بالآخر ’یادگار‘ دن آ ہی گیا

پاکستان کی موجودہ ٹیم میں 11 وہ خوش قسمت کھلاڑی ہیں جو آج پہلی بار اپنی سرزمین میں کھیلیں گے۔


کاشف اعوان May 22, 2015
قومی ٹیم میں نوجوانوں کی کھیپ ہے جسے تراشنے کی ضرورت ہے اور تراشا تب ہی جاسکتا ہے جب غیر ملکی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں۔ فوٹو: ایکسپریس

RAHIM YAR KHAN: ملک میں 6 سالہ طویل انتظار کے بعد بالاآخر عالمی کرکٹ کے دروازے کھل گئے، گو کہ ان حالات میں کسی بڑی ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا لیکن اُمید ہے کہ ویران میدانوں کو دوبارہ آباد کرنے کیلئے زمبابوے ٹیم کا دورہ سنگ میل ثابت ہوگا۔

ایک طویل عرصے تک پاکستان میں میدانوں کی ویرانی نے صرف پاکستانی کرکٹ کو ہی نہیں دھچکا نہیں لگا بلکہ شائقین کرکٹ کو بھی مایوس کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دورہ زمبابوے کی تصدیق ہوئی تو پاکستانیوں کے چہرے خوشی سے کِھل اٹھے اور آج ہونے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کی تمام ٹکٹیں پہلے ہی فروخت ہوگئیں۔ کرکٹ سے اس قدر لگاؤ رکھنے والی قوم کو عالمی تنہائی کا شکار کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ انٹرنیشل کرکٹ کونسل خود آگے بڑھ کر پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی کیلئےاقدامات کرتی لیکن وہاں موجود پیسے کے پجاری اور سیاسی لوگوں نے اس میں رخنہ دالے رکھا۔

یہ وہی پاکستانی گراؤنڈ تھے جہاں ظہیر عباس نے ایشین بریڈ مین کا لقب پایا، اِنہیں میدانوں پر برق رفتار گیندیں کرا کر شعیب اختر اور وقار یونس نے دنیائے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایا۔ اِنہیں میدانوں میں وسیم اکرم، عمران خان، ثقلین مشتاق، انضمام الحق، حنیف محمد اور ان جیسے لا تعداد کھلاڑیوں نے اپنا لوہا منوایا، جن کی خوبیان اور کارنامے بیان کئے جائیں تو اسکے لئے طویل جگہ درکار ہوگی صرف اس مصرعے میں یہ بات سمیٹی جاسکتی ہے کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جی ہاں، اگر پاکستانی کرکٹ کو تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہ ایک مرتبہ پھر اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملکی میدانوں کے ویران ہونے کے باعث اب ٹیم میں نہ کوئی انضمام الحق جیسا بلے باز دکھائی دیتا ہے اور نہ محمد یوسف جیسا مڈل آرڈر بیٹسمین۔ اگر بولنگ کے شعبے پر نظر دوڑائی جائے تو وسیم، وقار اور شعیب جیسے بیش بہا خوبیوں کے مالک بولرز بھی اب ٹیم میں نہیں البتہ اس ٹیم میں کوئی ہے تو نوجوانوں کی کھیپ ہے جسے تراشنے کی ضرورت ہے اور تراشا تب ہی جاسکتا ہے جب غیر ملکی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں۔ اب موجودہ ٹیم پر ہی نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ 16 رکنی ٹیم کے اسکواڈ میں 11 کھلاڑی ہوم گراؤنڈ میں کبھی کھیلے ہی نہیں، اوپنگ بلے باز احمد شہزاد کو یہاں پہلی مرتبہ مہمان زمبابوین ٹیم کے خلاف قذافی اسٹیڈیم میں بیٹنگ کے جوہر دکھانے کا موقع ملے گا، جب کہ ایک روزہ ٹیم کے کپتان اظہرعلی بھی ملکی میدان میں نومولود ثابت ہوں گے اور کیرئیر میں ملکی میدان میں کپتانی کے فرائض کے ساتھ پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی ٹیم کے خلاف کھیلیں گے۔ اسی طرح ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی کے نائب کپتان سرفراز احمد بھی ہوم گراؤنڈ میں کس غیر ملکی ٹیم کے خلاف اپنا پہلا میچ کھیلیں گے۔ اِس کے علاوہ عمر اکمل، وہاب ریاض، بلاول بھٹی، انور علی، حماد اعظم، عماد وسیم، مختار احمد اور محمد رضوان بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔



ملک میں عالمی کرکٹ نہ ہونے کی بنیادی وجہ سیکیورٹی کو قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر آئی سی سی کا مقصد صرف کرکٹ کا فروغ اور دیگر ممالک کو بھی کرکٹ کی جانب راغب کرنا ہوتا تو پاکستان کو ہوم گراؤنڈ آباد کرنے کیلئے 6 سال کا انتظار نہ کرنا پڑتا، بگ تھری کا معاملہ ہو یا پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی، آئی سی سی کا کردار ہمیشہ متنازع اور کرکٹ مخالف ہی دکھائی دیا ہے۔ دورہ زمبابوے کو ہی لیجئے جب زمبابوین ٹیم کی جانب سے دورے کی تصدیق ہوئی تو آئی سی سی نے آفیشل ایمپائرز بھیجنے سے انکار کردیا۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ آئی سی سی کے پاکستان کرکٹ مخالف رویہ سے بھلا شائقین کیوں متنفر نہیں ہونگے جب کرکٹ کو فروغ دینے کے بجائے اس میں سیاست کی جائے اور جان بوجھ کر ورلڈ چیمپئین رہنے والی ٹیم کی کرکٹ کو تنہا کیا جائے گا تو سوالات ضرور اٹھیں گے۔



لیکن آئی سی سی کے اس رویے کے باوجود ملکی میدان پھر سے آباد ہونے جارہے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہی نوجوان کھلاڑی عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، انضمام الحق، ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کی شکل میں دکھائی دیں گے۔

[poll id="433"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