ایک مارشل لاء کالا باغ کے لیے بھی
کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہو یا کوئی اور قومی منصوبہ کیا ہم ایسے پاکستانی منصوبوں کو بھول جائیں گے
جناب شمس الملک ایک غیر معمولی پاکستانی ہیں۔ ان کے رگ و پے میں پاکستان کا خون چلتا ہے اور وہ اسی خون پر جیتے اور زندہ ہیں۔ وہ واپڈا کے چیئرمین رہے۔ خالص پٹھان اور صوبہ پختون خوا کی اولاد۔ وہ کالا باغ ڈیم کی حد تک صرف پاکستانی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ایجنٹ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ پاکستان کو تھر بنانے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔
جناب شمس الملک جس جگہ کے رہنے والے ہیں اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو ان کا گھر بار پانی میں ڈوب جائے گا لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ ایک عرصہ ہو گیا کہ انھوں نے خان عبدالولی خان کے ساتھ ملاقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ میں جب ان کے سامنے گیا تو انھوں نے چھوٹتے ہی مجھ سے کہا تم پٹھان ہو کر کالا باغ کی حمایت کرتے ہو۔
میں نے عرض کیا کہ اس لیے کہ یہ ڈیم پاکستان کی زندگی ہے اور اس میں ہمارا آپ کا صوبہ بھی شامل ہے۔ تب وہ ابھی واپڈا کے چیئرمین اور حکومت کے ملازم تھے لیکن کالا باغ کے اس قدر قائل تھے کہ وہ اس کے خلاف خان عبدالولی خان کی بھی نہیں سنتے تھے اور اب جب وہ ملازمت کو خیر باد کہہ چکے ہیں اس ڈیم کی مہم میں شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک شادی میں میری ان سے ملاقات ہوئی لیکن میں بیماری کی حالت میں تھا اور یہ ملاقات نہ ہونے کے برابر رہی۔ ان کی زیارت اور ان کی مہارت سے فیض یاب ہونا ایک سعادت ہے۔
وہ پانی کی سائنس کے ایک برگزیدہ ماہر ہیں۔ ہماری حکومتیں چونکہ پاکستان کی نہیں اپنے محدود مفادات کی تابع حکومتیں ہوتی ہیں وہ ایسے قومی اثاثوں کی دیکھ بھال اور ان سے استفادے کی کوشش نہیں کرتیں جو ان کے نہیں ملک اور قوم کے خادم ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ وہ شمس الملک ہیں جو کالا باغ کے مخالفوں کو بھارت کا براہ راست ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور وہ نہیں میں کہتا ہوں کہ وہ ان ایجنٹوں کے ہجوم میں مردانہ وار زندگی گزارتے ہیں۔
ان کی یاد ایک سیمینار سے تازہ ہوئی جو کالا باغ پر گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ اس میں گفتگو کرتے ہوئے اس کالا باغی نے کہا کہ قیام پاکستان کی طرح ہمیں اس کے لیے بھی ایک بار پھر متحد ہو کر نکلنا ہو گا۔ محترم المقام جناب شمس الملک نے بتایا کہ اگر ڈیم بن جاتا تو عوام کو بجلی دو روپے فی یونٹ ملنی تھی جو آج 18 روپے ہے۔ سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ' پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ، خیبرپختونخوا کو 20 لاکھ ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملنا تھا۔ کالا باغ کا منصوبہ اب بھی چھ سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔
جناب شمس الملک جیسے آبی ماہر اور دل و دماغ سے پاکستانی کے پاس اس ڈیم اور تعمیر ملک کے دوسرے کئی آبی منصوبے موجود ہیں جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور شکر ہے کہ خان صاحب ان تمام لوگوں کو جو ان منصوبوں کے خلاف ہیں بھارت کا آدمی سمجھتے ہیں۔ مجھے اس بھارتی صحافی کی بات اب پھر یاد آرہی ہے جو اس نے دلی میں کہی تھی کہ اب پاکستان کا ذکر نہ کریں اور وقت ضایع نہ کریں۔
اس سینئر صحافی کے لہجے میں جو حقارت تھی اس کی بے پناہ تلخی اب تک میرے رگ و پے میں ہے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے لیڈر بھارت کی سازشوں سے باخبر ہیں یا نہیں ان سے ہراساں اور خوفزدہ نہیں ہیں جب کہ دن رات یہ سب دیکھ رہے ہیں بلکہ بے پناہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے نئے حکمران بھارت کے ساتھ دوستی کو ہی اپنا مقصد سمجھتے ہیں اور اس کے اعلان میں ذرا سی شرم بھی نہیں کرتے۔ اگر قائداعظم زندہ ہو سکتے تو وہ ہم پاکستانیوں کے نام ایک پیغام ضرور جاری کرتے کہ بھائیوں میں آپ کو دھوکا دے کر شرمندہ ہوں کیونکہ آپ پاکستان کے مخالفوں کے ساتھ دوستی کے لیے مرے جا رہے ہیں جب کہ میں نے ان سے دشمنی کر کے یہ ملک حاصل کیا تھا۔
