ملالہ کا گناہ

آج انسانی معاشروں کو جن سفاکیوں کا سامنا ہے وہ نہ بچوں کو بخشنے کے لیے تیار ہیں نہ خواتین کو


Zaheer Akhter Bedari October 13, 2012
[email protected]

ویسے تو دنیا کی تاریخ قتل وغارت کی سفاکیوں سے بھری ہوئی ہے لیکن ہم جن سفاکیوں سے گزر رہے ہیں ان کی مثال شاید انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔

دنیا کے بدترین قاتل حکمران بھی قتل و غارت میں خواتین اور بچوں کے قتل سے اجتناب برتتے تھے لیکن آج انسانی معاشروں کو جن سفاکیوں کا سامنا ہے وہ نہ بچوں کو بخشنے کے لیے تیار ہیں نہ خواتین کو اور المیہ یہ ہے کہ اس قتل عام میں گنہگار اور بے گناہ کی کوئی تقصیص نہیں۔ بارودی گاڑیاں، خود کش حملے اورٹارگٹ کلنگ میں جو اب بلائینڈ کلنگ میں بدل گئی ہے جو سامنے آتا ہے مارا جاتا ہے اب قتل عام کی اس بھرمار میں عوام حیرت سے منہ کھولے خالی خالی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور مایوس ہوجاتے ہیں پورا ملک خوف دہشت عدم تحفظ اور مایوسی کا شکار ہے۔

ایسے دہشت زدہ ماحول میں سوات کی چودہ سالہ طالبہ ملالہ اور اس کی تین ساتھیوں پر قاتلانہ حملے نے اگرچہ خوف اور دہشت کی فضا کو اورگہرا کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس قاتلانہ حملے نے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں نفرت کی ایک ایسی لہر پیدا کردی ہے جو اگر منظم ہوجائے اور اس میں مرکزیت پیدا ہوجائے تو بلاشبہ اس وحشت کا منہ پھیر سکتی ہے۔ ہمارے وہ سیاست دان جو بوجوہ ملک اور دنیا کے اس خطرناک مسئلہ پر خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں وہ بھی ملالہ پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ملالہ کا جرم یہ بتایا جارہا ہے کہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم کی کھل کر حمایت کی ہے اس کی اس جرات پر اسے ستارہ جرات سے نوازا گیا اور انٹرنیشنل پیس پرائز کے لیے نامزد کیاگیا تھا۔ جن لوگوں نے ملالہ پر حملہ کیا۔ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر ملالہ اس حملے میں زندہ بچ گئی تو اس پر دوبارہ حملہ کیا جائے گا اور اس کی جان لی جائے گی۔ اس چودہ سالہ معصوم لڑکی کا جرم یہ بتایاگیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف تھی۔ دنیا کی تاریخ میں بڑی بڑی دہشت گرد تنظیموں کے نام آتے ہیں لیکن محض کسی تنظیم کی مخالفت پر سزائے موت دینے کی مثالیں نہیں ملتی۔اگر اسی اصول کو سزا اور جزا کا معیار بنالیا گیا تو پھر دنیاکی سات ارب آبادی کا 99 فیصد سزائے موت کا حق دار ٹھہرے گا۔

9/11 کے حملوں سے شروع ہونے والی اس دہشت گردی میں فرنٹ مین کا کردار اگرچہ افغانستان، پاکستان اور دوسرے کئی مسلم ممالک کے سادہ لوح مسلمانوں کو افغانستان سے روس کو نکالنے کی جنگ میں استعمال کیا۔ ان مذہب دوست مسلمانوں کو یہ باور کرایاگیا کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کی جنگ جہاد ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ دو بڑی طاقتوں کے مفاد کا مسئلہ تھا۔ اس جہاد میں امریکا نے ہتھیاروں اور ڈالروں کا بے دریغ استعمال کیا اور ان ہی دو عناصر کا سہارا لے کر امریکا نے یہ جنگ جیت لی لیکن اس جنگ کو جیت نے کے بعد انتہائی خود غرضی اور مفاد پرستی کے ساتھ اس نے افغانستان اور مجاہدین کو ان کے حال پر چھوڑ ر افغانستان کو بھلادیا۔

روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں اگرچہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی لیکن ان کے پورے دور میں سوائے اپنی مرضی کے اسلام کے نفاذ کے دہشت گردی کا کوئی کلچر فروغ پاتا نظر نہیں آیا۔ لیکن جب امریکا کا سابق صدر 9/11 کی ذلت کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تو مذہبی انتہا پسندوں نے بتدریج دہشت گردی کی طرف پیش رفت کی۔ اس سپر پاور اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ایک کمزور فریق کی حیثیت سے دہشت گردی یا چھاپہ مار جنگ کا سہارا لیتے اور اپنی ساری توجہ جنگ آزادی پر مرکوز کرتے تو نہ صرف علاقائی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی انھیں پذیرائی ملتی لیکن اسے مذہبی انتہا پسندی میں بدل گئی جس کا رخ قابض فوجوں کے بجائے خود اپنے بے گناہ بھائیوں کی طرف ہوگیا۔ اس اندھی جنگ میں دو نیٹو کے سپاہی مارے جارہے ہیں تو دو سو بے گناہ پاکستانی مارے جارہے ہیں۔ سوات کی ملالہ پر حملہ بھی اسی اندھی اور بے سمت جنگ کا ایک حصہ ہے کیا ہم اس جنگ کو نظریاتی جنگ کا کام دے سکتے ہیں؟

جب ہم اس اندھی اور بے سمت دہشت گردی میں خواتین اور بچوں کو قتل ہوتے دیکھتے ہیں تو اس کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار ایک فطری بات ہے لیکن جب ہم خود کش حملوں میں ملالہ جیسے کم عمر بچوں کو استعمال ہوتے دیکھتے ہیں تو ہماری حیرت اور ناپسندیدگی اس لیے بے جواز بن جاتی ہے کہ جو طاقتیں خود اپنے بچوں کوخود کش حملوں کی موت کی طرف دھکیل رہی ہیں انھیں دوسرے بچوں اور خواتین کے قتل کا کیا غم ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اور المیہ بھی ہمارے سامنے موجود ہے وہ ہے فرقہ ورانہ قتل و غارت گری۔

ہم حیران ہونے میں حق بجانب ہیں کہ دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی اس جنگ میں اپنی طاقت بڑھانے کے بجائے اپنی طاقت کم کیوں کی جاری ہے؟ فرقہ وارانہ جنگ اب پاکستان تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے سارے مسلم ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کیا وہ طاقتیں جو مسلم ملکوں کے وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں وہ ہماری اس تقسیم اور آپس کی قتل و غارت سے خوش نہیں ہوں گی؟ بدقسمتی یہ ہے کہ عشروں سے ہفتوں کی اس لڑائی کی مالی مدد بعض عرب ملک کررہے ہیں ہمیں نہیں معلوم کہ اس فرقہ وارانہ قتل و غارت کی حمایت اور بھاری مالی امداد کیوں کی جارہی ہے لیکن ہمیں اس بدقسمتی کا بہرحال ادراک ہے کہ سامراجی طاقتوں کو اس کا زبردست فائدہ ہورہا ہے۔

ہمارے مذہب میں تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ فرمان بار بار پیش کیا جاتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے چین بھی جانا پڑے تو چین جائو غالباً یہ ہدایت یہ رہنمائی اس لیے کی گئی کہ علم ہی انسان کو حیوان سے انسان بناتا ہے۔ اس واضح ہدایت کے باوجود بچوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑانا، لڑکیوں کو علم کے حصول سے روکنا کسی طرح بھی پیغمبر اسلام ﷺ کے ارشادات سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے ؟ سوات کی ملالہ اپنی تین دوستوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ہے حصول علم کی جنگ میں اسے ایک طرف ستارہ جرات سے نوزا گیا تو دوسری طرف سے اسے قاتلانہ حملے سے نوازا گیا اور بچ جانے کی صورت میں دوبارہ قاتلانہ حملے کی دھمکی دی گئی۔ اس وقت پورا پاکستان ہی نہیں پوری دنیا ملالہ اور اس کی ساتھیوں کی صحت کی دعا مانگ رہی ہے اور حملہ آوروں سے نفرت کا اظہار کررہی ہے کیا یہ ملالہ کی کامیابی نہیں ہے؟

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں