قومی بچت اسکیموں کی شرح منافع میں مزید کمی
مختلف مدت کے شارٹ ٹرم سیونگز سرٹیفکیٹس پر شرح منافع 10 فیصد سے بھی کم کردی گئی ہے
حیرت ہے کہ بعض عام فہم باتوں کی بھی فیصلہ سازوں کو سمجھ نہیں آتی یا پھر وہ جان بوجھ کر کمزور' بے بس اور مجبور لوگوں کو مصائب کی چکی میں اور زیادہ پیسنا چاہتے ہیں۔
اس حقیقت سے آخر کون آگاہ نہیں کہ قومی بچت کی اسکیموں میں اپنی پونجی جمع کرانے والوں کی اکثریت بیوہ اور بے سہارا خواتین کی ہوتی ہے یا وہ ملازمین شامل ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی تھوڑی بہت رقم قومی بچت اسکیم میں جمع کرا دیتے ہیں تا کہ ان کے کچن کا خرچہ چلتا رہے لیکن ہمارے ارباب اختیار اس میں بتدریج کمی کرنے لگے اور گزشتہ روز کی خبر کے مطابق حکومت نے قومی بچت کی مختلف اسکیموں میں مزید کمی کر دی ہے۔
محکمہ قومی بچت کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 11.04 فیصد اسپیشل سیونگز سرٹیفکیٹس اور اکائونٹ پر 10.00 فیصد' ریگولر انکم سرٹیفکیٹس پر 10.56' سیونگز اکائونٹ پر 06.85 پنشنرز بینیفٹ اکائونٹ اور بہبود سیونگز سرٹیفکیٹس پر شرح منافع 12.96 فیصد سالانہ مقرر کی گئی ہے، جب کہ مختلف مدت کے شارٹ ٹرم سیونگز سرٹیفکیٹس پر شرح منافع 10 فیصد سے بھی کم کردی گئی ہے۔ نئی شرح کا اطلاق 12اکتوبر 2012ء سے ہو گیا ہے۔ 11 اکتوبر 2012ء سے پہلے خرید ے گئے سرٹیفکیٹس کی شرح منافع حسب سابق رہے گی۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا مقصد ملک کے معاشی اور معاشرتی مقاصد میں توازن پیدا کرنا ہے۔ منافع کی شرح میں کمی شرح سود میں حالیہ کمی کے پیش نظر کی گئی ہے تا کہ مالیاتی سیکٹر میں صحت مندانہ مقابلے کو فروغ دیا جا سکے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کمی کے بعد قومی بچت اسکیموں پر منافع کی شرح میں بھی کمی ہو نے کی اطلاعات پہلے ہی گردش کررہی تھیں۔ دو ماہ قبل بھی حکومت نے قومی بچت کی اسکیموں میں 0.80 فیصد کمی کی تھی۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق بچت اسکیموں میں منافع میں کمی سے ان اسکیموں میں عوام کی دلچسپی کم ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام میں بچت کلچر کو فروغ دینے کے لیے قومی بچت اسکیموں کو زیادہ پر کشش بنایا جائے، اس سے ایک جانب سفید پوش طبقے کو فائدہ ہوگا تو دوسری جانب حکومت کو اچھی خاصی رقم بھی حاصل ہوجائیگی جس سے وہ اپنے رکے ہوئے ترقیاتی منصوبے مکمل کرسکتی ہے۔
اس حقیقت سے آخر کون آگاہ نہیں کہ قومی بچت کی اسکیموں میں اپنی پونجی جمع کرانے والوں کی اکثریت بیوہ اور بے سہارا خواتین کی ہوتی ہے یا وہ ملازمین شامل ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی تھوڑی بہت رقم قومی بچت اسکیم میں جمع کرا دیتے ہیں تا کہ ان کے کچن کا خرچہ چلتا رہے لیکن ہمارے ارباب اختیار اس میں بتدریج کمی کرنے لگے اور گزشتہ روز کی خبر کے مطابق حکومت نے قومی بچت کی مختلف اسکیموں میں مزید کمی کر دی ہے۔
محکمہ قومی بچت کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 11.04 فیصد اسپیشل سیونگز سرٹیفکیٹس اور اکائونٹ پر 10.00 فیصد' ریگولر انکم سرٹیفکیٹس پر 10.56' سیونگز اکائونٹ پر 06.85 پنشنرز بینیفٹ اکائونٹ اور بہبود سیونگز سرٹیفکیٹس پر شرح منافع 12.96 فیصد سالانہ مقرر کی گئی ہے، جب کہ مختلف مدت کے شارٹ ٹرم سیونگز سرٹیفکیٹس پر شرح منافع 10 فیصد سے بھی کم کردی گئی ہے۔ نئی شرح کا اطلاق 12اکتوبر 2012ء سے ہو گیا ہے۔ 11 اکتوبر 2012ء سے پہلے خرید ے گئے سرٹیفکیٹس کی شرح منافع حسب سابق رہے گی۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا مقصد ملک کے معاشی اور معاشرتی مقاصد میں توازن پیدا کرنا ہے۔ منافع کی شرح میں کمی شرح سود میں حالیہ کمی کے پیش نظر کی گئی ہے تا کہ مالیاتی سیکٹر میں صحت مندانہ مقابلے کو فروغ دیا جا سکے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کمی کے بعد قومی بچت اسکیموں پر منافع کی شرح میں بھی کمی ہو نے کی اطلاعات پہلے ہی گردش کررہی تھیں۔ دو ماہ قبل بھی حکومت نے قومی بچت کی اسکیموں میں 0.80 فیصد کمی کی تھی۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق بچت اسکیموں میں منافع میں کمی سے ان اسکیموں میں عوام کی دلچسپی کم ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام میں بچت کلچر کو فروغ دینے کے لیے قومی بچت اسکیموں کو زیادہ پر کشش بنایا جائے، اس سے ایک جانب سفید پوش طبقے کو فائدہ ہوگا تو دوسری جانب حکومت کو اچھی خاصی رقم بھی حاصل ہوجائیگی جس سے وہ اپنے رکے ہوئے ترقیاتی منصوبے مکمل کرسکتی ہے۔