ھٰذہٖ … کھیتٌ … چڑیوںٌ … چَرِّ و چگھٌ
ہماری ہوم میڈ عربی ہے آپ کسی بھی چیز کے اوپر دو پیش لگا کر اسے معرب کر سکتے ہیں،
QUETTA:
گھبرایئے نہیں یہ خالص ہماری ہوم میڈ عربی ہے آپ کسی بھی چیز کے اوپر دو پیش لگا کر اسے معرب کر سکتے ہیں، جیسے وزیر، امیر، لیڈر چور، عوام احمق وغیرہ اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اب وہ معمول کی اردو زبان تو یوں ہو گئی جیسے چڑیوں کے آگے ہر وقت کنستر بجا بجا کر انھیں بہرا کر دیا جائے جب کہ یہاں ''کھیت'' پر ایک کے بعد ایک ''ٹڈی دل'' حملہ آور ہو رہے ہیں یعنی
ایک اور ''ٹڈی دل'' کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک ''ٹڈی دل'' سے نمٹا تو میں نے دیکھا
آپ کو ابھی پتہ نہیں کہ آپ تو اس غلط فہمی میں ہیں کہ پرانے ٹڈل آخر کار چرتے چرتے جب اپنا پیٹ بھر لیں گے تو کھیت کو چھٹکارا مل جائے گا اور نئے نئے خوشے پھوٹ کر دوبارہ فصل لہلہا اٹھے گی، لیکن آپ نہیں جانتے کہ ٹڈیاں کبھی مرتی نہیں ہیں کیوں کہ مرنے سے پہلے ہر ٹڈی کم از کم سو انڈے تو زمین میں گاڑ چکی ہوتی ہیں، ہماری موجودہ نسل نے ٹڈی دلوں کو نہیں دیکھا ہو گا اس لیے کچھ ٹڈی دلوں کا بھی بیاں ہو جائے کیوں کہ مستقبل میں ایک مرتبہ پھر ٹڈی دلوں کا زور ہونے والا ہے۔
انڈے گاڑے جا چکے ہیں اور لاروے نکلنے والے ہی ہیں یعنی وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے، اوہ سوری ۔۔۔ شاید آپ اس بات پر ''منفی تنقید'' کے لیے پر تول رہے ہیں کہ ہم نے بات تو چڑیوںٌ چروٌ و چگھٌ کی شروع کی تھی اور پہنچ گئی ٹڈی دل تک تو ''منفی تنقیدی'' کھجلی روک لیجیے کیوں کہ چڑیاں اور ٹڈیاں دونوں بھلے ہی الگ الگ دکھائی دے رہے ہیں لیکن آپس میں قید و حیات و بند غم دونوں کی طرح ایک ہیں دونوں پرندے ہیں لیکن دلوں میں وہ ''شاہین و کرگس'' والا نظریاتی اختلاف نہیں ہے کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
ٹڈی اور چڑیوں میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے دونوں ہی برادر ہیں دونوں ہی ''کھیت'' کے خلاف ایک ہیں دونوں ہی وارداتیے ہیں لیکن دونوں نے آپس میں تقسیم کار کر رکھی ہے جس طرح وزیروں اور افسروں کے باقاعدہ الگ الگ حلقہ ہائے واردات ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح چڑیاں صرف ''دانے دنکے'' پر ہلہ بولتی ہیں اور مجال ہے کہ فصل کا کوئی پتا بھی ہل جائے اسی طرح ٹڈیوں کا نشانہ صرف پتے ہوتے ہیں دانے وغیرہ سے تغرض نہیں کرتی ہیں کچھ لوگ اسے انگریزی میں گڈ گورننس بھی کہتے ہیں۔ اس گڈ گورننس کا نتیجہ ہے کہ ان دونوں کے گزرنے کے بعد کھیت کا ککھ بھی نہیں بچتا جب کہ وزیروں اور افسروں سے پھر بھی کچھ نہ کچھ بچ جاتا ہے یا بچا لیا جاتا ہے تاکہ ''آنے والے' بھی منہ میٹھا اور حلق تر کر سکیں مطلب یہ کہ ان کو یہ فکر بالکل نہیں ہوتی کہ
آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
