دہشت گردی کا یقینی خاتمہ نوشتہ دیوار
ارباب اختیار اتنے بے عمل کیوں ثابت ہوئے کہ طالبان عناصر ملک پر قبضہ کا سوچنے لگے تھے
GARHI KHUDA BAKHSH:
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے ہے کیونکہ صرف محفوظ پاکستان ہی خوشحال پاکستان ہو سکتا ہے، دہشتگردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں شاندار کامیابیاں ملی ہیں جن کے باعث شہری علاقوں میں بھی دہشتگردوں کے خاتمہ کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
شہروں میں دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے سیاسی قبولیت کا ماحول پیدا ہو چکا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خدشات مشکل اور کثیر الجہت ہیں، روایتی طریقہ کار اور جواب قابل عمل نہیں رہا۔ جمعرات کو آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں پر کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے ان کا استقبال کیا۔
گزشتہ چند برسوں سے ملکی سالمیت ، جمہوری و سیاسی نظام کی بقا اور ملکی معیشت کو بدامنی ، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے جو وجودی خطرات لاحق تھے ان کا بروقت جواب دینے کی توانا اور نتیجہ خیز حکمت عملی نیز پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر قوم نہ صرف نازاں ہے بلکہ معاشرے میں امن وامان کی بہتری، سماجی یکجہتی ، نمو پذیر معاشی طمانیت اور انفرادی تحفظ کا جو احساس اجاگر ہوا ہے۔
اس نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قوم کا اعتبار دوچند کردیا ہے، چنانچہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سے پہلے ایسی جارحانہ کارروائی اور دہشت گردی مخالف اسٹرٹیجی کیوں استعمال نہیں ہوئی ، ارباب اختیار اتنے بے عمل کیوں ثابت ہوئے کہ طالبان عناصر ملک پر قبضہ کا سوچنے لگے تھے ۔ یہ ہمارے آج کا ملین ڈالر سوال ہے جو جنرل راحیل شریف ان کی قیادت میں پاک فورسز ، پولیس ، رینجرز،ایف سی اور سلامتی پر مامور حکام اور مصلحتوں سے بالاتر سیاسی قیادت کے عزم و حوصلہ کا وہ باب ہے جسے روشن رکھنے کے لیے داخلی امن کے قیام کو اولین ترجیح دیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ موجودہ عسکری و سیاسی قیادت نے بلا تاخیر ادراک کیا کہ بہت ہوچکا ، بس! ریاستی رٹ کے مخالفین اور اندر کا دشمن ایک ہے، اس لیے پہلے اس سے نمٹا جائے۔
امریکی دانشور اور ادیب گور ویدال نے اپنے مضمون '' اندر کا دشمن'' Enemy Within میں آسمان سے برستی آگ کے ضمن میں انکشاف کیا تھا کہ نائن الیون کی وارننگ کا صرف سی آئی اے چیف جارج ٹیننٹ نے نوٹس لیا، پوتن، حسنی مبارک، موساد اور خود ایف بی آئی کے بعض افسران کے انتباہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا،جب کہ 1996ء میں ایک پاکستانی دہشت گرد عبدالحکیم مراد نے اعتراف کیا تھا کہ وہ جہاز اڑانے کی تربیت لے رہا ہے تاکہ سی آئی اے صدر دفتر پر اسے گرا دے۔'' شہروں میں دہشت گردی کے خاتمہ کی نوید ایک بڑا بریک تھرو ہے، یہ ملکی سلامتی کے داخلی محاذ کی سب سے فیصلہ کن جنگ ہے جس میں عسکری و نیم عسکری فورسز، قانون کے نفاذ سے مربوط اداروں اور سیاسی قیادت کی سرخروئی نوشتہ دیوار ہے۔
دریں اثنا ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر کا بیان خوش آیند ہے جس کے مطابق کراچی میں امن کے لیے5 برس میں جاری کیے گئے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کرنیکی تجویز دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ رینجرز کو مکمل اختیارات دیے بغیر کراچی میں امن کا قیام ممکن نہیں ، دہشتگردی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوا دی ہے ، وہ جمعرات کو سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران کراچی کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دے رہے تھے۔
اجلاس چیف سیکریٹری سندھ کے دفتر میں کمیٹی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر ستارہ ایاز، سحر کامران، فرحت اللہ بابر، صائمہ وحید اورجہاں زیب جمال دینی کے علاوہ آئی جی سندھ غلام حیدرجمالی اور صوبائی سیکریٹری داخلہ بھی شریک ہوئے ۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے بتایا کہ کراچی میں 4500 مدارس ہیں جن میں3 سے 5فیصد مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، اسکولوں اور مدارس سے غائب ہونیوالے بچوں کو دہشتگردی کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے 14 سے 15فیصد افراد بھی جرائم میں ملوث ہیں، ڈی جی رینجرز کا استدلال دعوت فکر دیتا ہے کہ کراچی میں 2 طرح کی دہشتگردی ہو رہی ہے۔
ایک گروہ پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے اور دوسرا گروہ اسکالرز اور دیگر طبقوں کو نشانہ بنا رہا ہے، کراچی میں 13فیصد واقعات فرقہ وارانہ اور 17فیصد اسٹریٹ کرائم کے ہوتے ہیں ۔ ڈی جی رینجرز کے بیان کو پولیس کارروائی اور صفورا سانحہ میں ملزمان کی غیر معمولی گرفتاری کے واقعہ اور کارنامہ سے الگ کرکے نہ دیکھا جائے، رینجرز کے کریک ڈاؤنز نے پولیس کو بھی متحرک کیا لہٰذا مشترکہ حکمت عملی کراچی میں پولیس و رینجرز کا آپریشن کے حوالہ سے واشگاف حقیقت ہے ، الگ اختیار دینے کی استدعا صرف حکمت عملی سے منسلک ہے۔ملک حالت جنگ میں ہے،دہشت گردی مخالف حکمت عملی میں کوئی جھول اور وقفہ نہ آنے پائے ۔ سامنے صاف نظر آرہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ اب یقینی ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے ہے کیونکہ صرف محفوظ پاکستان ہی خوشحال پاکستان ہو سکتا ہے، دہشتگردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں شاندار کامیابیاں ملی ہیں جن کے باعث شہری علاقوں میں بھی دہشتگردوں کے خاتمہ کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
شہروں میں دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے سیاسی قبولیت کا ماحول پیدا ہو چکا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خدشات مشکل اور کثیر الجہت ہیں، روایتی طریقہ کار اور جواب قابل عمل نہیں رہا۔ جمعرات کو آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں پر کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے ان کا استقبال کیا۔
گزشتہ چند برسوں سے ملکی سالمیت ، جمہوری و سیاسی نظام کی بقا اور ملکی معیشت کو بدامنی ، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے جو وجودی خطرات لاحق تھے ان کا بروقت جواب دینے کی توانا اور نتیجہ خیز حکمت عملی نیز پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر قوم نہ صرف نازاں ہے بلکہ معاشرے میں امن وامان کی بہتری، سماجی یکجہتی ، نمو پذیر معاشی طمانیت اور انفرادی تحفظ کا جو احساس اجاگر ہوا ہے۔
اس نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قوم کا اعتبار دوچند کردیا ہے، چنانچہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سے پہلے ایسی جارحانہ کارروائی اور دہشت گردی مخالف اسٹرٹیجی کیوں استعمال نہیں ہوئی ، ارباب اختیار اتنے بے عمل کیوں ثابت ہوئے کہ طالبان عناصر ملک پر قبضہ کا سوچنے لگے تھے ۔ یہ ہمارے آج کا ملین ڈالر سوال ہے جو جنرل راحیل شریف ان کی قیادت میں پاک فورسز ، پولیس ، رینجرز،ایف سی اور سلامتی پر مامور حکام اور مصلحتوں سے بالاتر سیاسی قیادت کے عزم و حوصلہ کا وہ باب ہے جسے روشن رکھنے کے لیے داخلی امن کے قیام کو اولین ترجیح دیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ موجودہ عسکری و سیاسی قیادت نے بلا تاخیر ادراک کیا کہ بہت ہوچکا ، بس! ریاستی رٹ کے مخالفین اور اندر کا دشمن ایک ہے، اس لیے پہلے اس سے نمٹا جائے۔
امریکی دانشور اور ادیب گور ویدال نے اپنے مضمون '' اندر کا دشمن'' Enemy Within میں آسمان سے برستی آگ کے ضمن میں انکشاف کیا تھا کہ نائن الیون کی وارننگ کا صرف سی آئی اے چیف جارج ٹیننٹ نے نوٹس لیا، پوتن، حسنی مبارک، موساد اور خود ایف بی آئی کے بعض افسران کے انتباہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا،جب کہ 1996ء میں ایک پاکستانی دہشت گرد عبدالحکیم مراد نے اعتراف کیا تھا کہ وہ جہاز اڑانے کی تربیت لے رہا ہے تاکہ سی آئی اے صدر دفتر پر اسے گرا دے۔'' شہروں میں دہشت گردی کے خاتمہ کی نوید ایک بڑا بریک تھرو ہے، یہ ملکی سلامتی کے داخلی محاذ کی سب سے فیصلہ کن جنگ ہے جس میں عسکری و نیم عسکری فورسز، قانون کے نفاذ سے مربوط اداروں اور سیاسی قیادت کی سرخروئی نوشتہ دیوار ہے۔
دریں اثنا ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر کا بیان خوش آیند ہے جس کے مطابق کراچی میں امن کے لیے5 برس میں جاری کیے گئے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کرنیکی تجویز دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ رینجرز کو مکمل اختیارات دیے بغیر کراچی میں امن کا قیام ممکن نہیں ، دہشتگردی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوا دی ہے ، وہ جمعرات کو سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران کراچی کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دے رہے تھے۔
اجلاس چیف سیکریٹری سندھ کے دفتر میں کمیٹی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر ستارہ ایاز، سحر کامران، فرحت اللہ بابر، صائمہ وحید اورجہاں زیب جمال دینی کے علاوہ آئی جی سندھ غلام حیدرجمالی اور صوبائی سیکریٹری داخلہ بھی شریک ہوئے ۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے بتایا کہ کراچی میں 4500 مدارس ہیں جن میں3 سے 5فیصد مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، اسکولوں اور مدارس سے غائب ہونیوالے بچوں کو دہشتگردی کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے 14 سے 15فیصد افراد بھی جرائم میں ملوث ہیں، ڈی جی رینجرز کا استدلال دعوت فکر دیتا ہے کہ کراچی میں 2 طرح کی دہشتگردی ہو رہی ہے۔
ایک گروہ پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے اور دوسرا گروہ اسکالرز اور دیگر طبقوں کو نشانہ بنا رہا ہے، کراچی میں 13فیصد واقعات فرقہ وارانہ اور 17فیصد اسٹریٹ کرائم کے ہوتے ہیں ۔ ڈی جی رینجرز کے بیان کو پولیس کارروائی اور صفورا سانحہ میں ملزمان کی غیر معمولی گرفتاری کے واقعہ اور کارنامہ سے الگ کرکے نہ دیکھا جائے، رینجرز کے کریک ڈاؤنز نے پولیس کو بھی متحرک کیا لہٰذا مشترکہ حکمت عملی کراچی میں پولیس و رینجرز کا آپریشن کے حوالہ سے واشگاف حقیقت ہے ، الگ اختیار دینے کی استدعا صرف حکمت عملی سے منسلک ہے۔ملک حالت جنگ میں ہے،دہشت گردی مخالف حکمت عملی میں کوئی جھول اور وقفہ نہ آنے پائے ۔ سامنے صاف نظر آرہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ اب یقینی ہے۔