سیکولر قومی ریاستیں اور مظلوم انسان

پہلی جنگِ عظیم سے پہلے کی دو تین صدیاں پانچ قوموں کی دنیا بھر پر یلغار کی صدیاں ہیں

theharferaz@yahoo.com

انسانی تہذیب کی ارتقاء اور معاشرتی ترقی کی داستان بیان کرنے والے دانش ور، موجودہ سیکولر قومی ریاستوں کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔ یہ قومی ریاستیں پہلی جنگِ عظیم کے آس پاس دنیا کے نقشے پر اس طرح ابھریں جیسے جھیل کا پانی خشک ہو جائے تو مٹی کی تہہ میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم سے پہلے کی دو تین صدیاں پانچ قوموں کی دنیا بھر پر یلغار کی صدیاں ہیں۔

ان میں تین اقوام، برطانیہ، فرانس اور اسپین تو وسیع علاقوں پر قابض رہیں جب کہ ہالینڈ اور پرتگال نے نسبتاً کم علاقے اپنے زیرنگیں کیے۔ان تمام اقوام نے آسٹریلیا سے لے کر امریکا کے مغربی ساحلوں تک ہر جگہ کبھی تجارت اور کبھی براہِ راست جنگ کے ذریعے علاقوں پر قبضہ کیا، ان کے وسائل کو لوٹا، وہاں سے انسانوں کی کثیر تعداد کو غلام بنا کر اپنے ملکوں میں لے جایا گیا اور اس لوٹ مار سے اپنے چھوٹے چھوٹے مغربی ممالک کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تبدیل کر لیا ۔

جب یورپ کے یہ چھوٹے چھوٹے ملک دنیا بھر کی لوٹ مار سے ترقی کی منازل طے کر گئے تو پھر ایک خاص منصوبے کے تحت انسانوں کو سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم کر کے زمین پر مصنوعی لکیریں کھینچ دی گئیں۔ یہ لکیریں آج بھی مصنوعی ہیں، اگر ان لکیروں کے دونوں جانب چاک و چوبند افواج کے مسلح دستے نہ کھڑے ہوں اور ایک جانب سے دوسری جانب جانے والوں کو زبردستی نہ روکیں۔جنگِ عظیم اوّل ختم ہوئی تو ان تمام سیکولر قومی ریاستوں کی ایک انجمن بنائی گئی جسے لیگ آف نیشنز کہتے تھے۔

اس ادارے کا بنیادی مقصد ان مصنوعی لکیروں کے تقدس، حرمت اور قانونی حیثیت کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کروانا تھا۔ اسی اصول کے تحت1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن، لیگ آف نیشنز میں پیش ہوا۔1924ء تک ویزا ریگولیشن بنائے گئے اور پھر بارڈر سیکیورٹی فورسز نے ہر سیکولر قومی ریاست کی لکیریں جنھیں عالمی سرحدیں کہا گیا تھا، ان کے تحفظ کے لیے بندوقیں تان لیں۔پوری دنیا انسانوں کے ایک بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دی گئی۔ ہر ملک ایک بہت بڑا پنجرہ تھا، جس میں قید انسان اگر بغیر اجازت دوسرے پنجرے کی طرف گئے ،تو قید کر دیے گئے ، واپس دھکیل دیے گئے یا گولیوں سے بھون دیے گئے۔

ان پنجروں کو سیکولر بنیادوں پر اس لیے استوار کیاگیا، یا پھر یہ حدود سیکولر بنیادوں پر اس لیے زمین پر کھینچی گئیں، تاکہ انسانوں میں موجود نسل، رنگ ، زبان اور علاقے کا نفرت انگیز تعصب ابھر کر سامنے آئے اور وہ اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں سے اس قدر نفرت کریں کہ ان کو قتل کرنے، ان کے گھر اجاڑنے، کھیتوں کو آگ لگانے اور شہر برباد کرنے میں بھی سکون حاصل کریں۔ سیکولر قومی ریاستوں کے اس جذبہ نفرت و تعصب کا اظہار پہلی دفعہ جنگ عظیم اوّل میں ہوا۔

کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ سرحدوں کی حرمت اور تقدس کی قسمیں کھائی گئیں، لیکن صرف تیس سال بعد جنگِ عظیم دوم میں ایک بار پھر کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا، ہزاروں شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے، کروڑوں بے گھر اور خانماں برباد ہوگئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی ریاستوں کو سیکولر کیوں رکھا گیا۔ اس لیے کہ اگر کہیں بھی انسانی اقدار، انسانی جان کا احترام اور انسانیت کی مدد کے اصول دستیاب ہیں تو وہ مذاہب میں ملتے تھے۔

عسیائیت ہو یا یہودیت، بدھ ہو یا جین مت، ہندو ازم ہو یا اسلام، ان سب کی کتابوں اور ان کی صدیوں کی تعلیمات میں انسانوں کی مدد اور خیر خواہی کا درس ضرور موجود ہے۔ کم ازکم اپنے ہم مذہب بھائی کے لیے تو ہر مذہب میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔لیکن سیکولر قومی ریاست کا کمال یہ تھا کہ جرمن اور فرانس دونوں ایک کا کیشئن نسل سے تھے، ایک مذہب کے پیر وکار تھے، مدتوں ایک ہی رومی سلطنت کا حصہ تھے، لیکن سرحدوں کے تحفظ نے انھیں درندہ بنا دیا۔