ہاں وہ ٹڈی دل کی بات تو رہ گئی، ہوتا یوں تھا کہ نہ جانے کہاں سے اچانک کروڑوں اربوں ٹڈیوں کے دل آجاتے تھے اور اپنے پیچھے بربادیاں چھوڑ جاتے تھے کسی درخت کسی فصل اور کسی بھی سبزے کا نام و نشان نہیں رہتا حالانکہ خود اپنا رنگ بھی ''سبز'' ہی ہوتا تھا، پاکستان بنے ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ''ٹڈی دل'' کا حملہ ہو گیا یہاں ہمارا اشارہ ہر گز کسی دوسری ''سبز'' چیز کی طرف نہیں ہے اگر آپ چاہیں تو سبز قدموں سے لے کر ''خط سبزی'' تک کچھ بھی خیال میں لا سکتے ہیں اس ''خط سبزے'' اور ''سبزہ خط'' پر یوں تو اردو فارسی اور دوسری زبانوں میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن ولی دکنی نے کیا خوب کہا ہے کہ
سایہ ہو مرا سبز برنگ پر طوطی
گر خواب میں وہ ''نو خط'' شیرین بچن آوے
خیر یہ تو سبزہ خط اور سبز قدم جانیں لیکن ٹڈی دل کا حملہ جب ہوا تو اس مرتبہ سبز ٹڈی دل نے صرف سبزے کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ ایک اور بالکل نئی اور عجیب حرکت کی لوگوں کا خیال تھا کہ ٹڈی دل چلا گیا لیکن جب کھیتوں میں دیکھا تو ساری ٹڈیاں زمین کے اندر اپنا پچھلا حصہ گھسائے مری پڑی تھیں نیچے کھودا جاتا تو انڈوں کا ایک گھچا ملتا، فوراً اعلانات ہوئے، لوگ نکل پڑے ہم اسکول کے بچوں کو بھی ''کھرپیاں'' دے کر انڈے نکالنے پر لگا دیا گیا، بڑوں کی ہدایت کے مطابق ہم انڈے کھودتے اور جمع کرتے پھر انڈوں کو دھوپ میں پھیلا کر بیکار کیا جاتا تھا۔
لوگ خوش تھے کہ ''بلا'' سے چھٹکارا مل گیا لیکن ''بلاؤں'' سے اتنا آسان چھٹکارا ملتا اور جب بلائیں بھی ''سبز'' رنگ کی ہوں تو آج پاکستان والے بے چارے زندہ ہوتے اور سبز ٹڈیوں کی تیسری چوتھی نسل کا کھاجا نہ بنتے، اچانک زمین سے چھوٹے چھوٹے کالے کالے ٹڈیوں کے بچے نکلنا شروع ہو گئے اتنی زیادہ تعداد میں زمین سیاہ نظر آنے لگی لوگ پھر نکل پڑے چند لوگ آگے گڑھے کھودتے اور ہم بچے درختوں کی شاخوں سے ان بچوں کو کڈھیرتے اور جب وہ گھڑے میں گھر جاتے تو ایک اور پارٹی مٹی ڈال دیتی یوں بڑی مشکل سے ٹڈیوں کی دوسری نسل کا خاتمہ ہو پایا، کاش پاکستان والوں نے بھی یہی کچھ کیا ہوتا تو ... تو ٹڈیوں کے ''دل پر دل'' حملہ آور نہ ہوتے اور بے چارے پاکستانی اتنے ٹنڈ منڈ نہ ہوتے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب ٹڈیاں چر گئیں کھیت، بلکہ ہمیں تو یوں لگ رہا ہے جیسے پاکستان کو ٹڈیوں کے دلوں نے اپنے فارم کے طور پر چن لیا ہو کیونکہ نسل پر نسل پیدا ہو رہی ہے اور جب بھی تھوڑی سی کمی دکھائی دیتی ہے تو نئے نئے انڈے بچے ''دساور'' سے منگوا لیے جاتے ہیں جیسا کہ اب کچھ دنوں بعد ہم دیکھیں گے کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کہ بلدیاتی نرسری سے نئی ترقی دادہ قسم کی ٹڈیاں نکل پڑیں گی
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ''ناخن'' نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
ایک ماہر ''ٹڈیات'' نے کہا ہے کہ اب کے بلدیاتی نرسری سے یہ جو نئی ترقی دادہ قسم کی ٹڈیاں آنے والی ہیں یہ پچھلی تمام نسلوں کی ٹڈیوں سے زیادہ خطرناک ہوں گی کیوں کہ ایک تو ان کو رنگ بدلنے میں ملکہ حاصل ہو گا اور دوسرے ان کی پرورش انتہائی ''شرم پروف'' مقویات سے ہوئی ہے، ان پر نہ تو کوئی دوا کارگر ہو گی اور نہ ہی کوئی اور اپائے کیا جا سکے گا کیوں کہ ان میں ایک خاص وصف یہ بھی ہو گا کہ خطرناک دوائیاں ان کا کھاجا ہوں گی، نیب، ریب، اینٹی وینٹی اور ایکس وائی آر ہر قسم کی ادویات سے تو ان کو اور زیادہ قوت اور زیادہ ریزسٹنس ملے گی گویا
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
گھبرایئے نہیں یہ خالص ہماری ہوم میڈ عربی ہے آپ کسی بھی چیز کے اوپر دو پیش لگا کر اسے معرب کر سکتے ہیں، جیسے وزیر، امیر، لیڈر چور، عوام احمق وغیرہ اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اب وہ معمول کی اردو زبان تو یوں ہو گئی جیسے چڑیوں کے آگے ہر وقت کنستر بجا بجا کر انھیں بہرا کر دیا جائے جب کہ یہاں ''کھیت'' پر ایک کے بعد ایک ''ٹڈی دل'' حملہ آور ہو رہے ہیں یعنی
ایک اور ''ٹڈی دل'' کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک ''ٹڈی دل'' سے نمٹا تو میں نے دیکھا
آپ کو ابھی پتہ نہیں کہ آپ تو اس غلط فہمی میں ہیں کہ پرانے ٹڈل آخر کار چرتے چرتے جب اپنا پیٹ بھر لیں گے تو کھیت کو چھٹکارا مل جائے گا اور نئے نئے خوشے پھوٹ کر دوبارہ فصل لہلہا اٹھے گی، لیکن آپ نہیں جانتے کہ ٹڈیاں کبھی مرتی نہیں ہیں کیوں کہ مرنے سے پہلے ہر ٹڈی کم از کم سو انڈے تو زمین میں گاڑ چکی ہوتی ہیں، ہماری موجودہ نسل نے ٹڈی دلوں کو نہیں دیکھا ہو گا اس لیے کچھ ٹڈی دلوں کا بھی بیاں ہو جائے کیوں کہ مستقبل میں ایک مرتبہ پھر ٹڈی دلوں کا زور ہونے والا ہے۔
انڈے گاڑے جا چکے ہیں اور لاروے نکلنے والے ہی ہیں یعنی وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے، اوہ سوری ۔۔۔ شاید آپ اس بات پر ''منفی تنقید'' کے لیے پر تول رہے ہیں کہ ہم نے بات تو چڑیوںٌ چروٌ و چگھٌ کی شروع کی تھی اور پہنچ گئی ٹڈی دل تک تو ''منفی تنقیدی'' کھجلی روک لیجیے کیوں کہ چڑیاں اور ٹڈیاں دونوں بھلے ہی الگ الگ دکھائی دے رہے ہیں لیکن آپس میں قید و حیات و بند غم دونوں کی طرح ایک ہیں دونوں پرندے ہیں لیکن دلوں میں وہ ''شاہین و کرگس'' والا نظریاتی اختلاف نہیں ہے کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
ٹڈی اور چڑیوں میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے دونوں ہی برادر ہیں دونوں ہی ''کھیت'' کے خلاف ایک ہیں دونوں ہی وارداتیے ہیں لیکن دونوں نے آپس میں تقسیم کار کر رکھی ہے جس طرح وزیروں اور افسروں کے باقاعدہ الگ الگ حلقہ ہائے واردات ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح چڑیاں صرف ''دانے دنکے'' پر ہلہ بولتی ہیں اور مجال ہے کہ فصل کا کوئی پتا بھی ہل جائے اسی طرح ٹڈیوں کا نشانہ صرف پتے ہوتے ہیں دانے وغیرہ سے تغرض نہیں کرتی ہیں کچھ لوگ اسے انگریزی میں گڈ گورننس بھی کہتے ہیں۔ اس گڈ گورننس کا نتیجہ ہے کہ ان دونوں کے گزرنے کے بعد کھیت کا ککھ بھی نہیں بچتا جب کہ وزیروں اور افسروں سے پھر بھی کچھ نہ کچھ بچ جاتا ہے یا بچا لیا جاتا ہے تاکہ ''آنے والے' بھی منہ میٹھا اور حلق تر کر سکیں مطلب یہ کہ ان کو یہ فکر بالکل نہیں ہوتی کہ
آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
ہاں وہ ٹڈی دل کی بات تو رہ گئی، ہوتا یوں تھا کہ نہ جانے کہاں سے اچانک کروڑوں اربوں ٹڈیوں کے دل آجاتے تھے اور اپنے پیچھے بربادیاں چھوڑ جاتے تھے کسی درخت کسی فصل اور کسی بھی سبزے کا نام و نشان نہیں رہتا حالانکہ خود اپنا رنگ بھی ''سبز'' ہی ہوتا تھا، پاکستان بنے ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ''ٹڈی دل'' کا حملہ ہو گیا یہاں ہمارا اشارہ ہر گز کسی دوسری ''سبز'' چیز کی طرف نہیں ہے اگر آپ چاہیں تو سبز قدموں سے لے کر ''خط سبزی'' تک کچھ بھی خیال میں لا سکتے ہیں اس ''خط سبزے'' اور ''سبزہ خط'' پر یوں تو اردو فارسی اور دوسری زبانوں میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن ولی دکنی نے کیا خوب کہا ہے کہ
سایہ ہو مرا سبز برنگ پر طوطی
گر خواب میں وہ ''نو خط'' شیرین بچن آوے
خیر یہ تو سبزہ خط اور سبز قدم جانیں لیکن ٹڈی دل کا حملہ جب ہوا تو اس مرتبہ سبز ٹڈی دل نے صرف سبزے کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ ایک اور بالکل نئی اور عجیب حرکت کی لوگوں کا خیال تھا کہ ٹڈی دل چلا گیا لیکن جب کھیتوں میں دیکھا تو ساری ٹڈیاں زمین کے اندر اپنا پچھلا حصہ گھسائے مری پڑی تھیں نیچے کھودا جاتا تو انڈوں کا ایک گھچا ملتا، فوراً اعلانات ہوئے، لوگ نکل پڑے ہم اسکول کے بچوں کو بھی ''کھرپیاں'' دے کر انڈے نکالنے پر لگا دیا گیا، بڑوں کی ہدایت کے مطابق ہم انڈے کھودتے اور جمع کرتے پھر انڈوں کو دھوپ میں پھیلا کر بیکار کیا جاتا تھا۔
لوگ خوش تھے کہ ''بلا'' سے چھٹکارا مل گیا لیکن ''بلاؤں'' سے اتنا آسان چھٹکارا ملتا اور جب بلائیں بھی ''سبز'' رنگ کی ہوں تو آج پاکستان والے بے چارے زندہ ہوتے اور سبز ٹڈیوں کی تیسری چوتھی نسل کا کھاجا نہ بنتے، اچانک زمین سے چھوٹے چھوٹے کالے کالے ٹڈیوں کے بچے نکلنا شروع ہو گئے اتنی زیادہ تعداد میں زمین سیاہ نظر آنے لگی لوگ پھر نکل پڑے چند لوگ آگے گڑھے کھودتے اور ہم بچے درختوں کی شاخوں سے ان بچوں کو کڈھیرتے اور جب وہ گھڑے میں گھر جاتے تو ایک اور پارٹی مٹی ڈال دیتی یوں بڑی مشکل سے ٹڈیوں کی دوسری نسل کا خاتمہ ہو پایا، کاش پاکستان والوں نے بھی یہی کچھ کیا ہوتا تو ... تو ٹڈیوں کے ''دل پر دل'' حملہ آور نہ ہوتے اور بے چارے پاکستانی اتنے ٹنڈ منڈ نہ ہوتے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب ٹڈیاں چر گئیں کھیت، بلکہ ہمیں تو یوں لگ رہا ہے جیسے پاکستان کو ٹڈیوں کے دلوں نے اپنے فارم کے طور پر چن لیا ہو کیونکہ نسل پر نسل پیدا ہو رہی ہے اور جب بھی تھوڑی سی کمی دکھائی دیتی ہے تو نئے نئے انڈے بچے ''دساور'' سے منگوا لیے جاتے ہیں جیسا کہ اب کچھ دنوں بعد ہم دیکھیں گے کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کہ بلدیاتی نرسری سے نئی ترقی دادہ قسم کی ٹڈیاں نکل پڑیں گی
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
زخم کے بھرنے تلک ''ناخن'' نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
ایک ماہر ''ٹڈیات'' نے کہا ہے کہ اب کے بلدیاتی نرسری سے یہ جو نئی ترقی دادہ قسم کی ٹڈیاں آنے والی ہیں یہ پچھلی تمام نسلوں کی ٹڈیوں سے زیادہ خطرناک ہوں گی کیوں کہ ایک تو ان کو رنگ بدلنے میں ملکہ حاصل ہو گا اور دوسرے ان کی پرورش انتہائی ''شرم پروف'' مقویات سے ہوئی ہے، ان پر نہ تو کوئی دوا کارگر ہو گی اور نہ ہی کوئی اور اپائے کیا جا سکے گا کیوں کہ ان میں ایک خاص وصف یہ بھی ہو گا کہ خطرناک دوائیاں ان کا کھاجا ہوں گی، نیب، ریب، اینٹی وینٹی اور ایکس وائی آر ہر قسم کی ادویات سے تو ان کو اور زیادہ قوت اور زیادہ ریزسٹنس ملے گی گویا
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی