یہ اپنی زمین یہ اپنا وطن

ایک زمانہ ایسا بھی گزرا کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ جس کے نام کی گولی ہوتی ہے اسے ہی لگتی ہے


Shehla Aijaz October 13, 2012
[email protected]

سردار فاروق مینگل آئے بھی اور چلے بھی گئے۔ ایک شور و غوغا اٹھا اور پھر تھم گیا۔

بلوچستان میں ظلم ہورہا ہے، نوجوان اغوا ہورہے ہیں، حقوق کا استحصال ہورہا ہے۔ ڈیتھ اسکواڈ کام کررہے ہیں۔ یہ سب ہم نے بھی سنا اور نیوز چینلز پر دیکھا بھی۔ فاروق مینگل کی سپریم کورٹ میں حاضری بھی سنی اور ان کے چھ نکات بھی پڑھے البدر اور الشمس کا ذکر بھی سنا اور بہت کچھ جو ہم جیسے نوجوانوں کے علم میں نہ تھا لیکن ایک بات جو میرے جیسے اور بہت سے نوجوانوں کے ذہن میں ابھرتی ہے، حوالہ ان ہی چھ نکات کا ہے جو سردار فاروق مینگل نے ابھارا۔ کیا جو کچھ ہمارے معزز سردار نے بیان کیا، پورے پاکستان میں خاص کر سندھ کے علاقوں میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔ گرما گرم خبریں پٹیوں کی صورت میں اور کبھی بریکنگ نیوز بن کر نیوز چینلز کا پیٹ بھرتی رہتی ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، اغوا تاوان، بھتہ، کھلے عام جرائم، اسٹریٹ کرائمز، رشوت ستانی، اقربا پروری اور کیا کچھ کتنا عرض کریں کہ یہاں فہرست خاصی طویل ہے۔

پچھلے 62 برسوں میں خاص کر بلوچستان اور دوسرے صوبوں میں کیا کچھ ہوا۔ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ حکمرانوں، جرنیلوں کے ستائے لوگوں نے پیپلز پارٹی سے لے کر نوآموز تحریکِ انصاف تک اور یہاں تک کہ ہمارے عظیم سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی ایک جماعت بنانے کا بیڑہ اٹھانا پڑا۔ کراچی میں 80 کے عشرے سے لے کر آج تک کتنے معصوم بے گناہ نوجوان موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ جس کے نام کی گولی ہوتی ہے اسے ہی لگتی ہے والی بات اب غلط ثابت ہوگئی ہے کیونکہ اتنی گولیاں چلتی ہیں کہ کسی کے نام کی کسی اور کے بھی لگ جاتی ہے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب فوج کے نوجوانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ سیدھے سادے نوجوان کیڈٹ بننے کے خواب لیے جوانی میں ہی اس دنیا سے گزر گئے۔

کیا ہوجائے پل بھر میں کس کو خبر۔ کیا جوان، کیا بوڑھا اور کیا بچّہ۔ سب ایک ہی کشتی میں سوار خون میں نہا گئے۔ کتنے اغوا شدہ ابھی تک دریافت نہ ہوسکے کہ انھیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ یہ شہر کراچی بھی بڑا عجیب ہے۔ یہاں ایک جانب خوشیوں سے تمتماتے چہرے مطمئن، آسودہ زندگی میں پرلطف آسائشوں کے جھولوں میں جھول رہے ہیں تو دوسری جانب آسائشوں سے محروم ضروری اشیاء زندگی سے دور ترستی، تڑپتی نظریں اپنے حکمرانوں کی جانب التجا بن کر اٹھتی ہیں، پر کون ہے جو ان کے سوالوں کا جواب دے سکے گا۔ ان پچھلے 62 برسوں میں اس شہر پر کیا گزری دنیا جانتی ہے۔

نیوز چینلز پر کٹی پہاڑی کا نام سن کر شاید لوگوں کے ذہن میں ایک مفلوک الحال آبادی کا تصور ابھرتا ہوگا لیکن یقین جانیے ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ کٹی پہاڑی دراصل ان لوگوں کے کٹے ہوئے دل ہیں جو انھوں نے پائی پائی جوڑ کر اپنے گھروں کو خوبصورت اور پرآسایش بنانے پر صرف کرنے کے بعد اسے پارہ پارہ ہوتے دیکھا ہوگا۔ ایک خوبصورت، پرسکون آبادی ڈی سلوا ٹائون جو مجھے اپنے بچپن میں بہت اچھی لگتی تھی۔ کیسے اس آبادی کی تصویر بگڑتی گئی، پڑھی لکھی کرسچین آبادی ان خوبصورت گھروں میں مقیم تھی۔ ان کے ساتھ مسلم آبادی بھی تھی۔ ایک خوبصورت امتزاج تھا جو اس علاقے میں نظر آتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس آبادی کو نظر لگ گئی۔

