آخری ادبی میلہ
ہم تو سمجھ رہے تھے کہ میلوں ٹھیلوں کا جو موسم چڑھا تھا وہ اتر چکا ہے
ہم تو سمجھ رہے تھے کہ میلوں ٹھیلوں کا جو موسم چڑھا تھا وہ اتر چکا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ میلوں ٹھیلوں کا موسم بیشک گزر چکا ہو۔ مگر اس کی دم ابھی تڑپ رہی ہے۔ ہاں پہلے تو یہ وضاحت ہو جائے کہ میلے بھی ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔
لاہور میں پہلے تو سب سے بڑھ کر جو میلہ چمکتا تھا وہ میلہ چراغاں تھا۔ اسی قبیل سے اور میلے بھی ہوتے تھے۔ مثلاً بسنت کا میلہ یا قدموں کا میلہ۔مثلاً قدموں کا میلہ جو اب ہم بھول چکے ہیں۔ اب نئے نئے میلے ہیں۔ بلکہ اتنے نئے ہیں کہ میلہ کو اب میلہ نہیں کہا جاتا فیسٹیول کہا جاتا ہے۔ ابھی پچھلے مہینوں میں ہم کتنے کالم لٹریچر فیسٹیول پر باندھ چکے ہیں۔ تو ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ لٹریچر فیسٹیول کی جو بہار آئی تھی وہ اب اجڑ چکی ہے۔
کتنے فیسٹیول ہوئے' کراچی میں' لاہور میں' اسلام آباد میں۔ یہ سارے فیسٹیول والے اپنی اپنی بہار دکھا کر اپنی دکان بڑھا گئے ہیں۔ مگر اکیڈیمی آف لیٹرز کے تازہ دعوت نامے سے پتہ چلا کہ نہیں ایک فیسٹیول ابھی باقی ہے۔ اصل میں اکیڈیمی آف لیٹرز دیر سے جاگی۔ سو ہر چند کہ وہ کراچی میں اسلام آباد میں' لاہور میں اپنے میلے کر چکی ہے مگر کوئٹہ میں جو میلہ ہونا تھا وہ تو ابھی باقی ہے۔ پھر اس کے بعد پشاور میں بھی تو یہ میلہ ہونا ہے۔
اصل میں ہم عادی اس کے چلے آ رہے ہیں کہ بھادوں میں جو میلے لگتے ہیں وہ تو خالص موسمی ہوتے ہیں۔ اسے برکھا بہار کہہ لیجیے۔ اس کے بعد بسنت کا میلہ آ جاتا ہے یا آ جاتا تھا کیونکہ اس میلہ سے تو ہم فراغت پا چکے ہیں۔ اغیار نے اس کے کافرانہ رنگ کا اتنا پروپیگنڈا کیا کہ اہل اقتدار نے سمجھا کہ واقعی یہ بہت بڑا کفر ہے جس میں ہم اہل ایمان ملوث ہو گئے ہیں۔ سو ؎
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
میلہ چراغاں بھی اب پس منظر میں چلا گیا ہے۔
مگر ہم نے جدت طبع دکھائی اور ایک نئے میلہ کا ڈول ڈالا۔ ادب کے نام پر میلہ۔ نام اس کا رکھا لٹریچر فیسٹیول۔ تو ذکر اصل میں لٹریچر فیسٹیول نام کے میلوں کا ہے۔ دوسرے میلوں کی طرح یہ میلے بھی گلابی جاڑوں میں شروع ہو کر اپریل کے آخر تک ختم ہو جاتے ہیں۔ انھیں اس ماہ کے آخر تک ختم ہونا ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد تو مئی کا مہینہ آ جاتا ہے جس کے متعلق اسماعیل میرٹھی کہہ گئے ہیں کہ ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
اور آگے سنئے ؎
چلی لو اور تڑاکے کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمیں ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
مگر یارو یہ کونسی مئی کا ذکر ہے۔ اب کے جو مئی کا مہینہ چڑھا ہے اس کا تو رنگ ہی بد رنگ ہے۔ دھوپ میں ذرا چٹخی آتی ہے تو گھٹا گِھر کے آتی ہے اور بارش ہونے لگتی ہے۔ موسم پھر ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ مئی کے مہینے کو موقعہ ہی نہیں مل رہا کہ وہ اپنی اصلیت دکھائے۔
مئی کا مہینہ لگتا ہی نہیں کہ مئی کا مہینہ ہے۔ پرندے بھی گڑبڑائے ہوئے ہیں خاص طور پر کویل۔ اسی مہینے میں تو کویل کُوکنا شروع کرتی تھی۔ ہم نے ایک صبح بیشک باغ جناح میں کویل کی کُوک سنی تھی۔ مگر اس کے فوراً بعد بارش ہونے لگی۔ موسم ٹھنڈا ہو گیا۔ کویل شرمندہ ہو کر چپ ہو گئی۔ شاید سوچ رہی ہو کہ اس سے چوک ہو گئی۔ اس کے کُوکنے کا موسم ابھی نہیں آیا ہے۔
مگر مئی کے مہینے کی یہی بدرنگی اکیڈیمی آف لٹیرز کو راس آ گئی۔ اس بے اعتبارے موسم پر اکیڈمی کو اتنا اعتبار ہے کہ اس نے اپنے شو کے لیے جون کا پہلا ہفتہ منتخب کیا ہے۔ آگے پھر پشاور میں اس کے شو کا انتظار کیجیے۔
اصل میں اکیڈمی کی اپنی مجبوریاں بھی تو ہیں۔ کتنے عرصے سے تو وہ ویران چلی آ رہی تھی بلکہ نوبت یہ آ گئی تھی کہ پاکستان کے مرحوم اداروں کے ذیل میں اس کا شمار ہونے لگا تھا۔ خدا خدا کر کے مردے میں جان پڑی ہے۔
یہ نو وارد چیئرمین کا کمال ہے۔ انھوں نے آتے ہی اکیڈمی کو ایسا لخلخہ سونگھایا کہ وہ فوراً ہوش میں آ گئی۔ اب چیئرمین صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ اتنے زمانے کے بعد اکیڈمی کو ہوش آیا ہے۔ اسے حرکت میں رکھو۔ چلتی پھرتی رہے گی تو نیند کے غلبہ سے نکلے گی۔ پھر ادیبوں کو بھی تو یہ یقین دلانا ہے کہ اکیڈمی اب واقعی جاگ اٹھی ہے۔ تو انھوں نے سوچا یہ ہے کہ اسے اسلام آباد سے باہر نکالو۔ اسے شہر شہر گھماؤ۔ جلسوں کا سلسلہ جاری رکھو۔ کل کراچی میں آج لاہور میں اگلا ہفتہ کوئٹہ میں۔ پھر اسے پشاور کی سیر کراؤ۔
لاہور میں اکیڈمی نے جو سیمینار منعقد کیا تھا اس کا موضوع تھا کہ پرامن معاشرے کے قیام میں ادیبوں کا کردار۔ اب کسی سیمینار میں یہ بھی تو بحث ہونی چاہیے کہ معاشرے کے امن کو تباہ کرنے میں کس گروہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ تب ہی تو یہ بحث اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ ہم بالعموم یہ بحث کر کے رک جاتے ہیں کہ ادیب معاشرے کی تعمیر میں یا قیام امن کے عمل میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ آخر یہ بھی تو پتہ چلنا چاہیے کہ معاشرے کی تعمیر میں یا قیام امن کے عمل میں کون لوگ کھنڈت ڈالتے ہیں۔
لاہور میں پہلے تو سب سے بڑھ کر جو میلہ چمکتا تھا وہ میلہ چراغاں تھا۔ اسی قبیل سے اور میلے بھی ہوتے تھے۔ مثلاً بسنت کا میلہ یا قدموں کا میلہ۔مثلاً قدموں کا میلہ جو اب ہم بھول چکے ہیں۔ اب نئے نئے میلے ہیں۔ بلکہ اتنے نئے ہیں کہ میلہ کو اب میلہ نہیں کہا جاتا فیسٹیول کہا جاتا ہے۔ ابھی پچھلے مہینوں میں ہم کتنے کالم لٹریچر فیسٹیول پر باندھ چکے ہیں۔ تو ہم یہی سمجھ رہے تھے کہ لٹریچر فیسٹیول کی جو بہار آئی تھی وہ اب اجڑ چکی ہے۔
کتنے فیسٹیول ہوئے' کراچی میں' لاہور میں' اسلام آباد میں۔ یہ سارے فیسٹیول والے اپنی اپنی بہار دکھا کر اپنی دکان بڑھا گئے ہیں۔ مگر اکیڈیمی آف لیٹرز کے تازہ دعوت نامے سے پتہ چلا کہ نہیں ایک فیسٹیول ابھی باقی ہے۔ اصل میں اکیڈیمی آف لیٹرز دیر سے جاگی۔ سو ہر چند کہ وہ کراچی میں اسلام آباد میں' لاہور میں اپنے میلے کر چکی ہے مگر کوئٹہ میں جو میلہ ہونا تھا وہ تو ابھی باقی ہے۔ پھر اس کے بعد پشاور میں بھی تو یہ میلہ ہونا ہے۔
اصل میں ہم عادی اس کے چلے آ رہے ہیں کہ بھادوں میں جو میلے لگتے ہیں وہ تو خالص موسمی ہوتے ہیں۔ اسے برکھا بہار کہہ لیجیے۔ اس کے بعد بسنت کا میلہ آ جاتا ہے یا آ جاتا تھا کیونکہ اس میلہ سے تو ہم فراغت پا چکے ہیں۔ اغیار نے اس کے کافرانہ رنگ کا اتنا پروپیگنڈا کیا کہ اہل اقتدار نے سمجھا کہ واقعی یہ بہت بڑا کفر ہے جس میں ہم اہل ایمان ملوث ہو گئے ہیں۔ سو ؎
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
میلہ چراغاں بھی اب پس منظر میں چلا گیا ہے۔
مگر ہم نے جدت طبع دکھائی اور ایک نئے میلہ کا ڈول ڈالا۔ ادب کے نام پر میلہ۔ نام اس کا رکھا لٹریچر فیسٹیول۔ تو ذکر اصل میں لٹریچر فیسٹیول نام کے میلوں کا ہے۔ دوسرے میلوں کی طرح یہ میلے بھی گلابی جاڑوں میں شروع ہو کر اپریل کے آخر تک ختم ہو جاتے ہیں۔ انھیں اس ماہ کے آخر تک ختم ہونا ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد تو مئی کا مہینہ آ جاتا ہے جس کے متعلق اسماعیل میرٹھی کہہ گئے ہیں کہ ؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
اور آگے سنئے ؎
چلی لو اور تڑاکے کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمیں ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
مگر یارو یہ کونسی مئی کا ذکر ہے۔ اب کے جو مئی کا مہینہ چڑھا ہے اس کا تو رنگ ہی بد رنگ ہے۔ دھوپ میں ذرا چٹخی آتی ہے تو گھٹا گِھر کے آتی ہے اور بارش ہونے لگتی ہے۔ موسم پھر ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ مئی کے مہینے کو موقعہ ہی نہیں مل رہا کہ وہ اپنی اصلیت دکھائے۔
مئی کا مہینہ لگتا ہی نہیں کہ مئی کا مہینہ ہے۔ پرندے بھی گڑبڑائے ہوئے ہیں خاص طور پر کویل۔ اسی مہینے میں تو کویل کُوکنا شروع کرتی تھی۔ ہم نے ایک صبح بیشک باغ جناح میں کویل کی کُوک سنی تھی۔ مگر اس کے فوراً بعد بارش ہونے لگی۔ موسم ٹھنڈا ہو گیا۔ کویل شرمندہ ہو کر چپ ہو گئی۔ شاید سوچ رہی ہو کہ اس سے چوک ہو گئی۔ اس کے کُوکنے کا موسم ابھی نہیں آیا ہے۔
مگر مئی کے مہینے کی یہی بدرنگی اکیڈیمی آف لٹیرز کو راس آ گئی۔ اس بے اعتبارے موسم پر اکیڈمی کو اتنا اعتبار ہے کہ اس نے اپنے شو کے لیے جون کا پہلا ہفتہ منتخب کیا ہے۔ آگے پھر پشاور میں اس کے شو کا انتظار کیجیے۔
اصل میں اکیڈمی کی اپنی مجبوریاں بھی تو ہیں۔ کتنے عرصے سے تو وہ ویران چلی آ رہی تھی بلکہ نوبت یہ آ گئی تھی کہ پاکستان کے مرحوم اداروں کے ذیل میں اس کا شمار ہونے لگا تھا۔ خدا خدا کر کے مردے میں جان پڑی ہے۔
یہ نو وارد چیئرمین کا کمال ہے۔ انھوں نے آتے ہی اکیڈمی کو ایسا لخلخہ سونگھایا کہ وہ فوراً ہوش میں آ گئی۔ اب چیئرمین صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ اتنے زمانے کے بعد اکیڈمی کو ہوش آیا ہے۔ اسے حرکت میں رکھو۔ چلتی پھرتی رہے گی تو نیند کے غلبہ سے نکلے گی۔ پھر ادیبوں کو بھی تو یہ یقین دلانا ہے کہ اکیڈمی اب واقعی جاگ اٹھی ہے۔ تو انھوں نے سوچا یہ ہے کہ اسے اسلام آباد سے باہر نکالو۔ اسے شہر شہر گھماؤ۔ جلسوں کا سلسلہ جاری رکھو۔ کل کراچی میں آج لاہور میں اگلا ہفتہ کوئٹہ میں۔ پھر اسے پشاور کی سیر کراؤ۔
لاہور میں اکیڈمی نے جو سیمینار منعقد کیا تھا اس کا موضوع تھا کہ پرامن معاشرے کے قیام میں ادیبوں کا کردار۔ اب کسی سیمینار میں یہ بھی تو بحث ہونی چاہیے کہ معاشرے کے امن کو تباہ کرنے میں کس گروہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ تب ہی تو یہ بحث اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ ہم بالعموم یہ بحث کر کے رک جاتے ہیں کہ ادیب معاشرے کی تعمیر میں یا قیام امن کے عمل میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ آخر یہ بھی تو پتہ چلنا چاہیے کہ معاشرے کی تعمیر میں یا قیام امن کے عمل میں کون لوگ کھنڈت ڈالتے ہیں۔