ایک طرف توپوں کے دہانے ایک طرف تقریر

ہر سال ملتان شریف ضرور جانا ہوتا ہے، پیروں، ولیوں کے شہر میں۔


Saeed Parvez May 21, 2015

RAWALPINDI: ہر سال ملتان شریف ضرور جانا ہوتا ہے، پیروں، ولیوں کے شہر میں۔ اپنی خواہش پر ہمارے والد صوفی عنایت اﷲ بیرون دولت گیٹ قبرستان میں مدفون ہیں۔ مدینۃ الاولیا (ملتان شریف) ہی میں امیر شریعت خطیب العصر سید عطا اﷲ شاہ بخاری بھی اپنی وصیت کے مطابق ایک عام سے قبرستان جلال باقری میں ابدی نیند سو رہے ہیں، یہ قبرستان سول اسپتال ملتان کے قریب واقع ہے جہاں ایک کچی قبر ہے اور سرہانے چھوٹے سے سفید پتھر پر عطا اﷲ شاہ بخاری کا نام تاریخ پیدائش 23 ستمبر 1892ء پٹنہ (ہندوستان اور تاریخ وفات 21 اگست 1961ء درج ہے) قبر پر کوئی چھت وغیرہ نہیں ہے اور اس چھوٹے سے احاطے میں چند قبریں اور بھی ہیں اور بس۔ ساغرؔ صدیقی نے شاہ صاحب کے انتقال پر کہا تھا:

آج مٹی کا وہاں ڈھیر سا ہو گا ساغرؔ
سر جھکاتی تھی جہاں لوح و قلم کی دنیا

ایک زمانہ جانتا ہے اور ہمارے ابا بھی بتاتے تھے کہ نماز عشا سے فارغ ہو کر شاہ صاحب منبر پر تشریف لاتے اور فجر کی اذان تک ان کا بیان جاری رہتا جب کہ اس زمانے میں گاؤں دیہاتوں میں مائیکرو فون نہیں ہوتے ہیں اور ہزاروں کے مجمع میں ان کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ عطا اﷲ شا بخاری کی تمام عمر انگریزوں کے خلاف لڑتے گزری، برصغیر کی آزادی میں ان کا شمار صف اول کے اکابرین میں رہا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان و دیگر ان کے ہم عصر تھے۔

شاہ صاحب کی خطابت کا یہ عالم تھا کہ ایک جلسے میں پنڈت جواہر لعل نہرو اس وقت تشریف لائے جب عطا اﷲ شاہ بخاری کا سحر انگیز خطاب جاری تھا اور ہزاروں کے مجمع کا جوش و خروش عروج پر تھا۔ پنڈت جی تقریر کرنے آئے اور کہا کہ حضرت بخاری کے بعد کون ہے جس کا چراغ جل سکے۔ کم از کم میرے بس میں تو نہیں کہ میں ان کے بعد بول سکوں۔

حضرت مولانا نے بھرپور سیاسی زندگی گزاری اور زندگی کے دس سال جیل میں گزارے وہ خود کہا کرتے تھے کہ تین چوتھائی زندگی ریل میں گزر گئی اور ایک چوتھائی جیل میں۔ اپنی شان خطابت پر شاہ صاحب نے اپنے عہد کے نامور احباب سے داد وصول کی۔ مولانا محمد علی جوہر نے ان کی خطابت کے بارے میں کہا ''بخاری مقرر نہیں ساحر ہے، تقریر نہیں جادو کرتا ہے'' حضرت علامہ اقبالؒ نے 1930ء میں موچی دروازہ لاہور میں سنا تو کہا ''شاہ جی اسلام کی چلتی پھرتی تلوار ہیں'' اور علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ نے انھیں امیر شریعت کے منصب پر فائز کیا۔

