آزادیِ اظہار اور مساوات
بائبل میں ہے ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ انسانوں کے سارے گناہ اور جتنا کفر وہ بکتے ہیں، معاف کیا جائے گا"
یومِ عشقِ رسول کے موقعے پر حکومتی رِٹ کو جو روندا گیا، اس موضوع پر مزید کچھ عرض کرنے سے قبل ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اہانتِ خدا و رسول کے موضوع پر عیسائیت اور یہودیت کی فکر کا بھی تذکرہ کردیا جائے۔
بائبل میں ہے ''میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ انسانوں کے سارے گناہ اور جتنا کفر وہ بکتے ہیں، معاف کیا جائے گا۔ لیکن پاک روح کے خلاف کفر بکنے والاایک ابدی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے اسے کبھی معاف نہ کیا جائے گا۔ (مرقُس3:28-29)
تھامس ایکونس کہتا ہے ''یہ واضح ہے کہ اہانت، خدا کے حضور کیا جانے والا براہِ راست گناہ ہے۔ یہ قتل سے بھی زیادہ شدید گناہ ہے۔'' کتاب 'کونکورڈیا' میں اسے عظیم ترین گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہودیوں کے نزدیک بھی شاتمِ خدا و رسول کی سزا موت ہے۔ تورات میں درج ہے ''اور جو کوئی خداوند کے نام پر کفر بکے وہ ضرور جان سے مارا جائے اور پوری جماعت اسے ضرور سنگسار کرے اور خواہ کو ئی دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام لیتے وقت گستاخی کرے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ پھر موسیٰ نے بنی اسرائیل سے بات کی اور انھوں نے اس کفر بکنے والے کو لشکر گاہ سے باہر لے جا کر سنگ سار کردیا اور بنی اسرائیل نے ویسا ہی کیا جیسا کہ خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا۔'' (اِحبار24:16)
زمانہ قدیم ہی سے مذاہب اور تہذیبوں میں اہا نتِ الٰہی اور شتمِ پیمبر عظیم ترین گناہ شمار ہوتے ہیں۔ اس قانون کے تحت برطانیہ میں قتل ہونے والا آخری فرد تھامس ایکن ہیڈ تھا۔ اسے 20 برس کی عمر میں 1697 میں پھانسی دی گئی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے عہد نامہ عتیق اور یسوع مسیح کے معجزوں کا انکار کیا تھا۔
مسلمانوں کے نزدیک بھی اہانتِ خداوندی اور شتمِ رسولﷺ ایک شدید گناہ ہے۔ جامعہ اشرف المدارس کے حضرت مفتی محمد نعیم صاحب نے فرمایا کہ دو مسئلوں کو الگ الگ کرلیں ایک ہے انکارِ رسالت اور ایک ہے توہینِ رسالت۔ انکارِ رسالت پر دنیا میں کوئی سزا نہیں، جو بھی معاملہ ہوگا وہ قیامت کے روز اﷲ تبارک و تعالیٰ فرمائیں گے۔ جب کہ توہینِ رسالت پرسزا ہے، اور توہینِ رسالت کی سزا موت بھی کم ہے۔ بعض تجدد پسند انکارِ رسالت کے دلائل توہین کے معاملات میں بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں جو درست نہیں۔ عام خیال ہے کہ نبی آخرالزماں ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر سب کو معاف فرما دیا تھا، یہ درست نہیں۔ آنجناب ﷺ نے ایذا پہنچانے والوں اور برسرِپیکار رہنے والوںکے عفوِ عام کا اعلان کیا تھا لیکن شتمِ رسول کے 15 یا 16 افراد کے قتل کے احکامات صادر فرمائے تھے کہ جہاں کہیں ملیں قتل کر دیے جائیں، یہاں تک کہ ابنِ خطل حجرِاسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان خاص آپ ﷺ کے حکم سے قتل ہوا۔
اور اب ذرا بات ہو جائے ان مطالبات کی جو عالمِ اسلام کے راہ نمایان اور لکھنے اور بولنے والے اقوامِ متحدہ اور OIC سے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس موقعے پر ہمارے وزیراعظم راجا پرویز اشرف بھی اقوامِ متحدہ اورعالمی برادری سے مطالبہ کرتے نظر آئے۔ آپ نے کہا ''ایسا قانون بنایا جائے جس کے ذریعے نفرت پھیلانے والی تقاریر اور مواد پر پابندی عائد کی جاسکے تاکہ گستاخانہ اقدامات سے مسلمانوں کے جذبات مجروح نہ ہو سکیں''۔ اقوامِ متحدہ، مغرب اور عالمِ اسلام سب کے سب اقوامِ متحدہ کے منشور حقوقِ انسانی کو ماننے والے اور دستخط کنندہ ہیں۔ حقوق انسانی کے تحت تمام انسان برابر ہیں، نہ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ فضیلت۔
اصول یہ ہے کہ سب عقول برابر ہیں۔ سول سوسائٹی میں کوئی بھی مقدس نہیں ہوا کرتا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تحت جب سب برابر ہیں تو اگر اوباما کا کارٹون بن سکتا ہے تو کسی کو بھی کسی کا کارٹون بنانے، ناول لکھنے، یا فلم بنانے سے کس دلیل سے روکا جائے گا؟ یہ ہی سبب ہے کہ مغرب ہماری بات کو رد کر دیتا ہے۔ یاد کیجیے مارچ 2010 جب پاکستان نے اسلامی کانفرنس کی جانب سے اقوامِ متحدہ ہیومن رائٹس کمیشن میں ایک قرار داد COMBATING DEFAMATION OF RELIGIONS پیش کی تھی تو فرانسیسی سفیر جین بپتست میتی نے یورپی یونین کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہتک، حقوقِ انسانی کے ذیل میں نہیں آتی کیوں کہ یہ آزادی اظہارِ رائے کے حق سے متصادم ہے''۔
امریکی سفیر ایلن ڈونہے نے بھی قرار داد کومسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہم اتفاق نہیں کرسکتے کہ آزادی اظہار پر قدغن سے رواداری میں اضافہ ہوسکتا ہے۔'' دوسرا سوال یہ ہے کہ جب مسلمان اورغیر مسلمان سب ہی آزادی اظہارِ رائے کے قائل ہیں، تومغرب یہ سوال کرتا ہے کہ آپ ہوتے کون ہیں کسی کے آزادی کے حق کو سلب کرنے والے؟ یو ٹیوب کہتا ہے broadcast yourself آپ اس کی اِس رِٹ کو تسلیم کرکے اسے اپنے گھر لے آئے۔ اب دنیا بھر میں جو بھی خرافات براڈکاسٹ ہو آپ اسے کس دلیل سے روکیں گے؟ ہولوکاسٹ کے حوالے سے عمران خان اور وزیرِاعظم وغیرہ ایک بے تکی بات کہتے نظر آتے ہیں۔ انھیں اتنا بھی پتا نہیں کہ یوٹیوب ہی پر ہولوکاسٹ کے خلاف بیسیوں چیزیں موجود ہیں اور ہٹلر کے خلاف کیا کیا نہیں لکھا گیا۔ لیکن اس سب سے قطعِ نظر ہمارا سوال یہ ہے کہ اصول کیا ہے؟ اگر آج مغرب کے کچھ یا سب ممالک ہولوکاسٹ پربات کی غیر مشروط کھلی اجازت دے دیں تو کیا شانِ رسالتﷺ پر برداشت جائز ہو جائے گی؟
دوسری بات ہمارے اور عالمِ اسلام کے لیڈرانِ کرام، دانشور اور فضلا اقوامِ متحدہ اور او آئی سی سے جو قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں ذرا یہ تو سوچیں وہ قانون کیا ہو گا؟ کیا قانون حضرت محمد ﷺ کے بارے میں specific ہوگا؟ یا تمام مذاہب کے لیے ہوگا؟ UNHRC میں جو قرار دادیں ہیں وہ تمام مذاہب کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ وہاں دیگر مذاہب اور لبرلز کے سامنے آپ کیا دلیل لائیں گے؟ آپ کو فلم، کہانی اور کارٹون پر اعتراض ہے، اگر لبرل یہ کہہ دیں کہ جناب قرآن میں تو مسلمانوں کو براہِ راست حکم ہے کہ تم پر قتال فرض کیا گیا، ایسی تعلیمات سے عالمی امن اور دیگر مذاہب و افراد کو خطرہ ہے، تو آپ کہاں کھڑے ہوں گے؟
واقعہ یہ ہے کہ مغرب کی نام نہاد آزادی نے مسلمانوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کرتے کہ حقوقِ انسانی کو redefine کیا جائے۔ آزادی اظہار کی تعبیرِ نو کی جائے۔ نبی اور غیرِ نبی کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ انسانوں میں مساوات ممکن ہی نہیں۔ اگر کسی کو اشتباہ ہے تو equality پر Peter Singer ہی کو پڑھ لے۔
جان لیجیے کہ جب تک حقوقِ انسانی،آزادی اظہارِ رائے اور مساوات کی تعبیرِنو نہیں ہوگی، اہانت کے قبیح سلسلے کو روکنا تو دور آپ کی بات بار نہیں پاسکتی۔ عشقِ رسول کے نام پر احتجاج، جلسے جلوس اور الفاظ کے گولے داغنا آسان ہے، لیکن عشقِ رسولﷺ میںکارِ رسالت کی اعانت سہل نہیں۔