دولخت ستارہ
یہ تمام ترقی صرف دس سال میں حاصل کی گئی ہے!مجھے لگاکہ میں نے غلط سناہے
یہ تمام ترقی صرف دس سال میں حاصل کی گئی ہے!مجھے لگاکہ میں نے غلط سناہے؟قازقستان کے سرکاری افسرنے پوچھنے پردوبارہ زوردیکربتایا،یہ تمام عمارتیں، سڑکیں، اپارٹمنٹ بلڈنگز،یہ سب کچھ موجود نہیں تھا۔آستانہ محض ایک پرانا سا بوسیدہ شہرتھا۔میرے ذہن میں حیرت اورافسوس کے دروازے کھلنے لگے۔حیرت اس لیے کہ اگردوررس سوچنے والی قیادت ہو تو ملک محض دس برس میں ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑنے لگتا ہے۔اور اگر نہ ہو!توحال تقریباً ہمارے یا ہمارے جیسے ملکوں کی مانند ہو جاتا ہے۔جہاں محض اعلانات کی بے فیض بارشیں اورصرف لفظوں سے ترقی کی منزلیں سرکرنے کا سیلاب ہے۔
اس وقت قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہوں۔ جمباکٹاس(Jumbaktas)ہوٹل میں پاکستانی وفدکے ہمراہ گزشتہ پانچ روزسے مقیم ہوں۔یہاں آنے سے پہلے بتایا گیاتھاکہ ایک ترقی پذیرملک میں جارہاہوں۔اس شہرکودیکھنے اورپرکھنے کے بعد میرا سابقہ گمان مکمل طورپرغلط ثابت ہوا۔یہ ملک قطعاًترقی پذیرنہیں ہے۔یہ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کے لیے محنت سے تشکیل شدہ جادوکے زینے پرتیزی سے محوِسفرہے۔یہ تیس سالہ کے مختصرعرصے میں مغربی ممالک کے برابرمیں کھڑاہوگا۔
ہم تیس سال بعدکس حال میں ہونگیں!میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا!پاکستان کاسفارت خانہ ایک انتہائی شانداربلڈنگ میں واقع ہے۔یہ بہت چھوٹا ساسفارت خانہ ہے۔افسروں کی تعدادبھی تین ہے۔مگر پاکستانی سفیرسالک نے اس ننھے منے سے سفارت خانہ کو انتہائی متحرک بنادیاہے۔انکاتعلق بلوچستان سے ہے۔اپنے علاقہ کی عاجزی اورمہمان نوازی اس شخص میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے۔میں نے محسوس کیاکہ کوئی ایسی سرکاری یاغیرسرکاری اہم جگہ نہیں،جہاں ہمارا سفیربنفسِ نفیس خودموجود نہ ہو۔یہاں کے سفارتی حلقے ہوں یایونیورسٹی کے اساتذہ،اقتصادی فورم ہو یا سماجی حلقے۔سالک کوشش کرکے اس کے لیے وقت نکالتے ہیں۔
یہ بات اپنے طورپرقابل تعریف ہے۔ہمارے عمومی سفارت کار غیرممالک میں اس طرح سرکاری نوکری کرتے ہیں،جیسے چھٹیوں پر ہیں۔سفارت خانے نے ہمارے وفدکے ہمراہ ایک رشین لڑکی کومتعین کیاتھا۔اینا(Anna)کوپاکستانی سفارت خانہ میں نوکری کرتے ہوئے محض دوتین ماہ ہوئے ہیں۔وہ انگریزی اورلوکل زبانوں پرعبور رکھتی تھی۔اس نے جس ایمانداری اور محنت سے ہمارے وفدکے لیے آسانیاں پیدا کیں،وہ حقیقت میں انتہائی ریاضت کا کام ہے۔تعلیم پوچھی توجواب سنکر حیران ساہوگیا۔وہ یہاں کی بہترین مقامی یونیورسٹی اورامریکا کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل افیئرز (International Affairs)میں ڈگری ہولڈرتھی۔جہاں ہمیں زبان نہ سمجھنے کا مسئلہ ہوتا تھا۔اینا فوری طور پر ترجمان کا رول اداکرناشروع کردیتی تھی۔
کسی فورم میں اگرہمیں تصاویرنہ ہونے کی وجہ سے انتظارکرنے کوکہاجاتاتھا،تووہ فوراً وہیں سے کمپیوٹر پرتمام وفدکی تصاویرکھینچ کرہمیں فورم میں اندرجانے کی اجازت دلوا دیتی تھی۔گاڑی کے ڈرائیورکو وقت پرلانے سے لے کرہرمیٹنگ کے اختتام تک وہ تمام امور باآسانی نمٹادیتی تھی۔میرے خیال میں ایناکوپاکستان کادورہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہاں آکرکہیں وہ ہماری طرح کاہل اورآرام طلب نہ ہوجائے۔سالک صاحب یہ غلطی نہیں کرینگے،کیونکہ وہ ایک سمجھدار انسان ہیں۔یہاں130قومیں آباد ہیں۔
یعنی اس ملک میں 130 قومیں سلوک اور یگانگت سے ایک خطہ میں زندگی گزار رہی ہیں۔اس میں قزاق،روسی،جرمن اوردیگر نسلیں شامل ہیں۔ قزاق قوم تناسب کے لحاظ سے ساٹھ فیصد ہیں۔ یہ تمام مسلمان ہیں۔روسی تسلط میں یہ کیسے اپنے مذہب کو سینے سے لگا کر زندہ رہے،یہ بذات خودایک سوال بھی ہے اوراپنے اندر ایک جواب بھی!اس ملک کی اکثریت مسلمان ہے۔آستانہ میں شاندارمساجد موجود ہیں۔جہاں ساری نمازیں اداکی جاتی ہیں۔ہزاروں لوگ یہاں جمعہ کی نمازمیں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن سیکھنے اورپڑھنے کی درسگاہیں بھی موجود ہیں اور وہ دینی تعلیم دے رہی ہیں۔
مگریہ تمام مساجد، دینی درسگاہیں اوران کا عملہ سرکاری ہے۔یہ حکومت وقت سے منظورشدہ خطبہ پڑھتے ہیں۔اور بغیرکسی فساد اور تفرقہ کے اپناکام کرنے میں مصروف ہیں۔اس سکہ کاایک پہلو اور بھی ہے۔کسی بھی مذہب کا حکومت یا لوگوں کی عملی زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہیں۔ انھوں نے اسلام اوردیگرمذاہب کوصرف ذاتی زندگی تک محدودکردیاہے۔ان کے ذہن میں اسلام کی نشاطِ ثانیہ کاکوئی خواب نہیں!یہ مکمل عمل پسندقوم ہے۔یہ کسی بھی دین کے افسانوی پہلو یا احیاء پرکسی قسم کا یقین نہیں رکھتے۔مگر یہ مذہب اورقدرت کے آفاقی اصولوں پرعمل پیرا ہیں۔دیانت داری، وقت کی پابندی،سچ بولنا،اشیاء کوپوراتولنا اوردیگراصولوں پرسختی سے کاربند ہیں اورکامیاب ہیں بلکہ مکمل طورپرکامیاب ہیں۔
قازقستان کوآزاد ہوئے محض تئیس(23)سال ہوئے ہیں۔سوویت یونین کے ختم ہونے سے یہ ملک خودبخودآزاد ہوگیا۔اگردیکھا جائے توان لوگوں کوآزادی پلیٹ میں رکھ کردی گئی ہے۔مگراس آزادی کا انھوں نے جتنا فائدہ اٹھایا،وہ ہماری سوچ سے بھی باہرہے!نذربایوف آزادی سے پہلے بھی اس ریاست میں کمیونسٹ پارٹی کاسربراہ تھااوراس ملک کاحاکم تھا۔مگرآزادی کے بعد جس عمدہ طریقے سے اس نے اپنے آپکو قومی مفادکے حصول کے لیے تبدیل کیا،وہ بذات خود الف لیلیٰ کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔
آزادی کے وقت یہاں کے تمام انجینئرہجرت کرکے روس واپس چلے گئے۔پورے ملک میں سیکڑوں ایٹم بم موجودتھے۔ان کے پاس محض زراعت کا شعبہ تھاجو ایک کروڑکی آبادی کے لیے گندم پیداکرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔روس نے قصداً اس پورے علاقے کو بہت پسماندہ رکھاہواتھا۔ان کی سیاسی قیادت نے پہلافیصلہ یہ کیاکہ ہم کسی کے دشمن نہیں اورہمارا بھی کوئی دشمن نہیں۔ان کی سرحد پرچین اور روس دونوں موجود ہیں۔ نذر بایوف نے جس دانشمندی سے اپنے ملک کوکسی بھی ممکنہ جنگ، لڑائی یا جھڑپ سے محفوظ رکھا، مجھے اس کی اب تک کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔اس سیاسی فیصلے سے قازقستان کسی بھی پُرتشدد جنگ سے دورہوگیا۔
یہ ان کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔اس کے بعداس نے نسلی تعصب سے بالاترہوکرقوم کی تشکیل کرنی شروع کردی۔ مسلمان،عیسائی اورتمام مذاہب کے لوگوں کویکساں تعلیم اور ترقی کے مواقع فراہم کردیے۔کسی بھی مذہبی رہنماکو اجازت نہیں دی،کہ وہ اکثریت میں ہونے کے باوجودکسی اقلیت کو نقصان پہنچاسکے۔چنانچہ تمام معاشرہ میں130نسلیں اور تمام مذاہب ایک سماجی اورمعاشرتی انصاف کے تحت زندگی گزارنے لگے۔یہ نذربایوف کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔
یہ ملک یورینیم پیداکرنے والاسب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں کی سیاسی قیادت نے فیصلہ کیاکہ وہ ایٹمی طاقت ہونے کی مہنگی دوڑمیں شامل نہیں ہونگے۔انھوں نے ایٹم بم بنانے یا وارہیڈزکودورتک مارکرنے والے کسی قسم کے ہتھیاربنانے سے انکارکردیا۔اس ملک نے اپنی ایٹمی قوت فی الفور بندکر دی۔معاہدے کے مطابق ہزاروں تباہ کن ایٹمی ہتھیار واپس کیے گئے۔یہ نذربایوف کا تیسرابڑا فیصلہ تھا۔وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اس تمام پیسے کواپنے لوگوں کی ترقی کے لیے استعمال کرناچاہتا تھا۔یہ تینوں فیصلے مقامی حالات کے مطابق بروقت اوردور رس تھے۔
اب حکومت کے پاس اپنے لوگوں کی ترقی کے لیے وسائل موجودتھے۔نذربایوف نے دارالحکومت کو الماتہ سے آستانہ منتقل کردیا۔جب یہ فیصلہ کیاگیا تواس شہرمیں کچھ بھی نہیں تھا۔سوویت دورکی پرانی عمارتیں،رہنے کے لیے ادنیٰ درجے کے فلیٹس اورقدیم بازار۔مگر ان لوگوں نے صرف دس برس میں ایک فقیدالمثال کارنامہ انجام دیا۔اس قوم نے ایک نیاشہربنادیا۔
اس میں خوبصورت عمارتیں،انتہائی کشادہ سڑکیں،فلک بوس اپارٹمنٹ بلڈنگز،تجارتی کمپنیوں کے دفاتر اورماڈرن شاپنگ مالزبنا ڈالے۔مجھے اس شہرکے مختلف حصوں میں جاکر ایسے محسوس ہوا کہ میں یورپ یا امریکا کے کسی اچھے شہرمیں ہوں۔ویسے ایک طرح یہ سچ بھی ہے۔یہ دنیاکے تین ایسے ملکوں میں ہے جوآدھے ایشیا اورآدھے یورپ میں ہیں۔آستانہ کی آبادی صرف دس بارہ لاکھ ہے، مگر اس کا انفراسٹرکچر ایک کروڑ سے زیادہ باسیوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ اگلے سوبرسوں کی منصوبہ بندی کے تحت تعمیرکیا گیا ہے۔
اب میں ایک تکلیف دہ پہلوکی طرف آتا ہوں۔ سوویت یونین کے تسلط کے ابتدائی دورمیں آستانہ سے چالیس میل دورایک قیدخانہ بنایاگیاتھا۔یہ دراصل ایک عقوبت خانہ تھا۔اسکانام"الضہار" (ALZHIR)تھا۔اس کیمپ میں اسٹالن کی حکومت، ان خواتین کوقیدکردیتی تھیں،جن کے خاوند حکومت کے بقول کمیونیزم نظریات سے اختلاف رکھتے تھے۔ اس میں اساتذہ،سائنسدان،اپوزیشن سوچ رکھنے والے سیاستدان،دانشور،اہل قلم تمام لوگ شامل تھے۔ان عورتوں کے لیے یہ ایک جہنم بنایاگیاتھا۔ایک وقت میں ہزاروں خواتین یہاں جانوروں کی طرح باڑے میں بندکردی گئی تھیں۔انھیں ہرطرح کی تکلیف دی جاتی تھی۔
اس علاقہ میں شدید برف پڑتی ہے اورکبھی کبھی درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری تک گرجاتاہے۔موسم کی سختی کے مقابلے کے لیے خواتین کو مناسب کپڑے نہیں دیے جاتے تھے۔ان پرخفیہ پولیس کے لوگ تشددکرتے تھے کہ وہ اقرارکریں کہ ان کے خاوند غدار اور ملک دشمن ہیں۔ہزاروں عورتیں تشدد اورموسم کی سختی سے جاں بحق ہوگئیں۔مگرحکومتی جبرکا ایک اور زاویہ بھی تھا۔بچوں کو بھی اپنی ماؤں کے ساتھ غلیظ کوٹھریوں میں رہنے کی اجازت تھی۔ جیسے ہی بچے کی عمرچارسال ہوتی تھی،حکومتی اہلکارآکر بچے کوماں سے زبردستی چھین لیتے تھے۔
اس کے بعد ان بچوں کا نام اور ولدیت تبدیل کرکے یتیم خانوں میں جمع کروا دیاجاتا تھا۔بچوں کو سال میں دوباراپنی ماں کوخط لکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔خطوط میں ان معصوم فرشتوں سے زبردستی لکھوایا جاتا تھا کہ وہ اچھے ماحول میں رہ رہے ہیں اوربہت خوش ہیں۔یہ خط مکمل تبدیل کرکے"الضہار"میں قیدی خواتین کودیے جاتے تھے۔اصل میں یہ خط ان کے لختِ جگرکے نہیں ہوتے تھے۔کسی ماں کومعلوم نہ تھاکہ اس کا بچہ کہاں ہے اورکس حال میں ہے۔ اس طریقے سے لاکھوں معصوم بچے حکومتی جبر کاشکار ہوگئے۔ اگر والدہ قیدخانہ سے باہرآگئی توپھربھی اسے نہیں بتایا جاتا تھا کہ اس کا نورچشم کہاں ہے!مجھے اس عقوبت گاہ جاکرایسے لگاکہ میرے اردگرد ہزاروں ماؤں کی بے آوازفریاد ہے جو اپنے جگرکے ٹکڑوں کے لیے نوحہ خواں ہیں۔
اس کیمپ کے اندرایک سرخ رنگ کاستارہ بناہوا ہے۔ یہ ستارہ درمیان سے ٹوٹاہوا ہے۔یہ دوحصوں میں تقسیم ہے۔ گائیڈ نے بتایاکہ یہ ستارہ وہ بدقسمت عورتیں تھیں جن پرہرظلم ڈھایاگیا مگران کاجرم انھیں معلوم نہیں تھا! خاندانوں کے خاندان بربادہوکرمٹی میں مل گئے۔ مگر کسی پرکوئی مقدمہ چلا نہ سزاہوئی!اب یہ ماضی کاقصہ ہے! مگرمیں یہ دولخت ستارہ دیکھ کردکھ سے منجمد ساہوگیا!مجھے آستانہ سے آگے اس عقوبت گاہ کودیکھنے کے لیے نہیں جانا چاہیے تھا!یاشائد ضرور جانا چاہیے تھا!