کالا باغ کی بات ہو رہی تھی اور اس بارے میں ایک تعجب انگیز پریس بریفنگ میرے ذہن میں کلبلاتی رہتی ہے جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے سندھ میں وہاں کے مقامی صحافیوں کے سامنے کی تھی۔ جنرل صاحب کی یہ بریفنگ پوری کی پوری سرکاری ٹی وی سے نشر کی گئی۔
اس میں جنرل صاحب نے کالا باغ کے منصوبے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا تھا اس کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہنے دیا تھا یہ اتنی مکمل اور مثبت تقریر تھی کہ اس کے بعد کالا باغ کے خلاف کوئی بات ذہن میں باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ جب صدر صاحب کی تقریر ختم ہوئی تو انھوں نے سوالات کی دعوت دی۔ حاضرین ڈیم کے مخالف تھے ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں مخالفانہ سوالات کیے۔ جنرل مشرف نے ان کے بلاشبہ شافی جواب دیے اور لاجواب کر دیا۔ جب سوالات بند ہو گئے تو جنرل نے اصرار کیا کہ مزید کوئی سوال، اس پر ایک صحافی نے اٹھ کر کہا اس کے باوجود کالا باغ نا منظور۔ اس جواب پر یہ تقریب ختم کر دی گئی۔
اس پوری تقریب کی ریکارڈنگ ٹی وی کے پاس یقیناً موجود ہو گی۔ وہ اس نادر دستاویز کو سنبھال کر رکھیں بلکہ فوج کا کوئی ریکارڈ رکھنے کا ادارہ ہو تو اس کے حوالے کردیں شاید کبھی کسی پاکستانی حکومت کا ایمان اور غیرت جاگ اٹھے اور وہ اس زندگی بخش منصوبے کے بارے میں قوم کو ایک مقتدر اور پرمغز گفتگو سے باخبر کر سکے۔
کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہو یا کوئی اور قومی منصوبہ کیا ہم ایسے پاکستانی منصوبوں کو بھول جائیں گے۔ ہمارے ہاں بات بات پر مارشل لاء لگتے رہے ہیں جن میں جنرل مشرف والا بھی شامل ہے تو کیا کوئی مارشل لاء قومی مسائل کو زندہ کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے نافذ نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم سقوط ڈھاکا کے لیے مارشل لاء لگا سکتے ہیں تو استحکام پاکستان کے لیے کیوں نہیں۔
جناب شمس الملک جس جگہ کے رہنے والے ہیں اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو ان کا گھر بار پانی میں ڈوب جائے گا لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ ایک عرصہ ہو گیا کہ انھوں نے خان عبدالولی خان کے ساتھ ملاقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ میں جب ان کے سامنے گیا تو انھوں نے چھوٹتے ہی مجھ سے کہا تم پٹھان ہو کر کالا باغ کی حمایت کرتے ہو۔
میں نے عرض کیا کہ اس لیے کہ یہ ڈیم پاکستان کی زندگی ہے اور اس میں ہمارا آپ کا صوبہ بھی شامل ہے۔ تب وہ ابھی واپڈا کے چیئرمین اور حکومت کے ملازم تھے لیکن کالا باغ کے اس قدر قائل تھے کہ وہ اس کے خلاف خان عبدالولی خان کی بھی نہیں سنتے تھے اور اب جب وہ ملازمت کو خیر باد کہہ چکے ہیں اس ڈیم کی مہم میں شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک شادی میں میری ان سے ملاقات ہوئی لیکن میں بیماری کی حالت میں تھا اور یہ ملاقات نہ ہونے کے برابر رہی۔ ان کی زیارت اور ان کی مہارت سے فیض یاب ہونا ایک سعادت ہے۔
وہ پانی کی سائنس کے ایک برگزیدہ ماہر ہیں۔ ہماری حکومتیں چونکہ پاکستان کی نہیں اپنے محدود مفادات کی تابع حکومتیں ہوتی ہیں وہ ایسے قومی اثاثوں کی دیکھ بھال اور ان سے استفادے کی کوشش نہیں کرتیں جو ان کے نہیں ملک اور قوم کے خادم ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ وہ شمس الملک ہیں جو کالا باغ کے مخالفوں کو بھارت کا براہ راست ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور وہ نہیں میں کہتا ہوں کہ وہ ان ایجنٹوں کے ہجوم میں مردانہ وار زندگی گزارتے ہیں۔
