کے متعلق پہلی تحریر آٹھویں صدی کی موجود ہے۔
سیکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل اس حصے میں انیسویں صدی تک اپنی بادشاہت رہی اور115 سال پہلے یہاں جاپان کا کنٹرو ل ہو گیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں امریکا کا پرچم لہرانے لگا، لیکن یہاں لوگوں نے اس ظلم و بربریت کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی اور امریکا کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ امریکا نے یہاں پر اپنی ملٹری حکومت قائم کی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب اقوام متحدہ کا چارٹر بن چکا تھا۔ تمام ممالک اُس پر دستخط کر چکے تھے اور آزادی کا دم بھرنے والا امریکا جاپان پر قابض ہو کر وہاں ملٹری حکومت قائم کر چکا تھا۔
لیکن دوسری طرف سرد جنگ شروع ہو چکی تھی۔ جہاں سوویت یونین اپنا اثر بڑھا رہا تھا اور وہی چین میں کمیونسٹ انقلاب آ چکا تھا ہر طرف ایشیا سرخ ہے کہ نعرے لگ رہے تھے ایسے میں امریکا نے اوکیناوا میں تیزی کے ساتھ اپنے فوجی بڑھانا شروع کر دیے اور امریکا نے یہاں پر ایٹمی ہتھیار جمع کرنا شروع کر دیے ایک رپورٹ کے مطابق اُس وقت 19 اقسام کے ایٹمی ہتھیار یہاں رکھے گئے۔ دوسری طرف یہاں کے مقامی لوگوں میں اشتعال بڑھتا گیا۔ امریکا نے اپنے خلا ف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانا شروع کر دیا اور یہاں تک سختی کر دی کے کوئی ان کے آرمی کیمپ کے قریب سے نہیں گزر سکتا تھا اور پھر ویتنام کی جنگ شروع ہو گئی ۔
امریکا نے اس جگہ کو بھرپور انداز میں ویتنام کے خلاف استعمال کیا۔ مقامی لوگوں کے ذہن میں ابھی تک دوسری جنگ عظیم میں پھینکے جانے والے ایٹم بم تھے۔ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چین یا روس سے براہ راست جنگ ہو جائے اور امریکا کی وجہ سے ہم پر بھی عتاب آ جائے ایک بار پھر لوگوں نے امریکی قیام کے خلاف تحریک شروع کی، مگر جاپان کی حکومت نے امریکا سے ایک معاہدہ کر لیا۔
اوکیناوا کے لوگ اس سے بالکل بھی خوش نہیں تھے اور پھر 1969ء میں کیمیائی مواد خارج ہونے لگا۔ آبادی کو شدید نقصان پہنچا۔ جس بات کا خدشہ تھا وہ ہی ہوا۔ مہینوں تک مقامی آبادی کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دبائو کے پیش نظر امریکا اور جاپان میں ایک معاہدہ ہوا امریکا نے اوکیناوا کا کنٹرول جاپان کو دے دیا۔ مگر اپنا فوجی بیس وہاں سے نہیں ہٹایا۔ بلکہ اس میں اضافہ ہی کرتے رہے اور پھر 4 ستمبر 1995ء کا دن آ گیا۔
اس دن ایک سانحے پیش آیا اور اُس کے بعد ایک تحریک کا آغاز ہو گیا۔ امریکا کے تین فوجیوں نے ایک 12 سال کی لڑکی کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ مقامی لوگوں کی نفرت سونامی بن کر اٹھی۔ شدید مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ امریکا اور جاپان کے درمیان معاہدہ تھا کہ اگر کوئی امریکی قانون توڑے گا تو اُسے تفتیش کے لیے جاپانی حکومت کے حوالے کیا جائے گا اور جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا وہ امریکی انتظامیہ کے پاس رہے گا۔ مگر جیسے ہی جرم ثابت ہو گا تو اُسے مقامی قانون کے مطابق سزا ہو گی۔
امریکا نے ان ملزمان کو حوالے کرنے میں تاخیر کر دی۔ جاپانی غصے میں ہر روز جمع ہونے لگے۔ اور آخر کار اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو ایک معاہدہ کرنا پڑا۔ جس کے بعد ملزمان کو جاپان کے حوالے کر دیا گیا۔ مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔
لڑکی کے انصاف کے لیے شروع ہونے والی تحریک آزادی کی تحریک میں بدلنے لگی۔ لیکن ان ظالموں کی سوچ دیکھے اُسی وقت امریکا کے ایک بہت سینئر فوجی نے ایک بیان داغ دیا جس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ کس سوچ کے ساتھ ہم سے بات کرتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ میں ان فوجیوں کو سمجھاتا ہوں کہ یہ سب کرنے کی ضرورت کیا ہے جتنے میں تم گاڑی کرائے پر لیتے ہو اتنے میں جاپان میں لڑکی مل جاتی ہے۔ اس تضحیک کی کوئی گنجائش نہیں تھی جاپانیوں نے اور شدت کے ساتھ مظاہرے شروع کر دیے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ امریکا کو اُس وقت کے نیول سربراہ کو عہدے سے ہٹانا پڑ گیا۔
جاپانی قانون کے مطابق ملزمان کو سزا ہوئی اور یہ لوگ اپنی سزا پوری کر کے 2003 ء رہا ہوئے جس میں سے ایک نے امریکا میں خود کشی کر لی۔
مقامی لوگ وہاں امریکا کا کوئی کیمپ نہیں چاہتے۔ گزشتہ اتوار کو وہاں 40 ہزار لوگ جمع ہوئے اور سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ امریکا کا یہاں سے کیمپ ہٹایا جائے۔ اب آپ مجھے بتائیں جیسے ہمارے یہاں سے ریمنڈ ڈیوس نکلا ایسے وہاں سے ملزمان کیوں نہ نکل سکے۔ کیوں امریکی صدر کو معاہدے پر دستخط کرنے پڑے؟