کارگل جنگ پر تقریر
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جنرل پرویز مشرف نے جو آجکل پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے ہیں‘
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جنرل پرویز مشرف نے جو آجکل پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے ہیں' انھوں نے کارگل جنگ پر ایک تقریر کیوں کی، جسے میں نے ٹیلی ویژن چینل پر دیکھا ہے۔ ممکن ہے کہ وزیراعظم نواز شریف دباؤ میں ہوں جس کی وجہ سے مشرف حقائق سے برعکس بات کر رہے ہیں۔
یقیناً نواز شریف کو یاد ہو گا کہ انھیں جنرل مشرف کی طرف سے فوجی بغاوت کے بعد کس طرح ان کے منصب سے ہٹایا گیا تھا' تاہم وزیر اعظم پاکستان نے 4 جولائی کو امریکی صدر بل کلنٹن سے مداخلت کی درخواست کی حالانکہ بل کلنٹن امریکا کے یوم آزادی کے موقع پر حد سے زیادہ مصروف تھے جب کہ نواز شریف چاہتے تھے کہ وہ اہم معاملے پر ان سے ملاقات کریں۔ صدر کلنٹن نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو ٹیلی فون کر کے مسئلہ حل کروایا۔
درحقیقت صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب My Life (میری زندگی) میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں درج کیا ہے ''پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے مجھ سے فون پر کہا کہ کیا وہ 4 جولائی کو واشنگٹن آ سکتے ہیں کیونکہ بھارت کے ساتھ ایک بہت خطرناک معاملہ درپیش آ گیا ہے۔
پاکستانی افواج نے کئی روز قبل جنرل پرویز مشرف کی کمان میں کنٹرول لائن کو عبور کر لیا تھا جو کہ 1972ء سے پاکستانی اور بھارتی کشمیر میں سرحد کا درجہ رکھتی تھی۔ نواز شریف کو تشویش تھی کیونکہ صورت حال قابو سے باہر ہو رہی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ میں اس بحران کے حل میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کروں''۔
امریکی صدر نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ نواز شریف کی یہ پیش قدمی حیران کن تھی کیونکہ فروری کے مہینے میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا سفر کیا تھا تا کہ کشمیر کے مسئلے اور دیگر معاملات کے حل کے لیے بات چیت کی جائے، لیکن پاکستان نے حالات خراب کر لیے۔
اس کے باوجود جنرل مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے کارگل میں ''بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا۔'' انھوں نے ایک ''دوسری فورس'' کی تشکیل کا دعویٰ بھی کیا۔ واضح رہے یہ پہلا موقع ہے کہ جنرل مشرف نے ''دوسری فورس'' کے وجود کو تسلیم کیا ہے جس سے نان اسٹیٹ ایکٹرز مراد لی جا سکتی ہے۔ حالانکہ یہ وہ بات ہے جس کا بھارت کافی طویل عرصے سے الزام عاید کرتا رہا ہے لیکن اسلام آباد سے اس کی تردید ہوتی رہی۔ جنرل مشرف کی تقریر پاکستانی سامعین کے لیے تھی تاکہ اپنے ملک میں ان کی ساکھ بحال ہو سکے جہاں انھیں 1999ء کی شکست کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔
ان کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس زمانے کے بھارتی کمانڈروں نے بڑی سختی سے جنرل مشرف کے دعوے کی تردید کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقائق کو جھٹلانے کا مقصد یہ ہے کہ جنرل مشرف نے سارا قصور پاکستانی سیاست دانوں پر عاید کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ سیاستدانوں نے فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا۔
یہ درست ہے کہ بھارت نے اس بات کو کبھی ظاہر نہیں کیا کہ انھوں نے اپنا کتنا علاقہ کھو دیا ہے اور نہ ہی پاکستان نے یہ بتایا کہ انھوں نے وہاں پر کیا حاصل کیا۔ پاکستان میں میڈیا کو بتایا گیا کہ انھوں نے ''ٹائیگر ہل'' پر مکمل قبضہ کر لیا ہے لیکن شاید یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ اگر پاکستانیوں کو حقیقت حال بتا دی جاتی تو غالباً ان کے جذبات اتنے مجروح نہ ہوتے جتنے کہ اب ہیں۔
جنرل مشرف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کی نگاہوں میں اپنی ساکھ کس طرح بحال کریں۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ پاکستانی میڈیا نے جنرل مشرف کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ بدستور تنقید کا ہدف بنے ہوئے ہیں اور ان کے حالیہ دعوے کو کوئی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ لیکن پاکستان میں آج اس معاملے پر زیادہ بحث نہیں ہو رہی بلکہ کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈر سید علی گیلانی زیادہ موضوع بحث ہیں اور زیادہ توجہ انھی پر مرکوز ہے۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کی شہریت کو موضوع بحث نہ بنایا جائے کیونکہ وہ جموں و کشمیر کے رہائشی ہیں جو کہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں کشمیری حریت پسند رہنما سید علی گیلانی میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ قبل ازیں وہ اپنی شہریت بلا جھجھک بھارتی بتاتے تھے۔ چند سال پہلے جب میں ان کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقات کرتا تھا تو انھوں نے کبھی اس بارے میں بات نہیں کی اگرچہ سیاسی اعتبار سے وہ جمعیت اسلامیہ کے ساتھ ہیں لیکن وہ اپنی وطنیت کا برملا اظہار کرتے تھے آخر اب ان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کیوں ہو گیا ہے۔
یہ ایسا معاملہ ہے جس کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے۔ وہ عمومی طور پر ایسے شخص نہیں ہیں جو محض جذبات میں آ کر کوئی بات کرتے ہیں۔ بھارت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر ان کا پاکستان کی طرف جھکاؤ کیوں ہوا ہے۔ شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ ریاست جموں و کشمیر میں گیلانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
آخر گزشتہ 70 سال میں ان میں یہ تبدیلی کیوں پیدا نہیں ہوئی جب ریاست نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا؟ کیا اس کی وجہ مذہب ہے؟ اگر ایسا ہے تو کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ کالونی بنانے کی تجویز پر کشمیری مسلمانوں کو اس قدر پریشان نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کشمیری مسلمانوں کو پنڈتوں کے بارے میں یہ کہنا چاہیے کہ ''وہ ہمارا حصہ ہیں'' جیسے کہ وہ پہلے تھے۔
کشمیریات کا موضوع صوفی ازم سے نکلا ہے جو کہ اسلام اور ہندو ازم کی اخلاقیات کے اتصال سے پیدا ہوا لیکن ایسے لگتا ہے جیسے کشمیر کے الحاق کے بعد بھارت نے ان اقدار کو فراموش کر دیا۔ ضرورت ان کے دوبارہ احیاء کرنے کی ہے نہ کہ فرقہ واریت کے نظریے کو پروان چڑھانے کی۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)