ان کی یاد ایک سیمینار سے تازہ ہوئی جو کالا باغ پر گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ اس میں گفتگو کرتے ہوئے اس کالا باغی نے کہا کہ قیام پاکستان کی طرح ہمیں اس کے لیے بھی ایک بار پھر متحد ہو کر نکلنا ہو گا۔ محترم المقام جناب شمس الملک نے بتایا کہ اگر ڈیم بن جاتا تو عوام کو بجلی دو روپے فی یونٹ ملنی تھی جو آج 18 روپے ہے۔ سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ' پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ، خیبرپختونخوا کو 20 لاکھ ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملنا تھا۔ کالا باغ کا منصوبہ اب بھی چھ سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔
جناب شمس الملک جیسے آبی ماہر اور دل و دماغ سے پاکستانی کے پاس اس ڈیم اور تعمیر ملک کے دوسرے کئی آبی منصوبے موجود ہیں جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور شکر ہے کہ خان صاحب ان تمام لوگوں کو جو ان منصوبوں کے خلاف ہیں بھارت کا آدمی سمجھتے ہیں۔ مجھے اس بھارتی صحافی کی بات اب پھر یاد آرہی ہے جو اس نے دلی میں کہی تھی کہ اب پاکستان کا ذکر نہ کریں اور وقت ضایع نہ کریں۔
اس سینئر صحافی کے لہجے میں جو حقارت تھی اس کی بے پناہ تلخی اب تک میرے رگ و پے میں ہے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے لیڈر بھارت کی سازشوں سے باخبر ہیں یا نہیں ان سے ہراساں اور خوفزدہ نہیں ہیں جب کہ دن رات یہ سب دیکھ رہے ہیں بلکہ بے پناہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے نئے حکمران بھارت کے ساتھ دوستی کو ہی اپنا مقصد سمجھتے ہیں اور اس کے اعلان میں ذرا سی شرم بھی نہیں کرتے۔ اگر قائداعظم زندہ ہو سکتے تو وہ ہم پاکستانیوں کے نام ایک پیغام ضرور جاری کرتے کہ بھائیوں میں آپ کو دھوکا دے کر شرمندہ ہوں کیونکہ آپ پاکستان کے مخالفوں کے ساتھ دوستی کے لیے مرے جا رہے ہیں جب کہ میں نے ان سے دشمنی کر کے یہ ملک حاصل کیا تھا۔
کالا باغ کی بات ہو رہی تھی اور اس بارے میں ایک تعجب انگیز پریس بریفنگ میرے ذہن میں کلبلاتی رہتی ہے جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے سندھ میں وہاں کے مقامی صحافیوں کے سامنے کی تھی۔ جنرل صاحب کی یہ بریفنگ پوری کی پوری سرکاری ٹی وی سے نشر کی گئی۔
اس میں جنرل صاحب نے کالا باغ کے منصوبے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا تھا اس کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہنے دیا تھا یہ اتنی مکمل اور مثبت تقریر تھی کہ اس کے بعد کالا باغ کے خلاف کوئی بات ذہن میں باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ جب صدر صاحب کی تقریر ختم ہوئی تو انھوں نے سوالات کی دعوت دی۔ حاضرین ڈیم کے مخالف تھے ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں مخالفانہ سوالات کیے۔ جنرل مشرف نے ان کے بلاشبہ شافی جواب دیے اور لاجواب کر دیا۔ جب سوالات بند ہو گئے تو جنرل نے اصرار کیا کہ مزید کوئی سوال، اس پر ایک صحافی نے اٹھ کر کہا اس کے باوجود کالا باغ نا منظور۔ اس جواب پر یہ تقریب ختم کر دی گئی۔
اس پوری تقریب کی ریکارڈنگ ٹی وی کے پاس یقیناً موجود ہو گی۔ وہ اس نادر دستاویز کو سنبھال کر رکھیں بلکہ فوج کا کوئی ریکارڈ رکھنے کا ادارہ ہو تو اس کے حوالے کردیں شاید کبھی کسی پاکستانی حکومت کا ایمان اور غیرت جاگ اٹھے اور وہ اس زندگی بخش منصوبے کے بارے میں قوم کو ایک مقتدر اور پرمغز گفتگو سے باخبر کر سکے۔
کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہو یا کوئی اور قومی منصوبہ کیا ہم ایسے پاکستانی منصوبوں کو بھول جائیں گے۔ ہمارے ہاں بات بات پر مارشل لاء لگتے رہے ہیں جن میں جنرل مشرف والا بھی شامل ہے تو کیا کوئی مارشل لاء قومی مسائل کو زندہ کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے نافذ نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم سقوط ڈھاکا کے لیے مارشل لاء لگا سکتے ہیں تو استحکام پاکستان کے لیے کیوں نہیں۔