اسرار صاحب کی یاد میں

پاکستان میں صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے آزادی صحافت کے حق کے لیے تاریخی جدوجہد کی


Dr Tauseef Ahmed Khan October 13, 2012
[email protected]

آزادی صحافت شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ شہری آزادی صحافت کے حق کو استعمال کرنے سے ایک شفاف جمہوری نظام کی بنیاد رکھتے ہیں ۔

دنیا بھر کے اکثرممالک میں سیاسی جماعتوں نے عوام کے آزادی صحافت کے حق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس حوالے سے مختلف ہے، پاکستان میں صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے آزادی صحافت کے حق کے لیے تاریخی جدوجہد کی اور آزادی صحافت کی اہمیت سے عوام کو آگاہ کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اپریل 1950 سے کراچی میں صحافیوں کی نمایندہ کنونشن میں قائم کی۔ پی ایف یو جے کے پہلے چیئرمین اے آر لوئیس اور اسرار احمد پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ پی ایف یو جے کے بانیوں میں شکور احمد، غیوراسلام، احمد علی خان، جمیل احمد، حمید ہاشمی، عبداﷲ ملک قابل ذکر تھے۔

پی ایف یو جے کی قیادت نے شکور احمد، غیور اسلام اور اسرار احمد کی قیادت میں پی ایف یو جے کا وفاق کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین تیار کیا، اس آئین میں وفاقی یونین کے تمام یونٹوں کو مکمل خود مختاری دی گئی، یوں سیاسی جماعتیں پاکستان کو ایک وفاقی ڈھانچہ قرار دینے کے آئین پر متفق نہیں ہوئیں مگر صحافیوں نے وفاق کے اصولوں کے تحت پی ایف یو جے کے لیے رہنما اصول طے کیے، ان اصولوں نے پاکستانی صحافت پر ہی نہیں بلکہ ملک کی سیاسی صورتحال پر گہرے نقش چھوڑے۔ اسرار احمد کی قیادت میں پی ایف یو جے نے آزادی صحافت، صحافیوں کے حالات کار کو بہتر بنانے اور صحافت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اصول طے کیے۔

اسرار احمد ہندوستان کے شہر گورکھ پور میں 23 اکتوبر 1923 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گورکھ پور میں حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اپنی مرضی سے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ قائد اعظم نے جب ہفت روزہ ڈان کو روزنامہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے احمد علی خان، ایم اے زبیری اور اسرار احمد کا بطور صحافی انتخاب کیا۔ اسرار احمد پاکستان کے قیام کے بعد کراچی آئے۔ اس زمانے میں ممتاز صحافی اور سیاست دان پیر علی محمد راشدی کی ادارت میں سندھ آبزرور نامی انگریزی اخبار کراچی سے شایع ہوتا تھا۔

اسرار احمد نے پاکستان آبزرور میں رپورٹر کی حیثیت سے ملازمت کرلی۔ سندھ آبزرور کے ادارتی معاملات میں اس کا جنرل منیجر مستقل مداخلت کرتا تھا جس پر انتظامیہ نے احتجاج کرنے والے پانچ صحافیوں کے خلاف کارروائی کی، اخبار کے صحافیوں نے 7 اکتوبر 1949 سے ہڑتال شروع کی جو 42 دن تک جاری رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں آئین موجود نہیں تھا، حکومت تمام فیصلے قانون سے بالاتر ہوکر کرتی تھی۔ اخبار کے ایڈیٹر پیر علی محمد راشدی کی ایما پر پولیس نے ہڑتالی صحافیوں کے کیمپ پر حملہ کیا اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، پولیس نے اسرار احمد سمیت متعدد صحافیوں کو گرفتار کرلیا، ان پر ملازمت کے دروازے بند کردیے گئے۔

اس وقت تک سندھ یونین آف جرنلسٹس، ایسٹ پاکستان یونین آف جرنلسٹس، پنجاب یونین آف جرنلسٹس قائم ہوچکی تھیں مگر وفاق میں ایک مشترکہ یونین نہ ہونے کی بنا پر ملک بھر کے صحافیوں کی قوت ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں تھی۔ اسرار احمد اور ان کے ساتھیوں نے ملک بھر کے صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ اس دوران مسلم لیگ کی پہلی حکومت نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں امریکا سے دوستی شروع کردی۔ پاکستانی فوج اور وزارت دفاع کے درمیان روابط قائم ہوئے۔

لیاقت علی خان حکومت نے برطانوی ہند حکومت کے رائج کردہ سیاہ قوانین سیفٹی ایکٹ اور سیکیورٹی ایکٹ کو اخبارات کے خلاف پابندیوں کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ سندھ یونین آف جرنلسٹس نے پبلک سیفٹی آرڈیننس کو سیاہ قانون قرار دیا اور اس قانون کے تحت اخبارات پر پابندیوں کی مذمت کی گئی۔ 1950 میں پی ایف یو جے کا پہلا دو روزہ کنونشن منعقد ہوا تو اس کنونشن میں امتناعی قوانین کے نفاذ کی مذمت کی گئی، صحافیوں کی گرفتاریوں اور اخبارات پر پابندیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا عزم کیا گیا ۔ اسرار احمد کے مطالبے پر حکومت نے صحافیوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے جائزے کے لیے 1954 میں پریس کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اجرت بورڈ قائم ہوا، صحافیوں کی اجرتوں کے تعین کے لیے پے اسکیل طے ہوئے اور اخباری صنعت میں اجرتوں کا جدید تصور آیا۔

17اکتوبر 1958 میں فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کرکے آئین منسوخ کیا اور بنیادی حقوق غصب کیے۔ فوجی حکومت نے 19 اپریل 1959 کو سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت ملک کے معیاری اخبارات شایع کرنے والے پاکستان پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کرلیا۔ پاکستان ٹائمز، امروز، اسٹوڈنٹس ٹائمز سرکاری تحویل میں لے لیے گئے۔ اس وقت اسرار احمد پاکستان ٹائمز میں ملازمت کررہے تھے، انھوں نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم پر حکومت کے اس اقدام کو عوام دشمنی قرار دیا اور اپنی ملازمت کو دائو پر لگایا۔

جب ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا تو حکومت نے پاکستان ٹائمز کا ایک ایڈیشن راولپنڈی سے شایع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسرار احمد پاکستان ٹائمز کے چیف رپورٹر مقرر ہوئے۔ نومبر 1960 میں پاکستان ٹائمز میں شایع ہونے والی ایک خبر کی بنا پر چیف رپورٹر اسرار احمد اور رپورٹر سلامت علی کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس پر صحافیوں نے ان مقدمات کی منسوخی کے مطالبے کے لیے تاریخی جدوجہد شروع کی۔ حکومت کو یہ مقدمہ واپس لینا پڑا۔ جب ایوب خان کی حکومت نے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس 1963 نافذ کیا تو اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی ایف یو جے نے مشترکہ جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ ایکشن کمیٹی میں بھی اسرار احمد کا کردار انتہائی نمایاں تھا۔ ایوب حکومت کو صحافیوں کے دبائو پر اس سیاہ قانون میں تبدیلی کرنی پڑی۔

اسرار احمد 1967 میں پی ایف یو جے کے ڈھاکا میں ہونے والے بی ڈی ایم میں صدر منتخب ہوئے۔ ان کے مقابلے پر ممتاز صحافی آئی اے رحمن تھے۔ اسرار صاحب نے اپریل 1970 میں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی تاریخی ہڑتال میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ پی ایف یو جے کو ایک پروفیشنل آرگنائزیشن بنانے کے خواہاں تھے۔ انھوں نے چین کے صحافیوں کے ساتھ مل کر افرو ایشیائی تنظیم قائم کی۔ اسرار احمد نے ساری زندگی اپنے اصولوں کے تحت زندگی گزاری اور کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ معروضی صحافت کے علمبردارتھے۔ انھیں خبروں میں معروضیت کی پامالی پر سخت تشویش تھی۔

ممتاز صحافی ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ اسرار احمد نے صحافت کے اعلیٰ معیار قائم کیے تھے۔ ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے بعض صحافی اخبارات کے ایڈیٹر تھے۔ پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکریٹری جنرل مظہر عباس کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو اسرار احمد کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کی کوششوں سے اجرت بورڈ کے ذریعے صحافیوں کے حالات کار بہتر ہوئے۔ ان کی کتاب Wall Have Ears، 2011 میں شایع ہوئی۔ ان کی خواہش تھی کہ کچھ اخبارات میں ان کی کتاب پرتبصرہ شایع ہو، ان کی خواہش ان کی زندگی میں پوری نہیں ہوئی۔ اسرار احمد ایک بھر پور زندگی گزارنے کے بعد گزشتہ ہفتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگر چہ ان کے جنازے میں چند صحافی شریک تھے مگر نوجوان صحافیوں کو اسرار صاحب کی جدوجہد سے آگاہ کرکے ان کے شعورکو بلند کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |