ایٹیکسیا ایسی بیماری جس میں انسان پٹھوں پر اپنا کنٹرول کھو دیتا ہے

ایٹیکسیا بنیادی طور پرہمارے اعصابی نظام کی متعدد خرابیوں اور بگاڑ کی وجہ سے جنم لینے والی بیماری ہے


کسی بھی فرد کے اٹاکسیا کا شکار ہونے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: سیریبیلیم جسے ہم چھوٹا دماغ بھی کہتے ہیں، ہمارے جسم کے مختلف عضلات کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن اٹاکسیا نامی بیماری کی صورت میں اس کا عضلات پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔اس مرض کے شکار فرد کو کسی بھی شے کو پکڑنے یا چلنے میں مشکل پیش آتی اور وہ اپنے مختلف کام انجام دینے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ یہ مرض قوتِ گویائی پر اثر انداز ہونے کے ساتھ آنکھوں کی پتلی کی حرکت کو بھی متأثر کرسکتا ہے۔

ماہرینِ طب کے مطابق یہ مسئلہ وقتی ہوسکتا ہے، لیکن بعض صورتوں میں یہ خطرناک بھی ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کے اعصابی نظام کا ہڈیوں، پٹھوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے، جس کا مرکز ہمارا دماغ ہے۔ یہ دماغ ہی اعصاب کے ذریعے پورے جسم کے عضلات کو قابو کرتا ہے اور پٹھوں کی مدد سے ہمارے اعضا دی گئی ہدایت کے مطابق متحرک ہو جاتے ہیں۔

ہمارے پٹھے اور اعصابی نظام روز مرّہ کام کاج اور حرکات و سکنات کا عادی ہوتا ہے، لیکن معمول سے ہٹ کر یا ضرورت سے زیادہ جسمانی سرگرمیوں، خصوصاً ہاتھوں اور پیروں کو مسلسل حرکت میں رکھنے اور جسم کو ضروری آرام نہ دینے کی صورت میں اس تمام سسٹم کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ پٹھوں کی کم زوری، درد اور دیگر پیچیدگیوں کے علاوہ اس صورت میں ہمیں اعصابی بیماری اٹاکسیا کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

کسی بھی فرد کے اٹاکسیا کا شکار ہونے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یہ مرض فالج، برین ٹیومر اور مختلف بیماریوں کے شکار افراد کے علاوہ منشیات استعمال کرنے والوں کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ ان کے علاوہ یہ بیماری بعض جینیاتی خرابیوں کے نتیجے میں بھی جنم لے سکتی ہے۔ اٹاکسیا کے علاج میں ادویات کے ساتھ مختلف جسمانی ورزشیں اور بعض صورتوں میں اسپیچ تھراپی کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ ماہرین اپنے مریض کو چھڑی یا واکر کے ذریعے چہل قدمی کرنے کی ہدایت بھی کرتے ہیں جو اس مرض کے اثرات کو آہستہ آہستہ دور کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ہم اٹاکسیا کا اچانک شکار بھی ہو سکتے ہیں اور رفتہ رفتہ بھی ہمارا جسم اس بیماری کا شکار بن سکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ہمارے اعصابی نظام کی متعدد خرابیوں اور بگاڑ کی وجہ سے جنم لینے والی بیماری ہے۔ اس کی وجہ سے مریض کا ذہن انتشار کا شکار رہتا ہے۔

اس کا اپنے پٹھوں پر قابو نہیں رہتا اور وہ چلتے چلتے گر پڑتا ہے۔ ایسے مریض کا نہ صرف کھانا پینا، لکھنا بلکہ شرٹ کا بٹن لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اٹاکسیا کے مریض کے بولنے کا انداز بدل جاتا ہے اور اسے تھوک نگلنے میں بھی دشواری محسوس ہوتی ہے۔ مریض کو دورانِ حرکت توازن قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے اور یہ علامت ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں پر اپنا کنٹرول کھو رہا ہے اور اٹاکسیا کا شکار ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اندازاً پندرہ ہزار افراد اس اعصابی بیماری میں مبتلا ہیں اور اس تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طبی سہولیات کے فقدان کے علاوہ ایسے مریضوں کی مناسب دیکھ بھال اور درست راہ نمائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ ماہرینِ طب کے مطابق دماغ میں موجود مخصوص خلیات میں تیزی سے کمی آنا شروع ہو جائے تو یہ اٹاکسیا کا سبب بنتا ہے۔

چھوٹے دماغ میں دراصل ٹشوز پر مشتمل دو بالز ہوتی ہیں جو انسانی جسم کے پٹھوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔ چھوٹے دماغ کا ریڑھ کی ہڈی اور اس سے منسلک اعصابی نظام کے ذریعے پٹھوں سے رابطہ قائم ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے کسی چوٹ یا بیماری کی صورت میں متاثر ہونے سے بھی اٹاکسیا کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح فالج کی وجہ سے دماغ کے کسی حصے کو خون کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہونے یا ٹشوز کو خون کی مناسب مقدار نہ ملنے سے دماغ کے مخصوص خلیات پہلے سست اور رفتہ رفتہ ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق دماغ کو خون کی فراہمی میں وقتی تعطل کے بھی جسم پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دماغ کے بعض خلیات کا سخت ہو جانا بھی ہمارے مرکزی اعصابی نظام کو بری طرح متأثر کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں پٹھوں پر ہمارا کنٹرول ختم ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق خسرہ کی بیماری اگر پیچیدہ شکل اختیار کر جائے اور اس کے ساتھ مریض کو وائرل انفیکشن بھی ہو جائے تو ایسے مریض میں اٹاکسیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، لیکن اس صورت میں جنم لینے والا اٹاکسیا کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ اس مرض کی مختلف اقسام ہیں، جو کسی نہ کسی دوسرے طبی مسئلے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی ادویہ سے مکمل علاج ممکن نہیں، البتہ آپ اپنے معالج کی ہدایت پر عمل اور اپنی قوتِ ارادی سے کام لے کر بڑی حد تک اسے شکست دے سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مختلف طبی طریقوں کو اپنا کر ہمیں اس بیماری کے جسم پر منفی اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں