فرقہ واریت کا سدِباب
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا دشمن ہمیں ہر حال میں کمزور کرنا چاہتا ہے
PESHAWAR:
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا دشمن ہمیں ہر حال میں کمزور کرنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لیے وہ ہمارے ہی ہم وطنوں کو بطور ٹولز استعمال کر رہا ہے جو دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو پاکستان میں مسلسل فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں۔
پاکستان کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو دوسرے مسلمانوں کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے مذہب کے نام پر سیاست شروع کر رکھی ہے اور اپنے ووٹر کو مسلسل گمراہ کر رہے ہیں۔ کیا سب کچھ پاکستان کے عوام نہیں دیکھ رہے ۔
اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہمارا وطن ایسا ہو جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بنایا تھا ایسی مسلم ریاست ہو جہاں ہر مکتبہ فکر کے مسلمان اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوں، تو ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہو گی کہ تمام وہ جماعتیں جو فرقے اور مکتبہ فکر کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں انھیں کسی حال میں سیاسی ووٹ لینے کا حق نہ ہو وہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کی تبلیغ میں آزاد ہوں، لیکن وہ سیاسی طور پر آزاد نہ ہوں کیونکہ انھوں نے اپنی اپنی جما عت میں صرف اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں کو ہی رکن بنایا ہوتا ہے۔
اس میں چاہے کو ئی تنظیم ہو ان سب پر سیاسی پابندی ہو جب ان کو سیاست سے دور رکھا جائے گا تو انھیں ووٹر کو گمراہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا نہ ہی ووٹر کی ضرورت ہو گی۔ جب ووٹر سے واسطہ نہیں ہو گا تو ملک میں فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔ یہی وہ علاج ہے جو ملک میں فرقہ واریت کو ختم کر سکتا ہے۔ اس کام کے لیے ہماری پارلیمنٹ کو قدم اٹھانا ہو گا اور اس اصول پر نیا قانون بنانا ہو گا۔
جو سیاست کرنا چاہیں وہ مذہب کے نام پر نہ ہو کسی خاص مکتبہ اور مسلک کے نام پر نہ ہو۔ اگر دینی جماعت بنانی ہے تو سارے مسلک کے مسلمانوں مذہبی اور مسلکی تک رکھیں۔ کسی مسلک کے ماننے والے پر کوئی پابندی اس بات کی نہ ہو کہ اپنے مسلک پر کسی طور عمل سے معذور کر دیا جائے۔ جس دن حکومت وقت نے اس فارمولے پر عمل شروع کر دیا تو یقین جانیے دہشت گردی کا وہ باب جیسے فرقہ واریت کہا جاتا ہے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ اور صرف وہ دہشت گردی رہ جائے گی جو ملک میں ظلم، بربریت انانیت اور لسانیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اس سے مقابلہ آسان ہو جائے گا لیکن فرقہ واریت ختم ہونے سے پوری ملت ایک قوم بن جائے گی۔
ہمارے یہاں جتنی بھی مذہبی جماعتیں ہیں اسلام کے نام پر احتجاج و جلسہ جلوس کرتی نظر آتی ہیں، ہمارے یہاں وہ جماعتیں جو دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہیں وہ اس بہانے جلوس نکالتی ہیں۔ حرمین شریفین تمام مکتبہ فکر کے مسلمانوں کے لیے قابل احترام ہیں ان کی حفاظت ہر مسلمان پر واجب ہے اور سب سے بڑھ کر خداوند عالم اپنے گھر کی حفاظت اسی طرح کرے گا جس طرح ابرہہ کے لشکر سے اس زمانے میں کی جب سے اس کعبے سے 360 بتوں کو توڑ کر خانہ کعبہ کو شرک کر نے والوں سے پاک کیا گیا جب سے میقات کی حدود معین ہوئی، آج تک 1400 سال گزرنے کے باوجود کبھی کوئی غیر مسلم اس میں داخل نہ ہوا نہ ہو سکتا ہے۔
