امن دشمنوں کا چھپ کر وار
مگر سانحہ صفورا چورنگی کے بعد شہر قائد بے گناہوں کے خون ناحق پر پھر سے سوگوار ہو گیا ہے
کراچی گزشتہ تین عشروں سے لہولہان ہے، کراچی کے سوا دنیا کی کوئی ایسا میگا سٹی نہیں ہے جو اتنے طویل عرصے تک بدامنی اور خونریزی کا شکار رہا ہو اور ہزارہا کوششوں کے باوجود یہاں امن قائم نہ ہو سکا ہو۔
کراچی کے وجود پر جو کاری ضربیں لگیں یا لگ رہی ہیں انھوں نے ہماری روحوں کو بھی زخمی کر دیا ہے۔ میں کراچی میں نہیں رہتا بلکہ کراچی مجھ میں رہتا ہے، اس کے وجود پر لگنے والی ہر چوٹ سے میری روح کانپ اٹھتی ہے۔ کراچی پاکستان ہے اور پاکستان کراچی ہے۔ پاکستان کا ہر شہر، ہر قصبہ، ہر گاؤں، گوٹھ، بستی، گلی اور ہر علاقہ کراچی میں بستا ہے۔ کراچی میں گرنے والی لاشیں پاکستان کے ہر قبرستان میں دفن ہیں۔ یہ ہم سب کا شہر ہے، ہمیں کراچی کو بچانا ہے، ہمیں اپنے آپ کو بچانا ہے، ہمیں اس ملک کو اور اپنی نسلوں کو بچانا ہے۔
کراچی میں 12 مئی کے بعد 13 مئی بھی برپا کر دیا گیا، کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ میں بدھ 13 مئی کو سفاک بربریت کی ایک اور داستان بے گناہ انسانوں کے خون سے رقم کی گئی۔ دہشتگردوں نے ایک بس میں گھس کر اسماعیلی برادری کے افراد پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 45 افراد جاں بحق، متعدد زخمی ہو گئے۔ ایک دن قبل کراچی کے لوگوں نے 12 مئی 2007ء کے شہداء کی یاد میں تعزیتی اجتماعات، سیمینار، آل پارٹیز کانفرنسز، ریلیاں اور جلسے منعقد کیے تھے۔
مگر سانحہ صفورا چورنگی کے بعد شہر قائد بے گناہوں کے خون ناحق پر پھر سے سوگوار ہو گیا ہے، ہر آنکھ پرنم ہے، دہشتگردی کی ایک پرخوں واردات نے مکمل امن کے امکانات پر شب خون مار دیا ہے جس کے بعد یاسیت، خوف و سراسیمگی اور بے یقینی کے کالے بادل منی پاکستان پر پھر سے منڈلانے لگے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی دہشت گردی کی ہولناک واردات نے کراچی آپریشن پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ منی پاکستان کے مکینوں اور ملک کے تمام محب وطن لوگوں کو ایک شدید اجتماعی ذہنی دھچکا لگا ہے۔ میڈیا سمیت عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس سانحے کے حوالے سے ایک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اگر یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے تو کیوں اور کیسے یہ ممکن ہوا کہ دہشت گرد ایک مشہور چوراہے کے قریب اسماعیلی کمیونٹی کی بس کو گھیرے میں لے کر قتل و غارت گری کریں۔
مگر ہمیں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے، ایک ایسی جنگ جو روایتی جنگوں سے مختلف ہے، جس میں نادیدہ دشمن سے واسطہ ہے، یہ جنگ پورے ملک پر محیط ہے، ضرب عضب آپریشن میں دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں کا صفایا کیا جا رہا ہے، وزیرستان میں ان کی تربیت گاہیں، ان کے اسلحہ خانے، ان کے محفوظ ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں، افغانستان کی سرزمین بھی ان کے لیے تنگ ہو گئی ہے۔
لیکن شہروں میں ان کے سلیپنگ سیل، ان کے سہولت کار ابھی موجود ہیں (انڈین راء کے ملوث ہونے کا ذکر تو اب کورکمانڈر کانفرنس اور وزارت خارجہ کی طرف سے بھی ہونے لگا ہے) دشمن دیوار کے ساتھ لگ رہا ہے، تو یہ توقع کیوں کی جائے کہ وہ پلٹ کر حملہ نہیں کرے گا، کراچی میں سیکیورٹی ایجنسیاں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں، قبائلی علاقوں (خیبر ایجنسی) کے آپریشن میں بھی پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کی خبر آتی رہتی ہے۔