سرحدوں کے تقدس اور سیکولر قومی ریاستوں کے تحفظ سے جنم لینے والی درندگی کی مثال اس وقت بحرہند کے سمندروں میں برما سے بھاگے ہوئے روہنگا مسلمانوں کی بھٹکتی ہوئی کشتی میں سوار عورتیں، مرد اور بچے ہیں۔ تھائی لینڈ کے ساحلوں سے گذرتے ہوئے یہ لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے تھے، جب بی بی سی کے ایک صحافی نے ان کی فلم بندی کی ۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں برما اپنا شہری تصور نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش جن پر اپنے دروازے بند کر چکا۔ پیاس میں تڑپتے ہوئے بچے، بھوک سے نڈھال مرد اور عورتیں، جزائر انڈیمان کے نزدیک چودہ مئی کو انھیں دیکھا گیا۔

انڈونیشیا کی حکومت نے کہا کہ ان کو ساحل پر اترنے میں مدد دینے والے کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ ایک کشتی تھی جس میں370مرد اور بچے سوار تھے۔اس وقت تقریباً اس طرح کی تیس کشتیاں جن میں دس ہزار لوگ سوار ہیں، سمندر میں سرگرداں ہیں کہ کسی ملک کی سرزمین انھیں پناہ دے۔ سات دن بعد اس ایک کشتی کے تین سو ستر مسافروں کو ملائیشیا نے اس شرط پر اترنے دیا کہ انھیں واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گا۔

وہ برما جو انھیں اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتا اور جہاں ان کا قتل عام ہو رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب برما کے ان روہنگا مسلمانوں کو ملائیشیا کے ساحل پر اتارا گیا تو اس میں بنگلہ دیش کے لوگ بھی شامل تھے۔ وہ بنگلہ دیش جسے ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے عظیم دانش ور یہ کہتے تھے کہ مغربی پاکستان ان کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔

1971ء میں آزادی کے بعد اس بنگلہ دیش کی حالت یہ ہوئی کہ تقریباً نوے لاکھ بنگالی بھارت میں معمولی نوکری کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر آباد ہیں اور دس لاکھ بنگالی عورتیں دنیا کے بازاروں میں بیچی جا چکی ہے۔ ان بھٹکتی ہوئی کشتیوں میں نامعلوم کتنے بنگلہ دیشی ہوں گے جو خوف اورمعاشی مجبوری کے ہاتھوں پناہ ڈھونڈ رہے ہوں گے۔

دوسرا تماشہ اس سمندر میں لگا ہوا ہے جو مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، شام اور مراکش کو ایک جانب سے چھوتا ہے اور دوسری جانب اسپین، اٹلی، یونان اور یورپ کے ساحلوں پر ختم ہوتا ہے۔ یہ وہ سمندر جس کے ساتھ آباد ممالک سے کبھی امریکا اور یورپ کے سفاک انسانی اسمگلر افریقی غلاموں کو زنجیروں میں جکڑ کرلے جایا کرتے تھے اور اپنے ملکوں میں بیچ دیتے تھے۔ آج یورپی یونین نے اقوام متحدہ سے اجازت مانگی ہے کہ افریقہ اور مشرقِ وسطی سے آنے والی کشتیوں پر فوجی طاقت استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

اس سال اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ساٹھ ہزار افراد نے اس سمندر کو عبور کر کے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کی جن میں سے تیس ہزار کے قریب افراد سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے۔ جب کے International organization for migration کے مطابق2014میں تین ہزار دوسو اناسی(3279) افراد یہ سمندر عبور کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن گئے۔ یہ سب لوگ شام ،لیبیا، صومالیہ، اوسیٹریا، نائیجریا اور دیگر ممالک سے ہیں۔ یہ وہ تمام ممالک ہیں جنھیں سیکولر قومی ریاستوں کے نام پر تقسیم کیا گیا۔ افریقہ کے نقشے کو ایسے کاٹا گیا جیسے میز پر کیک رکھ کر کاٹا جاتا ہے۔

پھر ان ممالک پر خانہ جنگی مسلط کی گئی۔ انھیں معاشی طور پر لوٹ کر قحط کا شکار کیا گیا اور آج وہاں کے عوام اپنے ملکوں سے خوف ، بدامنی اور بھوک کی وجہ سے بھاگ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان ممالک سے انسانوں کو ایسے پکڑا جاتا تھا جیسے جنگلوں میں جانوروں کو جال لگا کر پکڑا جاتا ہے۔پھر ان کو زنجیروں سے باندھ کر غلام بنا کر لے جایا جاتا تھا۔ ان لوگوں کی محنت سے امریکا کے مسس سپی کی زمینیں آباد ہوئیں اور یورپ کے شہروں کی رونقیں ان کے خون پسینے کی بدولت ہیں۔ آج یہ لوگ اسی یورپ کی جانب جاتے ہیں تو انھیںسمندر کی لہروں میں غرق کر دیا جاتا ہے۔ سیکولر قومی ریاستوں کا یہ خوفناک منظر، انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

لیکن کیا ستاون اسلامی ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو اندازہ ہے کہ اگر روز حشر اللہ نے یہ سوال کر لیا کہ جس دن ہزاروں روہنگا مسلمان بھوک اور پیاس سے مجبور ہو کر سمندر میں دم توڑ رہے تھے اور تم آرام دہ کمروں میں بیٹھے، شاندار مرغن کھانوں سے لطف انداز ہو رہے تھے۔ جب ان کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے اور تم اپنے بچوں کو زندگی کو آسائشوں سے بہرہ مند کر رہے تھے۔ ایسے میں حشر کی گرمی اور میزان عدل کی موجودگی میں ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے پاس کوئی جواب ہوگا۔سوچئے تو شاید اس بات کا جواب بھی مل جائے کہ ہم پر عذاب کیوں نازل ہوتے ہیں۔
Load Next Story