تحریک انصاف کی حقیقی دشمن
میری عمران خان اور ان کے Spin Doctors سے درد مندانہ التجا ہے کہ وہ ملالہ کے نام پر کہانیاں نہ بنائیں
سنا ہے عمران خان نے کہیں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ان کی تحریک انصاف کی حقیقی دشمن تحریک انصاف ہی ہو سکتی ہے۔
اگر انھوں نے واقعی یہ فقرہ کہا ہے تو بالکل درست فرمایا۔ تحریک انصاف کو تحریک انصاف کے ہاتھوں ممکنہ نقصان پہنچنے کے ضمن میں کم از کم میں ان ''انٹرنیٹ جہادیوں'' کا ذکر نہیں کروں گا جو ہر وقت فیس بک اور ٹویٹر پر بیٹھے خود کو عمران خان کے متوالے کہتے ہوئے ان پر تنقید کرنے والوں کو ''لفافہ صحافی'' کے القاب ہی نہیں ماں بہن کی گالیوں سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں تحریک انصاف کو اصل نقصان ان مخصوص افراد سے پہنچنے والا ہے جو اپنے تئیں شام سات بجے کے بعد رات بارہ بجے تک ایک چینل سے دوسرے چینل پر عمران خان کا ''دفاع'' کرتے پائے جاتے ہیں۔
چند افراد وہ بھی ہیں جو تحریک انصاف کے ہذیانی انقلابیوں کی طرح DID کے بعد ماضی کا صیغہ استعمال نہیں کرتے۔ وہ انگریزی میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھی گئے ہیں۔ وہ بڑی شاندار انگریزی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں مائیکرو سافٹ پاور پوائنٹ کے ذریعے Bullets میں پیغام دینے کے عادی ہیں۔
ایسی زبان کے ماہر خواتین و حضرات امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتوں کے لیے بھاری بھر کم تنخواہوں اور ہوشربا مراعات کے ساتھ Spin Doctors کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کے بعد سے تو بلکہ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ کوئی سیاستدان خواہ کتنا ہی سادہ لوح یا کم عقل کیوں نہ ہو مارکیٹ میں اپنا مقام بنا سکتا ہے بشرطیکہ اسے کوئی لفظوں سے جادوگری کرنے والا Spin Doctor مل جائے۔ یہ ڈاکٹر اشتہاری کمپنیوں کے لیے Copy لکھنے والوں کی مانند کام کرتا ہے۔ ''صابن ہو تو 707'' جیسا فقرہ سوچتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں پر چھا جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ ہماری ثقافت میں لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سلام دُعا کے بعد لمبے چوڑے حال احوال میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ تفصیلی حال احوال کے عادی تقریباً فارغ البال لوگوں کی ثقافت میں چند چست فقروں کے ذریعے کسی سیاسی جماعت کو اقتدار تک پہنچا دینا بڑا مشکل کام ہے۔ بھارت کی اندرونی سیاست کا میں 1984ء سے 2005ء تک بڑے قریب سے مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ میری ناقص رائے میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن ایڈوانی جنہوں نے اپنی عملی زندگیوں کا آغاز صحافی کی حیثیت میں کیا تھا۔
ٹیلی وژن کے ذریعے اپنی بھارتیہ جتنا پارٹی کے پیغام کو پھیلانے کی اہمیت کو جبلی طور پر سمجھتے تھے۔ ان دونوں نے بڑی محنت سے چن چن کر شسما سوراج جیسے لوگ صحافیوں اور ٹیلی وژن اسکرینوں کے حوالے کیے۔ اس تمام ''کاریگری'' کے باوجود من موہن سنگھ آٹھ سال سے بھارت کا وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے اور فی الحال کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے کہ آیندہ انتخابات کے بعد بھی جنتا پارٹی اپنے طور پر اس ملک کی قومی اسمبلی میں، جسے لوک سبھا کہا جاتا ہے، قطعی اکثریت حاصل کر پائے گی۔ مخلوط حکومت بنانا اس کا بھی مقدر نظر آ رہا ہے۔
عمران خان نے بہت اچھا کیا کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے دوسرے دن پشاور کے اس اسپتال پہنچ گئے۔ مگر ان کا وہاں پہنچنے کے بعد ملالہ پر حملے کا ڈرون حملوں سے تعلق جوڑنا کچھ اتنا مناسب نہ تھا۔ خیر وہ جانیں اور ان کا کام۔ مگر ان کے Spin Doctors کا کیا کیجیے جو بدھ کی رات سے فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے پاکستانیوں اور دنیا بھر میں پھیلے عمران خان کے بہی خواہوں کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ امریکیوں نے کرایا ہو گا۔ ان کا خیال ہے کہ ہفتے اور اتوار کے دو روز مسلسل سفر کے بعد جنوبی وزیرستان کی سرحد تک پہنچ کر تحریک انصاف نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کرر کھ دیا ہے۔
پوری دنیا کو اب یہ پتہ چل گیا ہے کہ ڈرون طیارے دہشت گردوں کو نہیں بے گناہ اور معصوم شہریوں اور بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ڈرون کے ذریعے برپا ظلم، بدلے کی آگ میں مبتلا قبائلیوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ امریکا سے حساب چکائیں۔ اوباما اگر اپنے ملک اور اس کے شہریوں کی خیریت چاہتا ہے تو فوری طور پر ڈرون حملے بند کرنے کا حکم جاری کرے۔ امریکا میں نئے صدر کے انتخاب سے تقریباً تین ہفتے پہلے اپنے شہریوں کو دیر پا امن کی خوش خبری سنانے کے بعد وہ بھاری اکثریت کے ساتھ وائٹ ہائوس میں مزید چار سال تک اطمینان سے بیٹھا رہ سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے اپنے تئیں ذہین و فطین بنے Spin Doctors دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان کے ''امن مارچ'' کے پر اثر پیغام کے بعد اوباما گھبرا گیا۔ اس نے سی آئی اے کو مدد کے لیے پکارا۔ چونکہ امریکا کے اس جاسوس ادارے کے ایجنٹ پاکستان میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اس لیے ملالہ یوسف زئی کو گولی کے ذریعے ختم کرنے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی دیر نہ لگی۔ ملالہ موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہوگئی۔ اس پر کیے جانے والے حملے نے پاکستانی عوام کی اکثریت کو ہلا کر رکھ دیا۔
میری عمران خان اور ان کے Spin Doctors سے درد مندانہ التجا ہے کہ وہ ملالہ کے نام پر کہانیاں نہ بنائیں۔ تحریک انصاف پڑھے لکھوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اس کے تھنک ٹھیک ہیں۔ جس میں بیٹھے لوگ بڑے غور و غوض کے بعد بجلی کے بحران وغیرہ کو حل کرنے کے لیے Position Papers لکھا کرتے ہیں۔ بجائے افسانہ نویسی کرنے کے عمران خان کو ایک تھنک ٹینک سوات پر بھی بنا دینا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے لیے کام کرنے والے محقق بہت جلد پتہ چلا لیں گے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کا ڈرون حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔
سوات اور مالاکنڈ میں اصل مسئلہ طاقتور خوانین اور بے زمین کسانوں کے درمیان رہا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں بے زمین کسان مولانا بھاشانی کی جماعت سے نکلے افضل بنگش کی مزور کسان پارٹی کے ذریعے ''تیرا نگر، میرا نگر۔ ہشت نگر، ہشت نگر'' والی انقلابی تحریک بنانے کی کوشش میں مبتلا رہے۔ مگر آخر میں جنرل ضیاء اور ان کا ''اسلام'' آ گیا۔ معاملہ جوں کا توں رہا۔ اسلام کو بے زمین کسانوں کی آواز بنانے کے لیے مولوی صوفی محمد آگے بڑھے۔ ان کی تحریک محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں اپنے جوبن پر تھی۔
یہ وہی دن تھے کہ جب محترمہ کی دوسری حکومت جنرل نصیر اللہ بابر کے ذریعے طالبان کو افغانستان پر قابض ہونے کے لیے تیار ی کر رہی تھی۔ مگر مولوی صوفی محمد اسی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ریاستی طاقت کے ذریعے جب انھیں کچھ ٹھنڈا کیا گیا تو ان ہی کے داماد مولانا فضل اللہ نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں ''اسلامیوں کی حکومت'' کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی ''امارت'' قائم کرنے کی تیاری شروع کر دی اور آہستہ آہستہ اتنے طاقتور ہوئے کہ بالآخر 2009ء میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ مولوی فضل اللہ اب افغانستان میں پناہ گزین بتایا جاتا ہے۔ اس کی تنظیم کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر ایک گروہ اب بھی پوری شدت سے اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
تلخ مگر سچی بات یہ ہے کہ 2009ء کے آپریشن کے بعد ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے دوست ہونے کے دعوے دار امریکی، سوات کے عوام کو ان کی زندگیوں میں بنیادی اور بہتر تبدیلیاں لانے میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہ دے پائے۔ وہاں کے عوام پہلے مولوی فضل اللہ کے رحم و کرم پر تھے اب ریاستی طاقت کے سامنے بے بس۔ ڈرون حملے ان کا مسئلہ ہرگز نہیں۔ خدارا سوات کی حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ وہاں کے عوام کے دُکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ پیغام تو نہ دیجیے کہ آپ ان کے حقیقی اسباب کے بارے میں قطعی بے خبر ہیں۔
اگر انھوں نے واقعی یہ فقرہ کہا ہے تو بالکل درست فرمایا۔ تحریک انصاف کو تحریک انصاف کے ہاتھوں ممکنہ نقصان پہنچنے کے ضمن میں کم از کم میں ان ''انٹرنیٹ جہادیوں'' کا ذکر نہیں کروں گا جو ہر وقت فیس بک اور ٹویٹر پر بیٹھے خود کو عمران خان کے متوالے کہتے ہوئے ان پر تنقید کرنے والوں کو ''لفافہ صحافی'' کے القاب ہی نہیں ماں بہن کی گالیوں سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں تحریک انصاف کو اصل نقصان ان مخصوص افراد سے پہنچنے والا ہے جو اپنے تئیں شام سات بجے کے بعد رات بارہ بجے تک ایک چینل سے دوسرے چینل پر عمران خان کا ''دفاع'' کرتے پائے جاتے ہیں۔
چند افراد وہ بھی ہیں جو تحریک انصاف کے ہذیانی انقلابیوں کی طرح DID کے بعد ماضی کا صیغہ استعمال نہیں کرتے۔ وہ انگریزی میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھی گئے ہیں۔ وہ بڑی شاندار انگریزی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں مائیکرو سافٹ پاور پوائنٹ کے ذریعے Bullets میں پیغام دینے کے عادی ہیں۔
ایسی زبان کے ماہر خواتین و حضرات امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتوں کے لیے بھاری بھر کم تنخواہوں اور ہوشربا مراعات کے ساتھ Spin Doctors کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کے بعد سے تو بلکہ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ کوئی سیاستدان خواہ کتنا ہی سادہ لوح یا کم عقل کیوں نہ ہو مارکیٹ میں اپنا مقام بنا سکتا ہے بشرطیکہ اسے کوئی لفظوں سے جادوگری کرنے والا Spin Doctor مل جائے۔ یہ ڈاکٹر اشتہاری کمپنیوں کے لیے Copy لکھنے والوں کی مانند کام کرتا ہے۔ ''صابن ہو تو 707'' جیسا فقرہ سوچتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں پر چھا جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ ہماری ثقافت میں لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سلام دُعا کے بعد لمبے چوڑے حال احوال میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ تفصیلی حال احوال کے عادی تقریباً فارغ البال لوگوں کی ثقافت میں چند چست فقروں کے ذریعے کسی سیاسی جماعت کو اقتدار تک پہنچا دینا بڑا مشکل کام ہے۔ بھارت کی اندرونی سیاست کا میں 1984ء سے 2005ء تک بڑے قریب سے مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ میری ناقص رائے میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن ایڈوانی جنہوں نے اپنی عملی زندگیوں کا آغاز صحافی کی حیثیت میں کیا تھا۔
ٹیلی وژن کے ذریعے اپنی بھارتیہ جتنا پارٹی کے پیغام کو پھیلانے کی اہمیت کو جبلی طور پر سمجھتے تھے۔ ان دونوں نے بڑی محنت سے چن چن کر شسما سوراج جیسے لوگ صحافیوں اور ٹیلی وژن اسکرینوں کے حوالے کیے۔ اس تمام ''کاریگری'' کے باوجود من موہن سنگھ آٹھ سال سے بھارت کا وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے اور فی الحال کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے کہ آیندہ انتخابات کے بعد بھی جنتا پارٹی اپنے طور پر اس ملک کی قومی اسمبلی میں، جسے لوک سبھا کہا جاتا ہے، قطعی اکثریت حاصل کر پائے گی۔ مخلوط حکومت بنانا اس کا بھی مقدر نظر آ رہا ہے۔
عمران خان نے بہت اچھا کیا کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے دوسرے دن پشاور کے اس اسپتال پہنچ گئے۔ مگر ان کا وہاں پہنچنے کے بعد ملالہ پر حملے کا ڈرون حملوں سے تعلق جوڑنا کچھ اتنا مناسب نہ تھا۔ خیر وہ جانیں اور ان کا کام۔ مگر ان کے Spin Doctors کا کیا کیجیے جو بدھ کی رات سے فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے پاکستانیوں اور دنیا بھر میں پھیلے عمران خان کے بہی خواہوں کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ امریکیوں نے کرایا ہو گا۔ ان کا خیال ہے کہ ہفتے اور اتوار کے دو روز مسلسل سفر کے بعد جنوبی وزیرستان کی سرحد تک پہنچ کر تحریک انصاف نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کرر کھ دیا ہے۔