آپریشن آگے بڑھ رہا ہے۔ دشمن پسپائی پر ہے لیکن یہ جنگ ابھی اور چلے گی۔ ہمیں اس میں اپنی کمزوریوں کو بھی رفع کرنا ہے لیکن دہشتگردی کے کسی واقعے پر ہاہا کار مچا کر، دشمن کے کھیل کو آگے نہیں بڑھانا۔ یہ وقت پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا ہے نہ میڈیا ریٹنگ کا۔ یہ دشمن پر آخری کاری ضرب لگانے کا وقت ہے۔ اس عزم کے اظہار کا وقت کہ ہم دشمن کے تعاقب میں خوف زدہ اور مایوس نہیں ہونگے۔ ہم سب اپنی حکومت، اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ آخری دہشتگرد بھی انجام کو پہنچ جائے، پاکستان پھر امن و عافیت کا گہوارہ بن جائے۔
دہشت گرد اصل میں قدامت پسند ہیں اور جدید انسانی معاشرت کے تمام مظاہر سے برگشتہ ہیں۔ وہ غیر جانبدار ریاستی بندوبست کے مخالف ہیں اور مذہب کے نام پر مطلق العنان شخصی اقتدار کے داعی ہیں۔ انصاف کے جدید نظام اور شفاف سماعت کے مخالف ہیں۔ جدید معیشت سے کدورت رکھتے ہیں۔ درہم و دینار کی دنیا سے شغف رکھتے ہیں۔ جدید علم کے دشمن ہیں، علم دشمنی ان کی پہچان ہے۔ صنف کی بنیاد پر مساوات کے مخالف ہیں۔ افغانستان سمیت جہاں ان گروہوں کو موقع ملا خواتین کی زندگی دوبھر ہو گئی۔ یہ گروہ فرقے اور مسلک کی بنیاد پر قتل و غارت پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں ان کے منحوس قدم پڑے وہاں عقیدے کی بنیاد پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔
پاکستان کا بنیادی اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مسخ شدہ مذہبی نظریات کے لبادے میں پروان چڑھنے والی اندھی انتہا پسندی ہے جو تاریک ادوار کی یاد دلاتی ہے۔ چاہے اس کا آغاز کہیں سے بھی ہوا ہو، اس کے لیے ہمیں تاریخ کی روایتی راہوں پر بھٹکنے یا گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں، ہم ہر آن اس کے قہر کا شکار ہوئے ہیں۔
اس ملک اور اس کے باسیوں کی قسمت کے ساتھ کئی برسوں سے بے بصر رہنما کھیلتے رہے ہیں اور اب تقدیر ہمیں اس فیصلہ کن موڑ پر لے آئی ہے کہ اب یہاں قیام امن کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا جب تک ہماری سوچ و نظر وسعت پذیر نہیں ہوتی جب تک نام نہاد جہاد کا بھڑکا ہوا الاؤ معقولیت کے پانی سے بجھا نہیں دیا جاتا۔ خدا خدا کر کے اب ہم اس قاتل دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں تا کہ ہم عقل کے تقاضوں کے مطابق جینا سیکھ لیں۔ جہنم سے واپسی کی راہ آسان نہیں ہوتی ہے اور پھر جنگجو دستے ابھی ختم نہیں ہوئے، یہ ضرور ہوا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں وہ منتشر ہو کر ملک کے مختلف حصوں میں موجود اپنی پناہ گاہوں میں چھپ گئے ہیں۔
شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک، ملک کے کونے کونے میں ان کے حامی اور پناہ فراہم کرنے والے موجود ہیں۔ یقینا ہم نے ایک طویل جنگ جس میں مشکلات میں پیش آئیں گی خون بھی بہے گا اور ہلاکتیں بھی ہو گی لڑنی ہے، اس میں پشاور اسکول اور کراچی بس جیسے اندوہناک سانحات بھی پیش آ سکتے ہیں۔ جب تک ہم آخری زہریلے ناگ کا سر نہیں کچل دیتے ہمیں یہ جنگ لڑنا ہو گی۔
ایک وقت تھا جب دہشتگردی کی وارداتوں کی وجہ سے عوام کی بے چینی بلکہ مایوسی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ عوام دیکھ رہے تھے کہ انتہا پسند طاقتیں آگے بڑھتے ہوئے جہاں چاہے، اپنی مرضی سے وار کر لیتی ہیں جب کہ ریاست بے سمت ہی نہیں بلکہ ان کے سامنے بے دست پا بھی دکھائی دیتی ہے۔ جس پر پاک فوج میدان میں اتری اور اب پاک فوج پوری بے جگری سے ان قاتل دہشتگردوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ یہ فوج اور رینجرز تھی، جنہوں نے یہ ناممکن کام ممکن کر دکھایا۔ اور ایپکس کمیٹیوں کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو بھی درست راہ پر لگا دیا گیا۔ جو کچھ بھی فوج نے کیا اس کی اشد ضرورت تھی کیونکہ اپنے تمام تر جوہری ہتھیاروں، میزائلوں اور اب ڈرون طیاروں کے باوجود پاکستان کو اندرونی دشمن تباہ کر رہا تھا۔ اگر فوج اس وقت بھی حرکت میں نہ آتی تو یوں سمجھیں کہ پانی سر سے گزر جاتا۔
سیاسی طبقے کی طرف سے ملنے والی نیم دلانہ حمایت فوج کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اہم بات یہ ہے کہ عوام کی رائے ان کے حق میں ہے۔ اب فوج کی قیادت میں ہمارا گھر واپسی کا سفر شروع ہو گیا ہے، ایسے گھر کی طرف جو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا خواب تھا۔
سچی رہنمائی اندھیرے جنگل میں ایک چراغ کی مانند ہے، جو یقینا پورے جنگل میں تو اجالا نہیں کرتا مگر اتنی روشنی ضرور بکھیر دیتا ہے کہ اٹھنے والا اگلا قدم محفوظ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان کی قیادت میں پاکستانی قوم کو سچی رہنمائی مل چکی ہے، افواج پاکستان نے دہشتگردوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، اس لیے امن دشمن اب چھپ کر وار کر رہا ہے اور اس کی مثال اس چراغ کی طرح ہے جو بجھنے سے قبل صرف ایک بار بھڑکتا ہے۔
کراچی کے وجود پر جو کاری ضربیں لگیں یا لگ رہی ہیں انھوں نے ہماری روحوں کو بھی زخمی کر دیا ہے۔ میں کراچی میں نہیں رہتا بلکہ کراچی مجھ میں رہتا ہے، اس کے وجود پر لگنے والی ہر چوٹ سے میری روح کانپ اٹھتی ہے۔ کراچی پاکستان ہے اور پاکستان کراچی ہے۔ پاکستان کا ہر شہر، ہر قصبہ، ہر گاؤں، گوٹھ، بستی، گلی اور ہر علاقہ کراچی میں بستا ہے۔ کراچی میں گرنے والی لاشیں پاکستان کے ہر قبرستان میں دفن ہیں۔ یہ ہم سب کا شہر ہے، ہمیں کراچی کو بچانا ہے، ہمیں اپنے آپ کو بچانا ہے، ہمیں اس ملک کو اور اپنی نسلوں کو بچانا ہے۔
کراچی میں 12 مئی کے بعد 13 مئی بھی برپا کر دیا گیا، کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ میں بدھ 13 مئی کو سفاک بربریت کی ایک اور داستان بے گناہ انسانوں کے خون سے رقم کی گئی۔ دہشتگردوں نے ایک بس میں گھس کر اسماعیلی برادری کے افراد پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 45 افراد جاں بحق، متعدد زخمی ہو گئے۔ ایک دن قبل کراچی کے لوگوں نے 12 مئی 2007ء کے شہداء کی یاد میں تعزیتی اجتماعات، سیمینار، آل پارٹیز کانفرنسز، ریلیاں اور جلسے منعقد کیے تھے۔