عطا اﷲ شاہ بخاری وقت کے اتنے بلند پایہ عالم دین اور خطیب ہونے کے باوجود دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں سے بھی ملتے تھے۔ ایک بہت مشہور اور دلچسپ واقعہ ہے، نذر قارئین کرتا ہوں۔
معروف ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی، شاہ صاحب کے دوستوں میں شامل تھے، شاہ صاحب ساحر کی بہت عزت کرتے تھے اور ان کی شاعرانہ عظمت کے معترف تھے۔ ایک بار ساحر لدھیانوی شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا ''حضرت مولانا! ایک قطعہ بند غزل کا دوسرا شعر نہیں ہو رہا بہت کوششیں کر لی، مگر شعر نہیں ہو رہا'' یہ کہہ کر ساحر نے انھیں شعر سنایا کہ جو ہو گیا تھا:

ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
''شاہ صاحب! اگلا شعر نہیں ہو رہا''
شاہ صاحب نے شعر سنا اور اسی وقت شعر کہہ دیا:
چمن اسی لیے مالی نے خون سے سینچا ہے
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں

شاہ صاحب کا ایک اشتراکی شاعر کے لیے یہ انداز بہت بڑا واقعہ ہے۔ شاہ صاحب سے دوسرا شعر سننے کے بعد ساحر لدھیانوی نے ان سے پوچھا ''حضرت مولانا! تو یہ شعر اب میرا ہے؟'' شاہ صاحب نے جواب دیا ''ہاں اب یہ شعر تمہارا ہو گیا ہے''

علمائے کرام و مولوی حضرت کے شاعروں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ جوشؔ صاحب اور مولانا مودودی کے دوستانہ تعلق کا سبھی کو پتہ ہے، اسی طرح حبیب جالبؔ صاحب کی بھی مولانا مودودی، علامہ شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمودؒ، پروفیسر غفور احمد سے احترام و محبت کے تعلقات تھے۔ جالبؔ صاحب کو شیخ حسام الدین ماڈل ٹاؤن لاہور لے گئے تھے جہاں عطا اﷲ شاہ بخاری صاحب ٹھہرے ہوئے تھے، جالبؔ صاحب نے شیخ حسام الدین کے کہنے پر ترنم سے غزل سنائی، شاہ صاحب خوش ہوئے۔

جالبؔ صاحب رئیس الاحرار حضرت عطا اﷲ شاہ بخاری کے بڑے معترف تھے ان کے لیے کہی گئی جالبؔ صاحب کی نظم پیش خدمت ہیں۔

ایک طرف توپوں کے دہانے ایک طرف تقریر
زنداں میں بھی ساتھ رہی آزادی کی توقیر
خوشبو بن کر پھیلی میرے خوابوں کی تعبیر
ٹوٹ گئی زنجیر
تجھ سے پہلے عام کہاں تھی دار و رسن کی بات
چاروں جانب چھائی ہوئی تھی محکومی کی رات
اپنے بھی تھے ظلم پہ مائل بیگانوں کے ساتھ
آگے بڑھ کر تو نے بدل دی ہم سب کی تقدیر
ٹوٹ گئی زنجیر
گلی گلی میں تیرے چرچے، نگر نگر کہرام
بول کے میٹھی بولی تو نے کیا تھا جگ کو رام
جب تک قائم ہے یہ دنیا، رہے گا تیرا نام
کون مٹا سکتا ہے تیری عظمت کی تحریر
ٹوٹ گئی زنجیر
ہنسی ہنسی میں تو نے کھولے اہل ستم کے راز
مرتے دم تک تو نے اٹھائے سچائی کے ناز
کہیں دبائے سے دبتی ہے، شعلہ صفت آواز
چیر گئی ظلمت کا سینہ لفظوں کی شمیر
ٹوٹ گئی زنجیر
تیرے خوشہ چین ہوئے ہیں آج بڑے دھنوان
تو نے اپنی آن نہ بیچی کیسی ہے تیری شان
بات پہ اپنی جو مٹ جائے وہی ہے بس انسان
شاہ تجھے کہتی ہے دنیا، تو تھا ایک فقیر
ٹوٹ گئی زنجیر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے