وقت آ گیا ہے

جب مایوس اور ناامید لوگوں کو دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگایا جائے تو پھر وہ جان پر کھیل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب مایوس اور ناامید لوگوں کو دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگایا جائے تو پھر وہ جان پر کھیل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کو دیکھتے ہوئے انھوں نے تیرہ مئی کو اسماعیلی برادری کے خلاف انتہائی بہیمانہ اقدام کیا جس کے نتیجے میں کم از کم 45 افراد جاں بحق ہو گئے۔

حملہ آور پولیس کی وردیاں پہنے تھے اور مبینہ طور پر روانی کے ساتھ اردو بول رہے تھے جب کہ جس بس پر حملہ کیا اس میں انھوں نے کچھ پمفلٹ بھی پھینک دیے جس میں اسماعیلی برادری کے بارے میں انتہائی نازیبا ریمارکس لکھے ہوئے تھے اور یہ پمفلٹ کالعدم تنظیم جند اللہ کی طرف سے پھینکے گئے تھے جس نے گزشتہ نومبر میں آئی ایس یا اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا تھا۔

ہماری مسلح افواج نے سوات اور فاٹا میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردوں اور ان کے انفراسٹرکچر کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی جن کے پاکستان کے شہری علاقوں میں محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے حال ہی میں کراچی کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''کراچی آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور کسی ایک دہشت گرد کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا، ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور ٹارگٹ کلرز کو بھی کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔

دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف اور انھیں لاجسٹک مدد دینے والوں کو بھی نیست و نابود کر دیا جائے گا'' انھوں نے مزید کہا کہ سندھ پولیس اور انتظامیہ کو کسی قسم کے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہو کر کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ سیاسی اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے امن و امان کے مسائل پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ اپنے اس بیان میں جناب نوید مختار نے سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں کو ''نااہل اور ناکام'' قرار دیا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''ہم انتہائی نازک حالات سے گزر رہے ہیں جس میں ناکام ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ہمیں پورے تیقن اور بھرپور خلوص دل کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا ہو گا تا کہ ان کی کامیابی یقینی ہو جائے جس سے ماحول میں استحکام پیدا ہو اور معاشرے کو خوف' انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی لعنتوں سے پاک کیا جا سکے اور ریاست کی رٹ کے ساتھ ساتھ قانون کی عملداری بحال ہو سکے۔ اقتدار میں جو سیاسی آقا موجود ہیں انھیں فوج کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے باز رہنا ہو گا۔

میں نے سات مئی 2015ء کو شایع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے عسکری شعبے موجود ہیں جن کو وہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں حالانکہ عسکریت پسندی کے ذریعے قانون کی اپنی صراحت کو استعمال کرنا غیر قانونی ہے اور یہی طریقہ ہے جس کے ذریعے فیوڈل عناصر اقتدار میں رہتے ہیں۔

کراچی میں بعض سیاسی جماعتوں کے بارے میں شبہ کیا جاتا ہے کہ ان کے عسکری ونگز موجود ہیں ۔ اپنی پارٹی کے مقاصد کے حصول کے لیے وہ قانون کی پروا نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے سیاسی آقا انھیں جیل سے بچا لیں گے اور بالفرض اگر زیر حراست آ بھی جائیں تو جیل میں انھیں فائیو اسٹار سہولتیں حاصل ہوں گی۔ لیکن حقیقت میں وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح ہوتے ہیں کیونکہ وہ وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر صولت مرزا، اس کے علاوہ عذیر بلوچ کی طرف سے مبینہ طور پر دبئی پولیس کو جو 1500 صفحات پر مشتمل بیان جمع کرایا گیا ہے۔


چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف ہر سطح پر کارروائی میں اضافے کا عندیہ دیا ہے تا کہ ملک میں امن و امان بحال کیا جا سکے۔ انھوں نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' ملک میں دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس قسم کی کارروائیوں کے خلاف ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اس جنگ کو جیتنے کے لیے تیار ہیں۔ اندرون ملک بھی کچھ عناصر ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ان کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

