ملتان سے چولستان تک

میں انکار یا معذرت کر کے ان کے اس جذباتی اور مشروط سطح پر حقیقی تصورات کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتا تھا

Amjadislam@gmail.com

چند ماہ قبل جب چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کی طرف سے اطلاع ملی کہ وہ مجھے ادبی خدمات کے حوالے سے کوئی ایوارڈ دینا چاہتے ہیں تو میں نے ان کی دعوت صرف اس لیے قبول کر لی کہ جنوبی پنجاب،بالخصوص چولستان کے احباب کو یہ گلہ رہتا ہے کہ حکومت پنجاب ان کے حقوق اور معاشرتی ترقی سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں انھیں یا تو نظر انداز کرتی ہے یا ان کے مسائل کے حل میں مناسب توجہ سے کام نہیں لیتی اور کم وبیش یہی شکایت انھیں وہاں کے ادیبوں اور میڈیا سے بھی رہتی ہے۔

سو میں انکار یا معذرت کر کے ان کے اس جذباتی اور مشروط سطح پر حقیقی تصورات کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتا تھا بعدازاں تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ کونسل کوئی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ نہیں بلکہ ایک NGO ہے جو گزشتہ 17برس سے چولستان کے علاقے اور عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے مختلف سطحوں پر کام کر رہی ہے۔ میرے اصرار پر فاروق احمد خان اور ان کی بیگم رضیہ ملک نے بذریعہ ای میل مجھے اپنی NGO کے تعارف،مقاصد،کارکردگی اور ان سالانہ ایوارڈز کے بارے میں کچھ تفصیلات بھجوائیں جس کے ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں اس بار میرا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔

جب اس کا ذکر ملتان کے دوستوں سے ہوا تو انھوں نے یاد دلایا کہ گذشتہ ملاقات کے دوران میں نے DCO ملتان برادرم زاہد سلیم گوندل کے گھر پر ایک شام ان کے ساتھ گزارنے کا وعدہ بھی کیا تھا اس یاد دہانی میں سب سے پیش پیش برادران افضل شیخ ، شاکر حسین شاکر اور قمر رضا شہزاد تھے، سو طے پایا کہ میں 16مئی کی رات ملتان میں رکوں اور ایک تقریب پذیرائی کی شکل میں کچھ وقت ملتان کے احباب کے ساتھ گزاروں جہاں سے اگلے دن وہ لوگ مجھے ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے بہاولپور پہنچا دیں گے اور یہ کہ میرا قیام سرکٹ ہاؤس میں ہو گا جب کہ تقریب کا اہتمام بھی اسی کے ہال میں کیا جائے گا۔


سچی بات ہے کہ بہت دنوں کے بعد ایسے احباب کو شعر سنانے کا موقع ملا جن میں اعلیٰ درجے کے سخن فہموں کی تعداد 70 فیصد سے بھی زیادہ تھی جب کہ عام ادبی نوعیت کی محفلوں میں ان کا تناسب بہت کم 50 فیصد کو چھوتا ہے اور مشاعروں میں تو اگر 20 فیصد بھی ایسے سامعین مل جائیں تو بہت ہوتے ہیں سو مجھے تھکاوٹ کے باوجود ایک گھنٹے سے زیادہ پڑھنا اچھا لگا کہ سامعین کا ذوق و شوق ایک مسلسل تحریک کا باعث بن رہا تھا، اسٹیج پر برادرم زاہد سلیم گوندل اور کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی انضمام الحق میرے ہم نشین تھے جب کہ نظامت کے فرائض شاکر حسین شاکرنے انجام دیے جنھیں اگر ملتان کی ادبی فضا کا مرکزی نقطہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

رضی الدین رضی نے اپنے بہت خوبصورت مضمون میں گذشتہ تیس برس کی یادوں کو ایسے دل نشین پیرائے میں بیان کیا کہ لطف آ گیا۔ بھائی زاہد سلیم گوندل کی استقبالیہ گفتگو سن کر بار بار خیال آیا کہ اگر ہمارے سارے بیوروکریٹ ادب اور زبان کو انھی کی طرح اپنی ترجیحات میں شامل رکھیں تو بے شمار خوامخواہ کی رکاوٹیں خود بخود دور ہو سکتی ہیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی حکومت جاپان کے سفیر محترم ہیروشی انو ماتا تھے جب کہ ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں سینئر فلم اسٹار محترمہ بہاربیگم اور پی ٹی وی کی معروف شخصیت محتر مہ کنول نصیر،ضیامحی الدین، پروفیسر عبدالرؤف روفی اور ظہیر عباس کے نام نسبتاً زیادہ معروف تھے۔

اس ایوارڈ کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کے شعبوں کا پھیلاؤ اور ایوارڈ یافتگاں کا چناؤ تھا کہ جہاں ان میں اعلیٰ ترین علمی قابلیت اور مقبولیت کے حامل بہت سے مشہور لوگ تھے وہاں ایک بزرگ خاتون نوازش بی بی (جو ایک انتہائی غریب اور دستکار خاتون تھی) نوجوان کوہ پیما اور فاتح ماؤنٹ ایورسٹ عزیزہ ثمینہ بیگ اور زندگی کے بہت سے اہم مگر فراموش کردہ شعبوں میں غیر معمولی خدمات سرانجام دینے والوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جن میں ایک ایسا بہادر اور فرض شناس پولیس آفیسر عنایت اللہ بھی شامل تھا جس نے بے شمار دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار کلوگرام سے زیادہ بارود، بم اسکواڈ کے ایک رکن کے حیثیت سے ناکارہ بھی بنایا تھا جو ہزاروں انسانی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا تھا زراعت ،صحت،انسانی حقوق ،نوجوانوں کی ترقی ،تعلیم وتحقیق،آرٹ،سماجی خدمات اور ادب کے حوالے سے بھی بہت سے ایسے احباب سے تعارف ہوا جن کو اپنے اپنے میدانوں میں بے مثال خدمات کے باوجود وہ پذیرائی نہیں ملی تھی۔

جس کے یہ لوگ بجا طور پر مستحق تھے۔ تقریب کے آغاز سے قبل چولستان کے روائتی رقص اور آتشبازی کا بھی خوبصورت مظاہرہ کیا گیا اور ایوارڈز کے دوران بھی مختلف مقامی اور مہمان فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ پروگرام کی پیش کش بھی بہت عمدہ تھی اور دیگر انتظامات سے بھی منتظمین کی صلاحیت اور محنت کا اندازہ ہو رہا تھا مگر حاصل غزل شعر کی طرح اگر مجھے اس تقریب کی کسی ایک یاد یا تجربے کا انتخاب کرنا ہو تو میرا ووٹ اس کوہ پیما بچی ثمینہ بیگ کی طرف ہو گا جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی نوجوان خواتین کو اپنی مثال سے ایک ایسا اعتماد دیا ہے جو اپنی جگہ پر بے مثال ہے دعا ہے کہ رب کریم ہماری نوجوان نسل کو وہی ہمت اور حوصلہ دے جن کا مظاہرہ اس بیٹی نے کیا ہے۔
Load Next Story