قوم کی زبان
کسی قوم کی تشکیل میں مذہب، زبان اور ثقافت کے عناصر ثلاثہ کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے
کسی قوم کی زندگی میں زبان دلوں کی زنجیر ہوتی ہے۔
زبان کی تاثیر سے وحدت کا دائرہ تشکیل پاتا ہے اور قومی وحدت کوئی معمولی بات نہیں، اس کا براہِ راست تعلق سالمیت سے ہوتا ہے، جسے ٹکڑیوں میں بانٹ کر قومی شعور اور قومی یکسوئی پر نقب لگانے کا وار کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس زبان حب وطن کا آلہ ہے۔ زبان تخیل کا سرچشمہ ہوتی ہے اور زبان ہی فہم و ادراک کے مراحل طے کراتی ہے یعنی ہم زبان کی مدد سے سوچتے ہیں اور زبان ہی کی مدد سے سمجھتے ہیں، یہ زبان کی وہ روحانی خاصیت ہے جس کی حد میں آپ مچل سکتے ہیں لیکن نکل نہیں سکتے۔ کسی قوم سے اگر اس کی قومی زبان کو چھین لیا جائے تو یہ گویا اسے گونگا، بہرا اور ذہنی طور پر مفلوج کردینے کے مترادف ہے۔
کسی قوم کی تشکیل میں مذہب، زبان اور ثقافت کے عناصر ثلاثہ کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بابائے قوم نے اسلام کو سرکاری مذہب اور اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ اب یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ برس ہا برس گزر جانے کے باوجود بھی ہم بہ حیثیت قوم اس قوت اکائی پر مرتکز ہونے کی سعادت سے محروم ہیں، لیکن اس محرومی کے باوصف دو باتیں اہم ہیں کہ بابائے قوم کے تدبر اور حکمت عملی کا ہم پر احسان ہے کہ اردو کو قومی زبان قرار دینے سے انتشار اور تعصب کی زہریلی بحث اور سیاست کا ایک باب بند ہوگیا اور اردو کی اس مستند حیثیت کو قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے اسے بہرحال رد نہیں کیا جاسکتا۔
آج ہم نے زبانِ غیر کو علمی اور عالمی جتلا کر قوم کو ایک بے معنی محنت کی بھٹی میں جھونک ڈالا ہے اور قوم بھی اس مفروضے پر راسخ ایمان لے آئی ہے۔ دراصل جب قومیں احساسِ کمتری کے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہیں تو وہ ادھار کی عظمت میں اپنی بڑائی تلاش کرتی ہیں، قوموں کا یہ ذہنی بیمار رویہ ان کی خودداری اور خودی جیسے نازک معاملات کو بے وزن کرکے ان کی خودساختہ روشن خیالی کی بھینٹ چڑھادیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قومی زبان بھی ہماری علم سے محبت، جدت پسندی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی جستجو کے نام پر مذکورہ رویے کی نذر ہوچکی ہے، برخلاف اس کے زندہ قومیں اپنے آئین و قانون کے ساتھ ساتھ اپنی روایات و ثقافت اور زبان کی بھی امین ہوتی ہیں اور امانت کا یہ حق ان کی قومی غیرت و حمیت کا معاملہ ہوتا ہے مگر ہم لوگ بے فکر اور جذباتی قسم کی قوم ہیں۔
حسّاس معاملات پر گہرائی اور سنجیدگی سے غور کرنا ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ ہمارے دکھ درد، جذبات اور یہاں تک کہ ہمارے مسائل بھی ہمیں اکٹھا نہیں کرپاتے۔ قومی وقار کے اس حسّاس معاملے کو بے حسی کی نذر کردینا اس کی واضح سنگین مثال ہے۔ سرکاری سطح سے بھی قائد کے اس فیصلے کی صریح نافرمانی کو محض غفلت یا نااہلی نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ حالات اور حقائق تو اسے دانستہ کوشش یا سازش کے کٹہرے میں لاتے ہیں۔ قومی زبان چونکہ عوام کی زبان ہوتی ہے، لہٰذا عوام کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے تفریق کا نظام وضع کرنا اور پھر اسے روا رکھنا ضروری بلکہ مجبوری ہوتا ہے، سو انتشار اور تقسیم کے فارمولے کے تحت زبان کی اکائی کو غیرموثر کرنا تو لازمی ٹھہرا۔
اشرافیہ اور عوام کے طبقاتی امتیاز میں کوٹھی بنگلے، کار اور عہدے تو ہمیں نظر آتے ہیں حتیٰ کہ سگار اور برانڈ سگریٹ بھی لیکن لباس اور زبان کے معاملے میں عوام کو چونا لگا دیا گیا ہے، انھیں روشن خیالی کے نام پر ترقی، معیار، ذوق اور قابلیت کی ماریں ماری جاتی ہیں۔ جب بات رونا ڈالنے سے آگے بڑھ جاتی ہے تو پھر عمل کا وقت شروع ہوتا ہے ایسا عمل جو انقلاب کے بجائے باقاعدہ نظام کی صورت میں تبدیلی لائے، کیونکہ حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ مربوط نظام کے تحت آنے والی تبدیلی ہی مثبت بارآوری کا سبب بن سکتی ہے۔
سچّائی یہ ہے کہ کسی قوم کو اس کی قومی زبان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ زبان اور فرد کے تعلق میں جو فطری پن ہوتا ہے اس تعلق کی رو سے آپ زبان کی گرفت میں ہوتے ہیں، برعکس اس کے جس زبان پر گرفت کرنے اور عبور حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ کبھی نمبر ایک کا فطری درجہ حاصل نہیں کرپاتی، ہمیشہ نمبر دو ہی رہتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی ہی زبان پر گرفت کو مضبوط اور اٹل بنائیں۔ ہم صدقہ و خیرات پر ایمان رکھنے والی قوم ہیں، فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں اور فلاحی ادارے بھی قائم کرتے ہیں لیکن ایک تو ہماری زیادہ تر ایسی سرگرمیاں انفرادی کاوشوں تک محدود رہتی ہیں یا پھر نیکی، ثواب اور فلاح کا تصور ہمارے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا یا ضرورت مند کی حاجت روائی ہے، کیا اچھا ہو کہ قومی زبان کی ترویج کو بھی قومی مفاد کی خاطر مضبوط اور منظم منصوبہ بندی کے تحت مشن کا درجہ دیا جائے۔
اردو کے فروغ اور رواج پر متفق اہلِ ثروت و اہلِ دانش متحد ہو کر گلی محلوں کی سطح پر کتب خانے اور جدید نظام اور اصولوں کے تحت تعلیم کی بذریعہ اردو تدریس کرنے والے جدید اسکولوں کی ایک چین قائم کریں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ علاقوں کی سطح پر اسکولوں سے لے کر اسپتال، ڈسپنسریاں، کلینکس تو نظر آتے ہیں لیکن لائبریریاں نظر نہیں آتیں نہ تو نجی سطح پر ہونے والے فلاحی کاموں کی فہرست اور رجحان میں نہ کسی این جی او کے تحت اور نہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ایسے کسی اقدام کی مثال سامنے آتی ہے جب کہ کتب خانوں کا زیادہ سے زیادہ قیام نہ صرف زبان کے فروغ اور ترسیلِ علم کا ذریعہ ہے بلکہ دیگر لحاظ سے بھی غور کیا جائے تو یہ معاشرے کے لیے ایک صحت مند اور توانائی افزا کارِ خیر ہے لیکن علم جیسے صدقۂ جاریہ کو نہ جانے کیوں فلاحی اقدامات کا حصّہ نہیں بنایا جاتا؟
اسی طرح اسکولوں کی تو بہتات ہے کہ آج کل یہ انتہائی منافع بخش کاروبار ہے لیکن وہی بات کہ کسی سمت اور مقصد کی نیک نیتی کے بغیر یہ سب مجموعی طور پر کسی صحت مند نتیجے کا باعث بن ہی نہیں سکتا۔ ماہرینِ تعلیم بھی تعلیم و تدریس کے لیے اپنی زبان کی افادیت پر متفق ہیں، نیز تعلیم اور زبان دونوں ہی کا ماحول اور معاشرت سے اٹوٹ تعلق ہوتا ہے تو ان عناصر میں باہمی مطابقت مجموعی طور پر معاشرے کے لیے لازمی مفید ثابت رہتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام تو یوں بھی سقم کا شکار ہے، اس پر اجنبی ذریعہ تعلیم بھی تعلیم کے معیار اور اثرات پر اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہمیں تو انگریزی میں تدریس کے لیے اہل اساتذہ ہی دستیاب نہیں تو بچّوں میں انگریزی کو ان کا اوڑھنا بچھونا بنادینا کسی دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہے!
زبان قوم کی تاریخ ہوتی ہے، اس کا حال ہوتی ہے لیکن مستقبل کے معماروں کو زبانِ غیر کے در پر ڈال دینے میں تخریب کا پہلو شامل ہو کہ نہ ہو مگر اس اقدام میں دوراندیشی اور خیر مضمر نہیں ہوتی۔ ایسے میں اردو کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ذریعہ تعلیم بنایا جائے تو بعید نہیں کہ ہمارے طلبا بھی اس اعتماد سے مزّین ہوں کہ جدید شعبوں کے میدان میں بغیر ہچکچاہٹ کے طبع آزمائی کرسکیں۔ اسی طرح غیر ملکی زبانوں میں شایع شدہ کتابیں ترجمہ کرنے کے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ عام پاکستانی کی بھی عالمی دنیائے علم و فکر تک رسائی ممکن ہو خصوصاً نئی اور معروف موضوعات پر ترجمہ کی گئی کتب ذوق و شوق سے پڑھے جانے کا سبب بنیں گی اور ترجموں کا سلسلہ بذاتِ خود بھی اردو زبان کی وسعت کا باعث بنے گا، نئی اصطلاحیں وجود میں آئیں گی اور امکانات کے نئے در کھلیں گے۔
ان تجاویز کو بہتر بنا کر اور ان کے علاوہ بھی قومی نقطہ نظر سے اردو کی ترویج کے لیے نجی شعبے کی طرف سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگر عام پاکستانی کے لحاظ سے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
زبان کی تاثیر سے وحدت کا دائرہ تشکیل پاتا ہے اور قومی وحدت کوئی معمولی بات نہیں، اس کا براہِ راست تعلق سالمیت سے ہوتا ہے، جسے ٹکڑیوں میں بانٹ کر قومی شعور اور قومی یکسوئی پر نقب لگانے کا وار کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس زبان حب وطن کا آلہ ہے۔ زبان تخیل کا سرچشمہ ہوتی ہے اور زبان ہی فہم و ادراک کے مراحل طے کراتی ہے یعنی ہم زبان کی مدد سے سوچتے ہیں اور زبان ہی کی مدد سے سمجھتے ہیں، یہ زبان کی وہ روحانی خاصیت ہے جس کی حد میں آپ مچل سکتے ہیں لیکن نکل نہیں سکتے۔ کسی قوم سے اگر اس کی قومی زبان کو چھین لیا جائے تو یہ گویا اسے گونگا، بہرا اور ذہنی طور پر مفلوج کردینے کے مترادف ہے۔
کسی قوم کی تشکیل میں مذہب، زبان اور ثقافت کے عناصر ثلاثہ کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بابائے قوم نے اسلام کو سرکاری مذہب اور اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ اب یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ برس ہا برس گزر جانے کے باوجود بھی ہم بہ حیثیت قوم اس قوت اکائی پر مرتکز ہونے کی سعادت سے محروم ہیں، لیکن اس محرومی کے باوصف دو باتیں اہم ہیں کہ بابائے قوم کے تدبر اور حکمت عملی کا ہم پر احسان ہے کہ اردو کو قومی زبان قرار دینے سے انتشار اور تعصب کی زہریلی بحث اور سیاست کا ایک باب بند ہوگیا اور اردو کی اس مستند حیثیت کو قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے اسے بہرحال رد نہیں کیا جاسکتا۔
آج ہم نے زبانِ غیر کو علمی اور عالمی جتلا کر قوم کو ایک بے معنی محنت کی بھٹی میں جھونک ڈالا ہے اور قوم بھی اس مفروضے پر راسخ ایمان لے آئی ہے۔ دراصل جب قومیں احساسِ کمتری کے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہیں تو وہ ادھار کی عظمت میں اپنی بڑائی تلاش کرتی ہیں، قوموں کا یہ ذہنی بیمار رویہ ان کی خودداری اور خودی جیسے نازک معاملات کو بے وزن کرکے ان کی خودساختہ روشن خیالی کی بھینٹ چڑھادیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قومی زبان بھی ہماری علم سے محبت، جدت پسندی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی جستجو کے نام پر مذکورہ رویے کی نذر ہوچکی ہے، برخلاف اس کے زندہ قومیں اپنے آئین و قانون کے ساتھ ساتھ اپنی روایات و ثقافت اور زبان کی بھی امین ہوتی ہیں اور امانت کا یہ حق ان کی قومی غیرت و حمیت کا معاملہ ہوتا ہے مگر ہم لوگ بے فکر اور جذباتی قسم کی قوم ہیں۔
حسّاس معاملات پر گہرائی اور سنجیدگی سے غور کرنا ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ ہمارے دکھ درد، جذبات اور یہاں تک کہ ہمارے مسائل بھی ہمیں اکٹھا نہیں کرپاتے۔ قومی وقار کے اس حسّاس معاملے کو بے حسی کی نذر کردینا اس کی واضح سنگین مثال ہے۔ سرکاری سطح سے بھی قائد کے اس فیصلے کی صریح نافرمانی کو محض غفلت یا نااہلی نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ حالات اور حقائق تو اسے دانستہ کوشش یا سازش کے کٹہرے میں لاتے ہیں۔ قومی زبان چونکہ عوام کی زبان ہوتی ہے، لہٰذا عوام کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے تفریق کا نظام وضع کرنا اور پھر اسے روا رکھنا ضروری بلکہ مجبوری ہوتا ہے، سو انتشار اور تقسیم کے فارمولے کے تحت زبان کی اکائی کو غیرموثر کرنا تو لازمی ٹھہرا۔
اشرافیہ اور عوام کے طبقاتی امتیاز میں کوٹھی بنگلے، کار اور عہدے تو ہمیں نظر آتے ہیں حتیٰ کہ سگار اور برانڈ سگریٹ بھی لیکن لباس اور زبان کے معاملے میں عوام کو چونا لگا دیا گیا ہے، انھیں روشن خیالی کے نام پر ترقی، معیار، ذوق اور قابلیت کی ماریں ماری جاتی ہیں۔ جب بات رونا ڈالنے سے آگے بڑھ جاتی ہے تو پھر عمل کا وقت شروع ہوتا ہے ایسا عمل جو انقلاب کے بجائے باقاعدہ نظام کی صورت میں تبدیلی لائے، کیونکہ حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ مربوط نظام کے تحت آنے والی تبدیلی ہی مثبت بارآوری کا سبب بن سکتی ہے۔
سچّائی یہ ہے کہ کسی قوم کو اس کی قومی زبان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ زبان اور فرد کے تعلق میں جو فطری پن ہوتا ہے اس تعلق کی رو سے آپ زبان کی گرفت میں ہوتے ہیں، برعکس اس کے جس زبان پر گرفت کرنے اور عبور حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ کبھی نمبر ایک کا فطری درجہ حاصل نہیں کرپاتی، ہمیشہ نمبر دو ہی رہتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی ہی زبان پر گرفت کو مضبوط اور اٹل بنائیں۔ ہم صدقہ و خیرات پر ایمان رکھنے والی قوم ہیں، فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں اور فلاحی ادارے بھی قائم کرتے ہیں لیکن ایک تو ہماری زیادہ تر ایسی سرگرمیاں انفرادی کاوشوں تک محدود رہتی ہیں یا پھر نیکی، ثواب اور فلاح کا تصور ہمارے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا یا ضرورت مند کی حاجت روائی ہے، کیا اچھا ہو کہ قومی زبان کی ترویج کو بھی قومی مفاد کی خاطر مضبوط اور منظم منصوبہ بندی کے تحت مشن کا درجہ دیا جائے۔
اردو کے فروغ اور رواج پر متفق اہلِ ثروت و اہلِ دانش متحد ہو کر گلی محلوں کی سطح پر کتب خانے اور جدید نظام اور اصولوں کے تحت تعلیم کی بذریعہ اردو تدریس کرنے والے جدید اسکولوں کی ایک چین قائم کریں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ علاقوں کی سطح پر اسکولوں سے لے کر اسپتال، ڈسپنسریاں، کلینکس تو نظر آتے ہیں لیکن لائبریریاں نظر نہیں آتیں نہ تو نجی سطح پر ہونے والے فلاحی کاموں کی فہرست اور رجحان میں نہ کسی این جی او کے تحت اور نہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ایسے کسی اقدام کی مثال سامنے آتی ہے جب کہ کتب خانوں کا زیادہ سے زیادہ قیام نہ صرف زبان کے فروغ اور ترسیلِ علم کا ذریعہ ہے بلکہ دیگر لحاظ سے بھی غور کیا جائے تو یہ معاشرے کے لیے ایک صحت مند اور توانائی افزا کارِ خیر ہے لیکن علم جیسے صدقۂ جاریہ کو نہ جانے کیوں فلاحی اقدامات کا حصّہ نہیں بنایا جاتا؟
اسی طرح اسکولوں کی تو بہتات ہے کہ آج کل یہ انتہائی منافع بخش کاروبار ہے لیکن وہی بات کہ کسی سمت اور مقصد کی نیک نیتی کے بغیر یہ سب مجموعی طور پر کسی صحت مند نتیجے کا باعث بن ہی نہیں سکتا۔ ماہرینِ تعلیم بھی تعلیم و تدریس کے لیے اپنی زبان کی افادیت پر متفق ہیں، نیز تعلیم اور زبان دونوں ہی کا ماحول اور معاشرت سے اٹوٹ تعلق ہوتا ہے تو ان عناصر میں باہمی مطابقت مجموعی طور پر معاشرے کے لیے لازمی مفید ثابت رہتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام تو یوں بھی سقم کا شکار ہے، اس پر اجنبی ذریعہ تعلیم بھی تعلیم کے معیار اور اثرات پر اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہمیں تو انگریزی میں تدریس کے لیے اہل اساتذہ ہی دستیاب نہیں تو بچّوں میں انگریزی کو ان کا اوڑھنا بچھونا بنادینا کسی دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہے!
زبان قوم کی تاریخ ہوتی ہے، اس کا حال ہوتی ہے لیکن مستقبل کے معماروں کو زبانِ غیر کے در پر ڈال دینے میں تخریب کا پہلو شامل ہو کہ نہ ہو مگر اس اقدام میں دوراندیشی اور خیر مضمر نہیں ہوتی۔ ایسے میں اردو کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ذریعہ تعلیم بنایا جائے تو بعید نہیں کہ ہمارے طلبا بھی اس اعتماد سے مزّین ہوں کہ جدید شعبوں کے میدان میں بغیر ہچکچاہٹ کے طبع آزمائی کرسکیں۔ اسی طرح غیر ملکی زبانوں میں شایع شدہ کتابیں ترجمہ کرنے کے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ عام پاکستانی کی بھی عالمی دنیائے علم و فکر تک رسائی ممکن ہو خصوصاً نئی اور معروف موضوعات پر ترجمہ کی گئی کتب ذوق و شوق سے پڑھے جانے کا سبب بنیں گی اور ترجموں کا سلسلہ بذاتِ خود بھی اردو زبان کی وسعت کا باعث بنے گا، نئی اصطلاحیں وجود میں آئیں گی اور امکانات کے نئے در کھلیں گے۔
ان تجاویز کو بہتر بنا کر اور ان کے علاوہ بھی قومی نقطہ نظر سے اردو کی ترویج کے لیے نجی شعبے کی طرف سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگر عام پاکستانی کے لحاظ سے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