’جانے سے ذرا پہلے‘

ایک لڑکی نے اپنی محبت، آنسووں کی لڑیوں کو، احساسات کی کہانی کو لفظوں کا روپ دیا ہے اور نام رکھا ہے ‘‘جانے سے پہلے‘‘۔

عفت عامر کو منزل کے حصول کی بہت جلدی ہے اس لئے بعض نظمیں ادھوری ادھوری سی محسوس ہوتی ہیں۔

یہ لڑکیاں بھی عجیب ہوتی ہیں، ذرا سی چاہ سے کھل اٹھتی ہیں۔ ذرا سی ٹھیس پہنچے تو پلکیں غم کے اظہار سے بوجھل ہو کر بھاری ہوجاتی ہیں۔ پھر کہہ اٹھتی ہیں۔
سچ کہو؛
تمہیں اب مجھ سے محبت نہیں رہی
اس روز و شب کے چکر میں
پہلی سی شراکت نہیں رہی

یہ عفت عامر کی کہانی ہے، اک لڑکی کی کہانی جسے بڑی جلدی ہے سب کچھ کہنے کی۔ اسی جلدی میں اس نے اپنے اندر کی کہانی، ایک لڑکی کی کہانی، محبت بھری کہانی، آنسووں کی لڑی کی کہانی اور اپنے احساسات کی کہانی کو لفظوں کا روپ دیا ہے اور نام رکھا ہے ''جانے سے پہلے''۔



ممتاز مفتی نے کہیں لکھا ہے کہ 'الفاظ خالی برتن ہوتے ہیں ان میں مفہوم ہم ڈالتے ہیں'۔ عفت عامر کا بھی یہی ماننا ہے۔ اسی لئے اپنے شعری مجموعے ''جانے سے ذرا پہلے'' میں لکھتی ہیں کہ لفظ ایک ہوتا ہے ہر شخص کا مفہوم مختلف ہوتا ہے۔ یہ سارے الفاظ جو آج آپ کے سامنے ہیں ہوسکتا ہے کہ آپ کے نزدیک ان کا مفہوم کچھ اور ہو لیکن میرے نزدیک ان کا مفہوم کچھ اور ہے۔

عفت عامر مزید لکھتی ہیں کہ یہ سب میرے احساسات اور مشاہدات ہیں، یہ محبت کی ادھوری داستانیں ہیں، کسی چھوٹے سے واقعہ کی شدت جس نے میرے دل کو متاثر کیا وہ سب علامتی انداز میں آپ کے سامنے ہے۔

یہ میرے چھوٹے چھوٹے خواب ہیں، آدرش ہیں، محبتیں ہیں اور تشنہ آرزوئیں ہیں۔ لڑکیاں جب دل کی بات کرتی ہیں تو اسے یا تو ناراضانہ لہجے میں کرتی ہے یا پھر دلبرانہ انداز میں، لیکن عفت عامر کا انداز بڑا بے ساختہ پن لئے ہوئے ہے۔
یہ جو فاصلوں کی دیوار ہے
اسے درمیاں سے ہٹا ذرا
یہ جو تشنگی سی ہے بات میں
اسے دور کر،کوئی کر گلہ
میرے ہم سفر، میرے چارہ گر
میرے پاس آ، میری بات سن


کہتے ہیں محبت کی آنچ نہ لگے تو شاعری میں پختگی نہیں آتی لیکن آنچ اگر دھیمی ہو تو وقت تو لگتا ہے لیکن پختگی کا انداز ہی جدا ہوتا ہے لیکن کیا کریں آج کی نئی نسل ہر کام میں جلد باز ہے اسے اپنی ہر منزل کے حصول کی بہت جلدی ہے۔

عفت نے بھی شاعری میں تیز رفتاری دکھائی ہے جس سے ان کی شاعری میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے۔ اگر انہیں شاعری میں بھی اپنی منزل کے حصول کی اتنی جلدی نا ہوتی تو انہیں یہ نا کہنا پڑتا کہ
مجھے منزل پر پہنچنے کی بہت جلدی ہے
میرے حصے کے ماہ و سال گزارے کوئی

عفت عامر کی شاعری میں ہجر و وصال دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
وصل کے سارے ٹھنڈے موسم تیرے ساتھ گئے
اب تو تپتی پروائیں ہیں اور جلتی برساتیں ہیں

'جانے سے ذرا پہلے' کے غالب حصے یعنی 10 نظموں کو جذبہِ محبت کی دریافت کی کوشش کہا جا سکتا ہے۔ محبت ایک نازک غیر مرئی احساس کا نام ہے جسے لفظوں میں ڈھالنا اور تخلیقی لمس کے ساتھ منکشف کرنا خاصا دشوار کام ہے، غزل میں یہ کام کم مشکل ہے کیونکہ غزل کی فضا، لفظیات اور ہیت، محبت کی کیفیات کے بیان سے خاص میل ملاپ رکھتی ہے۔محبت ایسے آسمانی موضوع کو نظم کے زمینی ماحول سے ہم آہنگ کرنا اور اس موضوع کو پختگی اور رسوخ کے ساتھ نظم کے قالب میں جذب کرنا ہی اصل کام ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا عفت عامر کو منزل کے حصول کی بہت جلدی ہے اس لئے بعض نظمیں ادھوری ادھوری سی محسوس ہوتی ہیں۔

لفظ محبت کی تعبیر دراصل محبت کے مختلف روپ ہیں۔ یہ وہ روپ ہیں جن سے زندگی میں ہر چاہنے اور چاہے جانے والے کا واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی حصے میں کسی سے معمولی سا تعلق، دل کی حساس پلیٹ پر دائمی نقش بن جاتا ہے۔ شاعر کی زندگی کے سمندر میں ایک شخص یا ایک واقعہ جزیرہ بن کر ابھرتا ہے اور شعر کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ محبت کا ایک موہوم سا نقش، نظم کا محرک بن جاتا ہے۔
جانے سے ذرا پہلے،
تمہیں یہ سوچ لینا چاہیئے تھا
تمہارے جانے سے ہمارے اندر
ایک بے نام سی اداسی ٹھہر جائے گی
ہمای پلکوں پر رکے آنسو
چھلک جائیں گے
تو کیسے روک پائیں گے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

Load Next Story