حرام گوشت بیچنے والوں کے خلاف قانون کی منظوری
بیمار،مرداراورحرام جانوروں کاگوشت فروخت کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں جن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ازحد ضرورت ہے۔
ملک میں حرام و مردار جانوروں کے گوشت کی فروخت کے واقعات پے درپے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آرہے ہیں، گدھوں اور کتوں کا گوشت نہ صرف چھوٹے پسماندہ علاقوں بلکہ کئی نامور ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں سپلائی کی خبریں بھی میڈیا کے ذریعے منکشف ہوئیں جس نے عوام کی طبیعت مکدر اور باہر کے کھانے کو مشکوک بنا دیا۔ بیمار، مردار اور حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں جن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ازحد ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکٹ اور پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت اینیمل سلاٹرنگ ایکٹ میں ضروری ترامیم اور قانون سازی کی منظوری دی گئی ہے اور اس حوالے سے ایسے جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے سول سیکریٹریٹ لاہور میں اعلیٰ سطح اجلاس سے خطاب میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے غیر معیاری، بیمار، مردار اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت کے خلاف صوبہ بھر میں کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس مکروہ کاروبار میں ملوث عناصر کی جگہ جیل ہے اور عوام کو زہر آلود اشیا اور حرام و مردار گوشت کھلانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
ایک اور اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ صحت عامہ کی سہولتوں کی بہتری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنے والوں کے خلاف سزائیں مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت یہ قبیح کاروبار کرنے والوں کو 8 برس قید کی سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ غیر معیاری خوراک سے کسی شخص کی ہلاکت پر 10 برس قید اور 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ حکومت پنجاب کا صحت عامہ کے حوالے سے یہ اقدام قابل ستائش ہے، صائب ہوگا کہ اس قانون کو دیگر صوبوں کی اسمبلیوں سے بھی پاس کروایا جائے۔
پنجاب کی طرح سندھ میں بھی مردار اور حرام جانوروں کی گوشت کی فروخت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور دیگر شہروں میں گدھوں کی گوشت کا منظم کاروبار اور کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں کتوں کے گوشت کی بڑے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں سپلائی کی خبریں بھی عوام میں اضطراب کا باعث بنی ہیں۔ غذا اور صحت کے حوالے سے ناقص منصوبہ بندی، فوڈ انسپکٹر کی چشم پوشی اور غیر معیاری اشیا کی فروخت پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کے باعث واقعات کی سنگینی مزید بڑھ رہی ہے۔
چند روپوں کی خاطر انسانی صحت اور ایمان سے کھیلنے والے بھیڑیے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلال و حرام چیزوں کا امتیاز ریاست کا وصف ہونا چاہیے تاکہ عوام بلاخوف و خطر خریداری اور باہر کھانا کھا سکیں، بیرون ملک مقیم مسلمانوں کو کھانے پینے میں حرام اشیا کی ملاوٹ کا خوف ستائے رکھتا ہے لیکن ایک اسلامی مملکت میں اپنے عوام کو حلال اشیا کی فراہمی حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
مسلمانوں کو حرام اشیا دھوکے سے فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین اور کارروائیاں ملک میں بڑھتے ہوئے ان واقعات کو لگام دینے کا باعث بنیں گی، نیز غیر معیاری خوراک کی سپلائی بھی ایک اہم مسئلہ ہے، شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں غیر معیاری کھانوں کی فراہمی کے باعث بڑے سانحات پیش آچکے ہیں جس پر موثر انداز میں ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ صحت و ایمان ہمارے قیمتی اثاثے ہیں جس کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے، نیز حکومت وقت کو بھی اس سلسلے میں چوکنا رہنا ہوگا۔
اس سلسلے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکٹ اور پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت اینیمل سلاٹرنگ ایکٹ میں ضروری ترامیم اور قانون سازی کی منظوری دی گئی ہے اور اس حوالے سے ایسے جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے سول سیکریٹریٹ لاہور میں اعلیٰ سطح اجلاس سے خطاب میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے غیر معیاری، بیمار، مردار اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت کے خلاف صوبہ بھر میں کریک ڈاؤن کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس مکروہ کاروبار میں ملوث عناصر کی جگہ جیل ہے اور عوام کو زہر آلود اشیا اور حرام و مردار گوشت کھلانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
ایک اور اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ صحت عامہ کی سہولتوں کی بہتری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنے والوں کے خلاف سزائیں مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت یہ قبیح کاروبار کرنے والوں کو 8 برس قید کی سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ غیر معیاری خوراک سے کسی شخص کی ہلاکت پر 10 برس قید اور 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ حکومت پنجاب کا صحت عامہ کے حوالے سے یہ اقدام قابل ستائش ہے، صائب ہوگا کہ اس قانون کو دیگر صوبوں کی اسمبلیوں سے بھی پاس کروایا جائے۔
پنجاب کی طرح سندھ میں بھی مردار اور حرام جانوروں کی گوشت کی فروخت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور دیگر شہروں میں گدھوں کی گوشت کا منظم کاروبار اور کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں کتوں کے گوشت کی بڑے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں سپلائی کی خبریں بھی عوام میں اضطراب کا باعث بنی ہیں۔ غذا اور صحت کے حوالے سے ناقص منصوبہ بندی، فوڈ انسپکٹر کی چشم پوشی اور غیر معیاری اشیا کی فروخت پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کے باعث واقعات کی سنگینی مزید بڑھ رہی ہے۔
چند روپوں کی خاطر انسانی صحت اور ایمان سے کھیلنے والے بھیڑیے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلال و حرام چیزوں کا امتیاز ریاست کا وصف ہونا چاہیے تاکہ عوام بلاخوف و خطر خریداری اور باہر کھانا کھا سکیں، بیرون ملک مقیم مسلمانوں کو کھانے پینے میں حرام اشیا کی ملاوٹ کا خوف ستائے رکھتا ہے لیکن ایک اسلامی مملکت میں اپنے عوام کو حلال اشیا کی فراہمی حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
مسلمانوں کو حرام اشیا دھوکے سے فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین اور کارروائیاں ملک میں بڑھتے ہوئے ان واقعات کو لگام دینے کا باعث بنیں گی، نیز غیر معیاری خوراک کی سپلائی بھی ایک اہم مسئلہ ہے، شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں غیر معیاری کھانوں کی فراہمی کے باعث بڑے سانحات پیش آچکے ہیں جس پر موثر انداز میں ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ صحت و ایمان ہمارے قیمتی اثاثے ہیں جس کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے، نیز حکومت وقت کو بھی اس سلسلے میں چوکنا رہنا ہوگا۔