خوف اور سراسیمگی کے سائے ایک وسیع آبادی کو نگل گئے۔ شرافت سے علاقے کے مکین چپ چاپ جلدی جلدی اپنے بڑے بڑے گھر پہنچ کر اِدھر ادھر ہوگئے۔ کروڑوں کی جائیداد تیس سے چالیس لاکھ تک کی قیمت پر پہنچ گئی۔ حکومت کے کسی عہدے دار نے کبھی نوٹس لیا کہ اتنی بڑی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ شاید یہ اعلیٰ اقتدار پر بیٹھے حکمرانوں کی حسد تھی جو انھوں نے ماضی سے لے کر آج تک جی بھر کے کراچی سے نکالی۔

گلستان جوہر پر قائم بڑے بڑے خوبصورت شاپنگ پلازہ، حسرت کی تصویر بنے سنسان اپنی قسمت پر آنسو بہارہے ہیں کہ ہے کوئی ہمارا پرسان حال جو ہمیں اس دردناک صورتِ حال سے نکالے لیکن نہیں کراچی برسوں سے سلگ رہا ہے اور آج بھی اس کے وجود پر کاری ضربیں لگی ہیں، لیکن قومیت کے زہریلے کانٹے اس کے وجود کو مستقل اذیتیں دے رہے ہیں۔ کراچی نے ہمیشہ اپنی بانہیں کھول کر باہر سے آنے والوں کو خیرمقدم کیا۔ اس کی زمین ہی ایسی ہے جب پاکستان وجود میں آیا تو لٹے پٹے لوگ اس کی دھرتی سے چمٹ کر اپنے پیاروں کو یاد کرکے بلک بلک کر روئے۔

اس نے انھیں تھپکی دی اور پھر اس کی محبت اور شفقت نے اسے روشنیوں کا شہر بنادیا لیکن صد افسوس۔ یہ محبت یہ شفقت بھی کراچی والوں کو مہنگی پڑی، آج یہاں پاکستان بھر سے آنے والے ہر قومیت کے لوگ آباد ہیں لیکن پھر بھی یہاں آنسوئوں کا سلسلہ تھما نہیں، خون کی ہولی رکی نہیں، آگ کا ایک سمندر ہے جو کبھی بلدیہ ٹائون کی گارمنٹ فیکٹری میں معصوم غریبوں کو نگل لیتا ہے تو کبھی ہزاروں نفوس کو اپنے بوڑھے وجود میں چھپائے۔ انگریزوں کے وقت کی بنی بلڈنگز کے ساتھ زمین بوس ہوجاتا ہے۔

ہمارے سیاست دان بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، بحث و مباحثے کرتے ہیں، اسمبلیوں میں گتھم گتھا ہوتے ہیں اور بات کرتے ہیں۔ غریب عوام کے حقوق کی، جنھیں انھوں نے سوائے دکھوں اور اذیتوں کے اور کیا دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی تمام جائیداد اپنی قوم کے نام کردی تھی۔ کیا ہے کوئی ہمارا عظیم سیاست دان جس نے ایسا عمل کر دِکھایا ہو جو اپنے غریب عوام کے دکھ پر بیٹھ کر رویا ہو، جس نے ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے غموں کو شیئر کیا ہو۔ بات بہت مختصر لیکن اہم ہے جو اس ملک میں امیر ہے اور جو امیر بن رہے ہیں وہ اپنے غریب لوگوں سے ایسے الگ ہورہے ہیں جیسے دودھ پر سے بالائی اتار دیتے ہیں۔ پھر چاہے وہ سیاست کی اعلیٰ کرسی پر بیٹھے یا کسی سرکاری اعلیٰ عہدے پر اپنے بہن بھائیوں کو بھول جاتے ہیں۔

مجھے آج بھی وہ غریب ذرا پڑھا لکھا نوجوان یاد ہے جو کچھ ڈرے سہمے لہجے میں کہہ رہا تھا ''کیا بتائیں ہمارے بڑے خود نہیں چاہتے کہ ہم پڑھے لکھے اور باشعور بنیں کیونکہ اگر ہم پڑھ لکھ جائیں گے تو ہماری سمجھ میں بہت سی باتیں آنے لگیں گی، پھر یہ بڑے لوگ حکومت کس پر کریں گے۔''

پچھلے 62 برسوں میں ہمارے سیاست دانوں، حکمرانوں اور جرنیلوں نے اس ذمے داری کا ثبوت نہیں دیا، جس کی وجہ سے ہمیں بنگلہ دیش کو الگ کرنا پڑا، لیکن اس کے پیچھے وہ اسلام دشمن عناصر بھی تھے جنھوں نے ان مغرور حکمرانوں کے غرور سے اکڑی گردنوں کو اتنی ہوا دی کہ وہ بھول بیٹھے کہ وہ بھی انسان ہیں۔ یہ اپنی زمین یہ اپنا وطن چھوٹا ہے تو کیا ہے پر اپنا تو ہے، اسے سرسبز شاداب بنانے کے لیے ہم سب اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ یاد رہے لکڑی کے گٹھے کو توڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا، لیکن اگر اس کی ڈنڈیاں تنہا ہوں تو باآسانی ٹوٹ جاتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں