طلبا یونین پر پابندی کے 31 سال
جب تک طلبا خود اپنے مستقبل کی فکر نہیں کریں گے حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔
ABU DHABI:
''حکمراں ملک میں بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں، طلبا کو نظریاتی، سیاسی و جمہوری کلچر سے لاتعلق کر کے تشدد کے راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں، حکومت کا یہ فیصلہ بچگانہ اور جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔'' طلبا تنظیموں اور یونینوں سے وابستہ نوجوانوں کے یہ مذمتی بیانات آج بھی تازہ ہیں۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبا یونین اور طلبا تنظیموں پر پابندی کو 31 سال بیت چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں طلبا یونین پر پابندی سابق آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں 9 فروری 1984ء میں لگائی گئی تھی۔ بعدازاں 1998ء میں بھی میاں محمد نواز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں اور یونینوں پر پابندی لگانے کا اعادہ کیا تھا۔ اس سے قبل 1988ء میں اور بعد میں 2008ء میں طلبا یونین پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ طالب علم اس پابندی کو طلبا کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اگست 1992ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصلاح معاشرہ اور قومی حالات کا جائزہ لینے کے بعد عوام کو ملکی قومی مفادات کے خلاف کاموں کی نشاندہی کرتے ہوئے جب کہ ان کی روک تھام کے لیے اس وقت کی حکومت کو اپنی قومی ذمے داری کے تین نکات (1)۔ اخلاقی تربیت۔ (2) اجتماعی دباؤ (3)۔ قانونی پابندی، پر مبنی سفارشات کے تحت محسوس کیا کہ تعلیمی درسگاہوں میں حصول تعلیم سے زیادہ سیاست نے ڈیرہ جما لیا ہے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس وقت کی حکومت کو تعلیمی درسگاہوں میں طلبا کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔
اتفاق ہے کہ اس وقت بھی میاں محمد نواز شریف ہی ملک کے وزیر اعظم تھے اس وقت بھی طلبا تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تھا اور آج بھی ملک کے وزیر اعظم نواز شریف ہیں اور آج بھی طلبا کا موقف ہے کہ ان کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنا ان کی حق تلفی ہے۔ طلبا تنظیمیں طلبا کو شعور و آگہی فراہم کرتی ہیں جب کہ پابندی ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے مترادف ہے۔
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تحریک پاکستان میں طلبا نے بہت کام کیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ طلبا کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخالفین نے ہمیشہ طلبا کو آپس میں دست و گریباں کر کے کمزور سے کمزور ترین کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 18 اکتوبر 1945ء کو بلوچستان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کوئٹہ کے زیر اہتمام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''طلبا سیاست کا مطالعہ ضرور کریں لیکن وہ سیاست کو اپنی تعلیم کا ایک حصہ نہ بنائیں۔''
ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پر تھی اگر قائد اعظم چاہتے تو طلبا کو بڑی آسانی سے مسلم لیگ کی مفادات کے لیے استعمال کر سکتے تھے جس طرح دیگر ملکی سیاسی پارٹیاں طلبا کو اپنی پارٹی مفادات کے لیے استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں۔
لیکن قائد اعظم نے 10 نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چھٹے اجلاس سے جو کہ جالندھر میں منعقد ہوا تھا خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میں جب آپ سے کہتا ہوں کہ آپ سیاست میں کوئی عملی حصہ نہ لیں تو آپ میرا مطلب سمجھنے میں غلطی نہ کریں میرا مطلب یہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ خود کو تیار کریں اپنے میں اہلیت، صلاحیت اور قابلیت پیدا کریں آپ کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے تعلیم، تعلیم، تعلیم۔'' اس میں مبالغہ نہیں کہ قائد اعظم پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری سیاسی لیڈر تھے جنھوں نے طلبا کو سیاست سے دور رہنے کی ہدایت کی اور حصول تعلیم کا درس دیا۔
نوجوان نسل چونکہ ملک و قوم کے معمار ہوتے ہیں اور مستقبل میں یہی نوجوان نسل ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے مگر بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں نوجوانوں کو ملکی و قومی مفادات کی بجائے ہمیشہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس وجہ سے آج ہمارا شمار ترقی پذیر قوموں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے بدخواہ نہیں چاہتے تھے اور اب بھی نہیں چاہتے ہیں ہیں کہ پاکستان کا آنے والا کل آج کے معمار نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو اس لیے وہ ملک میں بدستور خلفشار اور افراتفری پھیلاتے رہتے ہیں تا کہ وہ اپنا ہدف حاصل کر سکیں۔
افسوس کہ کم فہم اور ناپختہ ذہن ان کی باتوں میں آتے رہتے ہیں سیاسی مفاد پرست لوگ ایک طرف اخبارات میں بیانات شایع کراتے رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے اور کلاشنکوف کلچر سے پاک کیا جائے لیکن جب عدلیہ اور حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہو جاتی تھی تو پھر یہی لوگ قومی مفادات کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس سے اس شعبے کو تقویت پہنچی تھی کہ طلبا تنظیموں کے نام پر غیر طالب علم عناصر گھس آئے تھے اور پھر ان تاریک راہوں میں نہ جانے کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہو گئے تھے۔
جب تک طلبا خود اپنے مستقبل کی فکر نہیں کریں گے حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔ درس گاہوں کا ماحول طلبا کے تعاون ہی سے خوشگوار بن سکتا ہے۔ طلبا کو غیر جانبدار ہو کر سوچنا چاہیے کہ وہ جن سیاسی بازی گروں کے آلہ کار بنتے رہے ہیں وہ ان کے مستقبل کے ضامن کیسے ہو سکتے ہیں؟ کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہو چکے ہیں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں اندھیری ہو چکی ہیں۔
کیا ملا ہے ان کو اس راستے پر چلتے ہوئے؟ اے کاش! ہمارے طلبا جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے اپنا بھلا برا غیر جانبدار ہو کر سوچیں۔ کل تک ہم 21 ویں صدی کی دہلیز پر کھڑے تھے اور ہمیں ہوش نہیں تھا۔ آج ہم 21 ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ایک جدید ٹیکنالوجی دنیا ہمارے سامنے ہے جہاں ہمیں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر پاکستانی اپنی اپنی جگہ اپنا فرض منصبی ادا کرے۔
خود غرضی، اناپرستی اور ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفادات کا خیال کریں اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ بدلیں۔ اب تک ہماری پالیسی نفرت اور عناد پر مبنی رہی ہے اور ان ہی بنیادوں پر ہماری قومی زندگی رواں دواں ہے۔ جوایک باشعور اور مدبر قوم کی شایان شان نہیں ہے۔ ہمیں وہی قومی پالیسی اپنانی چاہیے جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔
اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ سوشل بنیاد پر قائم طلبا یونینوں کی بندش سے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگتا رہا ہے اور وہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے گمنام منزل کے راہی بنتے رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو سوشل بنیاد پر طلبا یونینز کو بحال کرنا چاہیے۔ طلبا یونین پر عائد پابندی ختم کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے تا کہ طلبا کو بھی ان کا جمہوری حق مل جائے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھرنے کا موقع مل سکے۔
''حکمراں ملک میں بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں، طلبا کو نظریاتی، سیاسی و جمہوری کلچر سے لاتعلق کر کے تشدد کے راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں، حکومت کا یہ فیصلہ بچگانہ اور جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔'' طلبا تنظیموں اور یونینوں سے وابستہ نوجوانوں کے یہ مذمتی بیانات آج بھی تازہ ہیں۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبا یونین اور طلبا تنظیموں پر پابندی کو 31 سال بیت چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں طلبا یونین پر پابندی سابق آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں 9 فروری 1984ء میں لگائی گئی تھی۔ بعدازاں 1998ء میں بھی میاں محمد نواز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں اور یونینوں پر پابندی لگانے کا اعادہ کیا تھا۔ اس سے قبل 1988ء میں اور بعد میں 2008ء میں طلبا یونین پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ طالب علم اس پابندی کو طلبا کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ اگست 1992ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصلاح معاشرہ اور قومی حالات کا جائزہ لینے کے بعد عوام کو ملکی قومی مفادات کے خلاف کاموں کی نشاندہی کرتے ہوئے جب کہ ان کی روک تھام کے لیے اس وقت کی حکومت کو اپنی قومی ذمے داری کے تین نکات (1)۔ اخلاقی تربیت۔ (2) اجتماعی دباؤ (3)۔ قانونی پابندی، پر مبنی سفارشات کے تحت محسوس کیا کہ تعلیمی درسگاہوں میں حصول تعلیم سے زیادہ سیاست نے ڈیرہ جما لیا ہے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس وقت کی حکومت کو تعلیمی درسگاہوں میں طلبا کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔
اتفاق ہے کہ اس وقت بھی میاں محمد نواز شریف ہی ملک کے وزیر اعظم تھے اس وقت بھی طلبا تنظیموں نے شدید احتجاج کیا تھا اور آج بھی ملک کے وزیر اعظم نواز شریف ہیں اور آج بھی طلبا کا موقف ہے کہ ان کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنا ان کی حق تلفی ہے۔ طلبا تنظیمیں طلبا کو شعور و آگہی فراہم کرتی ہیں جب کہ پابندی ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے مترادف ہے۔