اس لیے جب بھی حرمین کی بے حرمتی اور اس کے تقدس کا مسئلہ آئے گا، پوری دنیا کے دو ارب مسلمان اپنی جان سے حفاظت کریں گے بارہ مئی کو ہونے والا بربریت کا واقعہ جو صفورا گوٹھ کراچی میں پیش آیا جس میں اسماعیلی کمیونٹی کے ہی لوگوں کو بے گناہ سفاکیت سے قتل کیا جب کہ وہ کمیونٹی ہمارے ملک میں صرف اور صرف سماجی کاموں میں اہل وطن کی معاونت کرتی ہے۔
یہ کمیونٹی جس کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان ہیں جنہوں نے پاکستان کے کونے کونے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم میں بے مثال خدمت کے ادارے کھولے ہوئے ہیں، اور وہ بھی بین الاقوامی معیار کے یقینا آج پوری ملت اسلامیہ اور خصوصاً ملت پاکستان اور ہما ری ریاست کے تمام ادارے اس بربریت کے واقعے کی سخت مذمت کر تے ہیں اور آغا خان سے ان کی تعزیت کرتے ہیں اور پوری ملت تمام اہم ریاستی ادارے ان کے سربراہ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شر یف نے وعدہ کیا ہے کہ ان ملک دشمنوں کا کھوج بھی لگائیں گے اور انھیں عبرتناک سزا بھی دیں گے۔
اس واقعے کے پیچھے یقیناً ایسے منظم دشمن کا ہاتھ ہے، جس نے اپنے کارندوں کے ذریعے ہمارے وطن کو کمزور کرنے کا غیر علانیہ جنگ کا طبل بجایا ہوا ہے، جو کبھی سیاسی دہشت گردوں کا استعمال کرتا ہے تو کبھی نام نہاد ملائیت والوں کو، یہ حقیقت ہے پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی معاملات سے سخت پریشان ہے وہ ہمیں اندرونی طور پر ہر معاملے میں الجھا کر رکھنا چاہتا ہے تا کہ ہم کبھی سکون کے عالم میں نہ آ جائیں کیونکہ کشمیر جو ہمارا اٹوٹ انگ ہے جو ہماری شہ رگ ہے وہ ہمیں واپس لینا ہے۔
اب ہم جوہری قوت ہیں کوئی کمزور ملک نہیں ہے ہمارے پاس دنیا کی بہترین باصلاحیت فوج ہے، ہمارا دشمن سب جانتا ہے۔ ہمیں یک جہتی سے اپنی ملت اور حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں، ہمارا مستقبل شاندار ہے ۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا دشمن ہمیں ہر حال میں کمزور کرنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لیے وہ ہمارے ہی ہم وطنوں کو بطور ٹولز استعمال کر رہا ہے جو دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو پاکستان میں مسلسل فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں۔
پاکستان کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو دوسرے مسلمانوں کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے مذہب کے نام پر سیاست شروع کر رکھی ہے اور اپنے ووٹر کو مسلسل گمراہ کر رہے ہیں۔ کیا سب کچھ پاکستان کے عوام نہیں دیکھ رہے ۔
اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہمارا وطن ایسا ہو جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بنایا تھا ایسی مسلم ریاست ہو جہاں ہر مکتبہ فکر کے مسلمان اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوں، تو ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہو گی کہ تمام وہ جماعتیں جو فرقے اور مکتبہ فکر کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں انھیں کسی حال میں سیاسی ووٹ لینے کا حق نہ ہو وہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کی تبلیغ میں آزاد ہوں، لیکن وہ سیاسی طور پر آزاد نہ ہوں کیونکہ انھوں نے اپنی اپنی جما عت میں صرف اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں کو ہی رکن بنایا ہوتا ہے۔