دریں اثناء پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حکومت سندھ کے سربراہ قائم علی شاہ کی کارکردگی سے مکمل طور پر مطمئن ہیں اور وزیراعلیٰ کو ان کی بھرپور حمایت حاصل ہے لہٰذا صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کا قطعاً کوئی احتمال نہیں ہے۔ کور کمانڈر نوید مختار کے بیان پر زرداری صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ جس قدر پرامن ہے اتنا وہ کسی فوجی حکومت کے دور میں نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجی افسروں کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ جارحانہ انداز اختیار کر لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ ردعمل متوقع تھا کیونکہ ایم کیو ایم کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا تھا لیکن پیپلز پارٹی پیپلز امن کمیٹی (پی اے سی) کی کارروائیوں کی ذمے داری سے دستبردار نہیں ہو سکتی جس کا راز ذوالفقار مرزا کھول رہے ہیں جو کہ ایک زمانے میں قائم علی شاہ کی کابینہ کے سب سے زیادہ طاقتور وزیر داخلہ تھے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا کو ہدایات کہاں سے ملتی تھیں۔ رینجرز کی طرف سے جو تحقیقات کی گئی ہیں اس میں اطلاعات کا ایک خزانہ شامل ہے جن میں کہ سیاسی آقاؤں کے علاوہ ملکی اشرافیہ کے بعض حلقے بھی شامل ہیں جن میں کہ کسی سیاسی پارٹی کی کوئی تخصیص نہیں۔ سندھ میں حکومت کرنے والے تقریباً تمام سیاستدان جانتے ہیں کہ کہاں انھوں نے قانون شکنی کا ارتکاب کیا۔ آرمی کو سیاسی اختلاف رائے میں ملوث کرنے کی جو ناکام کوشش کی گئی ہے جس میں ایم کیو ایم اور 'را' کے روابط کا دعویٰ کیا گیا اس کا مقصد بھی صورت حال کو سیاسی رنگ دینا تھا تا کہ احتساب کے امکانات کو دور رکھا جا سکے۔

کرپشن' بدعنوانی' منظم جرائم اور دہشت گردی کے ڈانڈے آپس میں ملتے ہیں۔ جو دہشت گردی کے سہولت کار ہیں وہ بھی اتنے ہی ذمے دار ہیں جتنے کہ دہشت گرد اور اس میں اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کہ ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہے' کسی سیاسی پارٹی سے ہے یا کہ براہ راست کسی مجرمانہ گینگ سے تعلق رکھتے ہیں۔

جو لوگ مجرموں کو سیاسی قانونی یا میڈیا کی حمایت فراہم کرتے ہیں وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ کیا میڈیا کسی ایسے مالیاتی ادارے کے بارے میں کوئی بات کہہ سکتا ہے جہاں سے اس کو بھاری مقدار میں اشتہارات حاصل ہوتے ہوں؟ زیادہ تر کرپشن سیاسی حمایت کی طلب گار ہوتی ہے۔ تب ہی یہ منظم جرائم کی شکل اختیار کرتی ہے۔

اور منظم جرائم کے بغیر دہشت گردی کا ارتکاب بھی ممکن نہیں رہتا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے حملے اس وقت تک ممکن نہیں ہوتے جب تک کہ انھیں خارجی امداد حاصل نہ ہو۔ 'را' پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ حقیقت ہے کہ جو یہ غیر قانونی کام کرتے ہیں ان کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے ہوتا ہے البتہ اس میں ہمارے بیرونی دشمن ضرور ملوث ہوتے ہیں۔ میڈیا اور کارپوریٹ حلقوں میں اوپر کی سطح پر احتساب کے ذریعے کئی چیزیں منکشف ہو سکتی ہیں۔ آزادی اظہار کے بہانے کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں اصولوں اور قواعد و ضوابط کو بہرصورت مقدم رکھنا ہو گا اور اس حوالے سے کسی قسم کی جانبداری سے سختی کے ساتھ گریز کرنا ہو گا۔
Load Next Story