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تحریک پاکستان میں طلبا نے بہت کام کیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ طلبا کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخالفین نے ہمیشہ طلبا کو آپس میں دست و گریباں کر کے کمزور سے کمزور ترین کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 18 اکتوبر 1945ء کو بلوچستان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کوئٹہ کے زیر اہتمام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''طلبا سیاست کا مطالعہ ضرور کریں لیکن وہ سیاست کو اپنی تعلیم کا ایک حصہ نہ بنائیں۔''
ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پر تھی اگر قائد اعظم چاہتے تو طلبا کو بڑی آسانی سے مسلم لیگ کی مفادات کے لیے استعمال کر سکتے تھے جس طرح دیگر ملکی سیاسی پارٹیاں طلبا کو اپنی پارٹی مفادات کے لیے استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں۔
لیکن قائد اعظم نے 10 نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چھٹے اجلاس سے جو کہ جالندھر میں منعقد ہوا تھا خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میں جب آپ سے کہتا ہوں کہ آپ سیاست میں کوئی عملی حصہ نہ لیں تو آپ میرا مطلب سمجھنے میں غلطی نہ کریں میرا مطلب یہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ خود کو تیار کریں اپنے میں اہلیت، صلاحیت اور قابلیت پیدا کریں آپ کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے تعلیم، تعلیم، تعلیم۔'' اس میں مبالغہ نہیں کہ قائد اعظم پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری سیاسی لیڈر تھے جنھوں نے طلبا کو سیاست سے دور رہنے کی ہدایت کی اور حصول تعلیم کا درس دیا۔
نوجوان نسل چونکہ ملک و قوم کے معمار ہوتے ہیں اور مستقبل میں یہی نوجوان نسل ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے مگر بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں نوجوانوں کو ملکی و قومی مفادات کی بجائے ہمیشہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس وجہ سے آج ہمارا شمار ترقی پذیر قوموں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے بدخواہ نہیں چاہتے تھے اور اب بھی نہیں چاہتے ہیں ہیں کہ پاکستان کا آنے والا کل آج کے معمار نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو اس لیے وہ ملک میں بدستور خلفشار اور افراتفری پھیلاتے رہتے ہیں تا کہ وہ اپنا ہدف حاصل کر سکیں۔
افسوس کہ کم فہم اور ناپختہ ذہن ان کی باتوں میں آتے رہتے ہیں سیاسی مفاد پرست لوگ ایک طرف اخبارات میں بیانات شایع کراتے رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے اور کلاشنکوف کلچر سے پاک کیا جائے لیکن جب عدلیہ اور حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہو جاتی تھی تو پھر یہی لوگ قومی مفادات کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس سے اس شعبے کو تقویت پہنچی تھی کہ طلبا تنظیموں کے نام پر غیر طالب علم عناصر گھس آئے تھے اور پھر ان تاریک راہوں میں نہ جانے کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہو گئے تھے۔
جب تک طلبا خود اپنے مستقبل کی فکر نہیں کریں گے حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔ درس گاہوں کا ماحول طلبا کے تعاون ہی سے خوشگوار بن سکتا ہے۔ طلبا کو غیر جانبدار ہو کر سوچنا چاہیے کہ وہ جن سیاسی بازی گروں کے آلہ کار بنتے رہے ہیں وہ ان کے مستقبل کے ضامن کیسے ہو سکتے ہیں؟ کتنے گھروں کے روشن چراغ گل ہو چکے ہیں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں اندھیری ہو چکی ہیں۔
کیا ملا ہے ان کو اس راستے پر چلتے ہوئے؟ اے کاش! ہمارے طلبا جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے اپنا بھلا برا غیر جانبدار ہو کر سوچیں۔ کل تک ہم 21 ویں صدی کی دہلیز پر کھڑے تھے اور ہمیں ہوش نہیں تھا۔ آج ہم 21 ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ایک جدید ٹیکنالوجی دنیا ہمارے سامنے ہے جہاں ہمیں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر پاکستانی اپنی اپنی جگہ اپنا فرض منصبی ادا کرے۔
خود غرضی، اناپرستی اور ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفادات کا خیال کریں اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ بدلیں۔ اب تک ہماری پالیسی نفرت اور عناد پر مبنی رہی ہے اور ان ہی بنیادوں پر ہماری قومی زندگی رواں دواں ہے۔ جوایک باشعور اور مدبر قوم کی شایان شان نہیں ہے۔ ہمیں وہی قومی پالیسی اپنانی چاہیے جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔
اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ سوشل بنیاد پر قائم طلبا یونینوں کی بندش سے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگتا رہا ہے اور وہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے گمنام منزل کے راہی بنتے رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو سوشل بنیاد پر طلبا یونینز کو بحال کرنا چاہیے۔ طلبا یونین پر عائد پابندی ختم کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے تا کہ طلبا کو بھی ان کا جمہوری حق مل جائے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھرنے کا موقع مل سکے۔