پوری دنیا کو اب یہ پتہ چل گیا ہے کہ ڈرون طیارے دہشت گردوں کو نہیں بے گناہ اور معصوم شہریوں اور بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ڈرون کے ذریعے برپا ظلم، بدلے کی آگ میں مبتلا قبائلیوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ امریکا سے حساب چکائیں۔ اوباما اگر اپنے ملک اور اس کے شہریوں کی خیریت چاہتا ہے تو فوری طور پر ڈرون حملے بند کرنے کا حکم جاری کرے۔ امریکا میں نئے صدر کے انتخاب سے تقریباً تین ہفتے پہلے اپنے شہریوں کو دیر پا امن کی خوش خبری سنانے کے بعد وہ بھاری اکثریت کے ساتھ وائٹ ہائوس میں مزید چار سال تک اطمینان سے بیٹھا رہ سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے اپنے تئیں ذہین و فطین بنے Spin Doctors دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان کے ''امن مارچ'' کے پر اثر پیغام کے بعد اوباما گھبرا گیا۔ اس نے سی آئی اے کو مدد کے لیے پکارا۔ چونکہ امریکا کے اس جاسوس ادارے کے ایجنٹ پاکستان میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اس لیے ملالہ یوسف زئی کو گولی کے ذریعے ختم کرنے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی دیر نہ لگی۔ ملالہ موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہوگئی۔ اس پر کیے جانے والے حملے نے پاکستانی عوام کی اکثریت کو ہلا کر رکھ دیا۔
میری عمران خان اور ان کے Spin Doctors سے درد مندانہ التجا ہے کہ وہ ملالہ کے نام پر کہانیاں نہ بنائیں۔ تحریک انصاف پڑھے لکھوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اس کے تھنک ٹھیک ہیں۔ جس میں بیٹھے لوگ بڑے غور و غوض کے بعد بجلی کے بحران وغیرہ کو حل کرنے کے لیے Position Papers لکھا کرتے ہیں۔ بجائے افسانہ نویسی کرنے کے عمران خان کو ایک تھنک ٹینک سوات پر بھی بنا دینا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے لیے کام کرنے والے محقق بہت جلد پتہ چلا لیں گے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کا ڈرون حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔
سوات اور مالاکنڈ میں اصل مسئلہ طاقتور خوانین اور بے زمین کسانوں کے درمیان رہا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں بے زمین کسان مولانا بھاشانی کی جماعت سے نکلے افضل بنگش کی مزور کسان پارٹی کے ذریعے ''تیرا نگر، میرا نگر۔ ہشت نگر، ہشت نگر'' والی انقلابی تحریک بنانے کی کوشش میں مبتلا رہے۔ مگر آخر میں جنرل ضیاء اور ان کا ''اسلام'' آ گیا۔ معاملہ جوں کا توں رہا۔ اسلام کو بے زمین کسانوں کی آواز بنانے کے لیے مولوی صوفی محمد آگے بڑھے۔ ان کی تحریک محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں اپنے جوبن پر تھی۔
یہ وہی دن تھے کہ جب محترمہ کی دوسری حکومت جنرل نصیر اللہ بابر کے ذریعے طالبان کو افغانستان پر قابض ہونے کے لیے تیار ی کر رہی تھی۔ مگر مولوی صوفی محمد اسی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ریاستی طاقت کے ذریعے جب انھیں کچھ ٹھنڈا کیا گیا تو ان ہی کے داماد مولانا فضل اللہ نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں ''اسلامیوں کی حکومت'' کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی ''امارت'' قائم کرنے کی تیاری شروع کر دی اور آہستہ آہستہ اتنے طاقتور ہوئے کہ بالآخر 2009ء میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ مولوی فضل اللہ اب افغانستان میں پناہ گزین بتایا جاتا ہے۔ اس کی تنظیم کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر ایک گروہ اب بھی پوری شدت سے اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
تلخ مگر سچی بات یہ ہے کہ 2009ء کے آپریشن کے بعد ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے دوست ہونے کے دعوے دار امریکی، سوات کے عوام کو ان کی زندگیوں میں بنیادی اور بہتر تبدیلیاں لانے میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہ دے پائے۔ وہاں کے عوام پہلے مولوی فضل اللہ کے رحم و کرم پر تھے اب ریاستی طاقت کے سامنے بے بس۔ ڈرون حملے ان کا مسئلہ ہرگز نہیں۔ خدارا سوات کی حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ وہاں کے عوام کے دُکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ پیغام تو نہ دیجیے کہ آپ ان کے حقیقی اسباب کے بارے میں قطعی بے خبر ہیں۔