اس میں چاہے کو ئی تنظیم ہو ان سب پر سیاسی پابندی ہو جب ان کو سیاست سے دور رکھا جائے گا تو انھیں ووٹر کو گمراہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا نہ ہی ووٹر کی ضرورت ہو گی۔ جب ووٹر سے واسطہ نہیں ہو گا تو ملک میں فرقہ واریت ختم ہو جائے گی۔ یہی وہ علاج ہے جو ملک میں فرقہ واریت کو ختم کر سکتا ہے۔ اس کام کے لیے ہماری پارلیمنٹ کو قدم اٹھانا ہو گا اور اس اصول پر نیا قانون بنانا ہو گا۔
جو سیاست کرنا چاہیں وہ مذہب کے نام پر نہ ہو کسی خاص مکتبہ اور مسلک کے نام پر نہ ہو۔ اگر دینی جماعت بنانی ہے تو سارے مسلک کے مسلمانوں مذہبی اور مسلکی تک رکھیں۔ کسی مسلک کے ماننے والے پر کوئی پابندی اس بات کی نہ ہو کہ اپنے مسلک پر کسی طور عمل سے معذور کر دیا جائے۔ جس دن حکومت وقت نے اس فارمولے پر عمل شروع کر دیا تو یقین جانیے دہشت گردی کا وہ باب جیسے فرقہ واریت کہا جاتا ہے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ اور صرف وہ دہشت گردی رہ جائے گی جو ملک میں ظلم، بربریت انانیت اور لسانیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اس سے مقابلہ آسان ہو جائے گا لیکن فرقہ واریت ختم ہونے سے پوری ملت ایک قوم بن جائے گی۔
ہمارے یہاں جتنی بھی مذہبی جماعتیں ہیں اسلام کے نام پر احتجاج و جلسہ جلوس کرتی نظر آتی ہیں، ہمارے یہاں وہ جماعتیں جو دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہیں وہ اس بہانے جلوس نکالتی ہیں۔ حرمین شریفین تمام مکتبہ فکر کے مسلمانوں کے لیے قابل احترام ہیں ان کی حفاظت ہر مسلمان پر واجب ہے اور سب سے بڑھ کر خداوند عالم اپنے گھر کی حفاظت اسی طرح کرے گا جس طرح ابرہہ کے لشکر سے اس زمانے میں کی جب سے اس کعبے سے 360 بتوں کو توڑ کر خانہ کعبہ کو شرک کر نے والوں سے پاک کیا گیا جب سے میقات کی حدود معین ہوئی، آج تک 1400 سال گزرنے کے باوجود کبھی کوئی غیر مسلم اس میں داخل نہ ہوا نہ ہو سکتا ہے۔
اس لیے جب بھی حرمین کی بے حرمتی اور اس کے تقدس کا مسئلہ آئے گا، پوری دنیا کے دو ارب مسلمان اپنی جان سے حفاظت کریں گے بارہ مئی کو ہونے والا بربریت کا واقعہ جو صفورا گوٹھ کراچی میں پیش آیا جس میں اسماعیلی کمیونٹی کے ہی لوگوں کو بے گناہ سفاکیت سے قتل کیا جب کہ وہ کمیونٹی ہمارے ملک میں صرف اور صرف سماجی کاموں میں اہل وطن کی معاونت کرتی ہے۔
یہ کمیونٹی جس کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان ہیں جنہوں نے پاکستان کے کونے کونے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم میں بے مثال خدمت کے ادارے کھولے ہوئے ہیں، اور وہ بھی بین الاقوامی معیار کے یقینا آج پوری ملت اسلامیہ اور خصوصاً ملت پاکستان اور ہما ری ریاست کے تمام ادارے اس بربریت کے واقعے کی سخت مذمت کر تے ہیں اور آغا خان سے ان کی تعزیت کرتے ہیں اور پوری ملت تمام اہم ریاستی ادارے ان کے سربراہ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شر یف نے وعدہ کیا ہے کہ ان ملک دشمنوں کا کھوج بھی لگائیں گے اور انھیں عبرتناک سزا بھی دیں گے۔
اس واقعے کے پیچھے یقیناً ایسے منظم دشمن کا ہاتھ ہے، جس نے اپنے کارندوں کے ذریعے ہمارے وطن کو کمزور کرنے کا غیر علانیہ جنگ کا طبل بجایا ہوا ہے، جو کبھی سیاسی دہشت گردوں کا استعمال کرتا ہے تو کبھی نام نہاد ملائیت والوں کو، یہ حقیقت ہے پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی معاملات سے سخت پریشان ہے وہ ہمیں اندرونی طور پر ہر معاملے میں الجھا کر رکھنا چاہتا ہے تا کہ ہم کبھی سکون کے عالم میں نہ آ جائیں کیونکہ کشمیر جو ہمارا اٹوٹ انگ ہے جو ہماری شہ رگ ہے وہ ہمیں واپس لینا ہے۔
اب ہم جوہری قوت ہیں کوئی کمزور ملک نہیں ہے ہمارے پاس دنیا کی بہترین باصلاحیت فوج ہے، ہمارا دشمن سب جانتا ہے۔ ہمیں یک جہتی سے اپنی ملت اور حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں، ہمارا مستقبل شاندار ہے ۔