مگر سانحہ صفورا چورنگی کے بعد شہر قائد بے گناہوں کے خون ناحق پر پھر سے سوگوار ہو گیا ہے، ہر آنکھ پرنم ہے، دہشتگردی کی ایک پرخوں واردات نے مکمل امن کے امکانات پر شب خون مار دیا ہے جس کے بعد یاسیت، خوف و سراسیمگی اور بے یقینی کے کالے بادل منی پاکستان پر پھر سے منڈلانے لگے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی دہشت گردی کی ہولناک واردات نے کراچی آپریشن پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ منی پاکستان کے مکینوں اور ملک کے تمام محب وطن لوگوں کو ایک شدید اجتماعی ذہنی دھچکا لگا ہے۔ میڈیا سمیت عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس سانحے کے حوالے سے ایک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اگر یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے تو کیوں اور کیسے یہ ممکن ہوا کہ دہشت گرد ایک مشہور چوراہے کے قریب اسماعیلی کمیونٹی کی بس کو گھیرے میں لے کر قتل و غارت گری کریں۔
مگر ہمیں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے، ایک ایسی جنگ جو روایتی جنگوں سے مختلف ہے، جس میں نادیدہ دشمن سے واسطہ ہے، یہ جنگ پورے ملک پر محیط ہے، ضرب عضب آپریشن میں دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں کا صفایا کیا جا رہا ہے، وزیرستان میں ان کی تربیت گاہیں، ان کے اسلحہ خانے، ان کے محفوظ ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں، افغانستان کی سرزمین بھی ان کے لیے تنگ ہو گئی ہے۔
لیکن شہروں میں ان کے سلیپنگ سیل، ان کے سہولت کار ابھی موجود ہیں (انڈین راء کے ملوث ہونے کا ذکر تو اب کورکمانڈر کانفرنس اور وزارت خارجہ کی طرف سے بھی ہونے لگا ہے) دشمن دیوار کے ساتھ لگ رہا ہے، تو یہ توقع کیوں کی جائے کہ وہ پلٹ کر حملہ نہیں کرے گا، کراچی میں سیکیورٹی ایجنسیاں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں، قبائلی علاقوں (خیبر ایجنسی) کے آپریشن میں بھی پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کی خبر آتی رہتی ہے۔
آپریشن آگے بڑھ رہا ہے۔ دشمن پسپائی پر ہے لیکن یہ جنگ ابھی اور چلے گی۔ ہمیں اس میں اپنی کمزوریوں کو بھی رفع کرنا ہے لیکن دہشتگردی کے کسی واقعے پر ہاہا کار مچا کر، دشمن کے کھیل کو آگے نہیں بڑھانا۔ یہ وقت پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا ہے نہ میڈیا ریٹنگ کا۔ یہ دشمن پر آخری کاری ضرب لگانے کا وقت ہے۔ اس عزم کے اظہار کا وقت کہ ہم دشمن کے تعاقب میں خوف زدہ اور مایوس نہیں ہونگے۔ ہم سب اپنی حکومت، اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ آخری دہشتگرد بھی انجام کو پہنچ جائے، پاکستان پھر امن و عافیت کا گہوارہ بن جائے۔
دہشت گرد اصل میں قدامت پسند ہیں اور جدید انسانی معاشرت کے تمام مظاہر سے برگشتہ ہیں۔ وہ غیر جانبدار ریاستی بندوبست کے مخالف ہیں اور مذہب کے نام پر مطلق العنان شخصی اقتدار کے داعی ہیں۔ انصاف کے جدید نظام اور شفاف سماعت کے مخالف ہیں۔ جدید معیشت سے کدورت رکھتے ہیں۔ درہم و دینار کی دنیا سے شغف رکھتے ہیں۔ جدید علم کے دشمن ہیں، علم دشمنی ان کی پہچان ہے۔ صنف کی بنیاد پر مساوات کے مخالف ہیں۔ افغانستان سمیت جہاں ان گروہوں کو موقع ملا خواتین کی زندگی دوبھر ہو گئی۔ یہ گروہ فرقے اور مسلک کی بنیاد پر قتل و غارت پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں ان کے منحوس قدم پڑے وہاں عقیدے کی بنیاد پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔
پاکستان کا بنیادی اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مسخ شدہ مذہبی نظریات کے لبادے میں پروان چڑھنے والی اندھی انتہا پسندی ہے جو تاریک ادوار کی یاد دلاتی ہے۔ چاہے اس کا آغاز کہیں سے بھی ہوا ہو، اس کے لیے ہمیں تاریخ کی روایتی راہوں پر بھٹکنے یا گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں، ہم ہر آن اس کے قہر کا شکار ہوئے ہیں۔
اس ملک اور اس کے باسیوں کی قسمت کے ساتھ کئی برسوں سے بے بصر رہنما کھیلتے رہے ہیں اور اب تقدیر ہمیں اس فیصلہ کن موڑ پر لے آئی ہے کہ اب یہاں قیام امن کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا جب تک ہماری سوچ و نظر وسعت پذیر نہیں ہوتی جب تک نام نہاد جہاد کا بھڑکا ہوا الاؤ معقولیت کے پانی سے بجھا نہیں دیا جاتا۔ خدا خدا کر کے اب ہم اس قاتل دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں تا کہ ہم عقل کے تقاضوں کے مطابق جینا سیکھ لیں۔ جہنم سے واپسی کی راہ آسان نہیں ہوتی ہے اور پھر جنگجو دستے ابھی ختم نہیں ہوئے، یہ ضرور ہوا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں وہ منتشر ہو کر ملک کے مختلف حصوں میں موجود اپنی پناہ گاہوں میں چھپ گئے ہیں۔
شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک، ملک کے کونے کونے میں ان کے حامی اور پناہ فراہم کرنے والے موجود ہیں۔ یقینا ہم نے ایک طویل جنگ جس میں مشکلات میں پیش آئیں گی خون بھی بہے گا اور ہلاکتیں بھی ہو گی لڑنی ہے، اس میں پشاور اسکول اور کراچی بس جیسے اندوہناک سانحات بھی پیش آ سکتے ہیں۔ جب تک ہم آخری زہریلے ناگ کا سر نہیں کچل دیتے ہمیں یہ جنگ لڑنا ہو گی۔
ایک وقت تھا جب دہشتگردی کی وارداتوں کی وجہ سے عوام کی بے چینی بلکہ مایوسی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ عوام دیکھ رہے تھے کہ انتہا پسند طاقتیں آگے بڑھتے ہوئے جہاں چاہے، اپنی مرضی سے وار کر لیتی ہیں جب کہ ریاست بے سمت ہی نہیں بلکہ ان کے سامنے بے دست پا بھی دکھائی دیتی ہے۔ جس پر پاک فوج میدان میں اتری اور اب پاک فوج پوری بے جگری سے ان قاتل دہشتگردوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ یہ فوج اور رینجرز تھی، جنہوں نے یہ ناممکن کام ممکن کر دکھایا۔ اور ایپکس کمیٹیوں کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو بھی درست راہ پر لگا دیا گیا۔ جو کچھ بھی فوج نے کیا اس کی اشد ضرورت تھی کیونکہ اپنے تمام تر جوہری ہتھیاروں، میزائلوں اور اب ڈرون طیاروں کے باوجود پاکستان کو اندرونی دشمن تباہ کر رہا تھا۔ اگر فوج اس وقت بھی حرکت میں نہ آتی تو یوں سمجھیں کہ پانی سر سے گزر جاتا۔
سیاسی طبقے کی طرف سے ملنے والی نیم دلانہ حمایت فوج کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اہم بات یہ ہے کہ عوام کی رائے ان کے حق میں ہے۔ اب فوج کی قیادت میں ہمارا گھر واپسی کا سفر شروع ہو گیا ہے، ایسے گھر کی طرف جو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا خواب تھا۔
سچی رہنمائی اندھیرے جنگل میں ایک چراغ کی مانند ہے، جو یقینا پورے جنگل میں تو اجالا نہیں کرتا مگر اتنی روشنی ضرور بکھیر دیتا ہے کہ اٹھنے والا اگلا قدم محفوظ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان کی قیادت میں پاکستانی قوم کو سچی رہنمائی مل چکی ہے، افواج پاکستان نے دہشتگردوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، اس لیے امن دشمن اب چھپ کر وار کر رہا ہے اور اس کی مثال اس چراغ کی طرح ہے جو بجھنے سے قبل صرف ایک بار بھڑکتا ہے۔