سوسائٹی گرل نے سنگیتا کو ڈائریکٹر بنایا

مسرور انور کی طرح تسلیم فاضلی کے ترنم سے بھی اکثر موسیقار انسپائر ہوتے تھے۔

hamdam.younus@gmail.com

KARACHI:
اداکارہ سنگیتا نے اپنی فلم ''سوسائٹی گرل'' سے ڈائریکشن کا آغاز کیا تھا، جب اداکار محمد علی نے سنگیتا کی ڈائریکشن میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جو سائننگ اماؤنٹ کی رقم محمد علی کو بطور ہیرو بھجوائی گئی تھی، وہ محمد علی نے واپس کر دی تھی تو سنگیتا ابتدا میں کافی اپ سیٹ ہو گئی تھی۔ سنگیتا کے والدین نے بھی اس کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ ابھی ہدایت کاری کے میدان میں نہ آئے مگر سنگیتا نے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

سنگیتا کے اتنے پختہ عزائم دیکھتے ہوئے گھر والوں نے اس کے فیصلے کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیے تھے انھی دنوں کراچی کے ایک باصلاحیت ٹی وی آرٹسٹ غلام محی الدین کو مشہور فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے اپنی فلم ''میرا نام ہے محبت'' کے لیے لاہور بلا لیا تھا اور وہ ان دنوں شباب اسٹوڈیو ہی میں ٹھہرا ہوا تھا۔ سنگیتا کو اس بات کا علم تھا کہ میری غلام محی الدین سے اچھی واقفیت ہے۔

سنگیتا نے مجھ سے کہا کہ یونس ہمدم! میں چاہتی ہوں کہ اپنی فلم ''سوسائٹی گرل'' میں غلام محی الدین کو اپنے ساتھ ہیرو کاسٹ کروں اس کی ہائٹ بھی ہے اور وہ محمد علی کا ایک بہتر نعم البدل ہو سکتا ہے۔

میں ایک دن اداکار ناظم کو لے کر شباب اسٹوڈیو گیا اور غلام محی الدین سے ملاقات کی۔ وہ مجھ سے مل کر بڑا خوش ہوا۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں اداکارہ سنگیتا کا تذکرہ چھیڑتے ہوئے کہا کہ یار! سنگیتا کی خواہش ہے کہ تم اس کی کسی فلم میں کام کرو۔ وہ بولا یار ہمدم۔ مجھے تو لاہور میں اچھی پروڈکشنز کی فلموں کی ضرورت ہے، تم سنگیتا سے بات کر لو تو ایک ملاقات ہو جائے گی مجھے تو اچھی فلموں کی ضرورت ہے اور شباب صاحب نے مجھ پر ایسی کوئی پابندی بھی نہیں لگائی ہے کہ میں ان کی فلموں کے علاوہ باہر کی کوئی فلم نہ کروں۔ ہمارے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ پھر میں نے غلام محی الدین سے کہا کہ سنگیتا نے اب ہدایت کاری کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

اپنی فلم ''سوسائٹی گرل'' کو وہ خود ڈائریکٹ کرے گی۔ اس نے فلمسازی کا ایک طویل پروگرام بنایا ہے جس کے لیے وہ مختلف رائٹرز سے کہانیاں لکھوا رہی ہے۔ تم چاہو تو فلم کی کہانی سن لو۔ غلام محی الدین نے سنگیتا سے ملاقات کے دوران ''سوسائٹی گرل'' کی کہانی بھی سنی وہ کہانی اور اس میں اس کو اپنا کردار بھی پسند آیا۔ اسی ملاقات میں دیگر معاملات بھی طے ہو گئے۔ اور ایورنیو اسٹوڈیو میں ''سوسائٹی گرل'' کی باقاعدہ شوٹنگ کا آغاز کر دیا گیا۔

شروع شروع میں فلم کے سیٹ پر فلم انڈسٹری کی چیدہ چیدہ شخصیات یہ دیکھنے آئی تھیں کہ واقعی سنگیتا فلم کی ڈائریکشن خود دے رہی ہے یا پھر اس کا کیمرہ مین پس پردہ ہدایت کار ہے مگر سنگیتا خود کیمرہ آپریٹ کرتے ہوئے سیٹ کا جائزہ لیتی تھی۔ ایک ایک منظر کو کیمرے کی آنکھ سے خود دیکھتی تھی اور پھر شوٹنگ کرتی تھی۔

ایک طرف فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی تو دوسری طرف فلم کے گیتوں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ بھی تیزی کے ساتھ جاری تھا۔ اب سنگیتا کو ''سوسائٹی گرل'' کے لیے ایک تھیم سانگ کی ضرورت تھی۔ شاعر تسلیم فاضلی کو اس گیت کی ذمے داری دی گئی تھی۔ نذیر علی فلم کے موسیقار تھے، اس فلم میں سنگیتا نے موسیقار کمال احمد کی بجائے نذیر علی کو موقع دیا تھا کیونکہ ان دنوں نذیر علی کا بھی بڑا نام تھا اور سنگیتا اس فلم میں کچھ change بھی چاہتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں نغمہ نگار تسلیم فاضلی سنگیتا کے آفس میں آ گیا تھا اب موسیقار نذیر علی کا انتظار کیا جا رہا تھا۔

تسلیم فاضلی چین اسموکر تھا، اس وقت مجھے تسلیم فاضلی کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات یاد آ رہی تھی جب وہ فلم ''پھر صبح ہوگی'' کے لیے ناشاد کی موسیقی میں گانے لکھ رہا تھا، فلمساز رفیق چوہدری میرا بہت اچھا دوست تھا، صدر میں اس کی چوہدری فرزند علی قلفی ہاؤس کے نام سے کئی بھائیوں کی ایک دکان تھی۔ میں اکثر شام کو جب رفیق چوہدری کی دکان پر ڈیوٹی ہوتی تھی اس سے ملنے چلا جاتا تھا۔

اس دن بھی میں اس کی دکان پر اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران موسیقار ناشاد کے ساتھ تسلیم فاضلی کی وہاں آمد ہوئی اس کے منہ میں پان کی گلوری اور ہاتھوں میں گولڈ لیف کا پیکٹ تھا۔

وہ ڈھیلا ڈھالا پاجامہ اور سفید بوسکی کا کرتہ پہنے ہوئے تھا اور پکا دلی والا لگ رہا تھا۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملا کیونکہ رفیق چوہدری نے اس سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا یہ میرے دوست یونس ہمدم ہیں۔ شاعر ہیں اور تم بھی شاعر ہو تو فاضلی نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ پھر فاضلی نے مجھے پیکٹ بڑھاتے ہوئے سگریٹ آفر کی تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ ''شکریہ فاضلی صاحب۔ میں ابھی تک اس نعمت سے محروم ہوں۔'' تو اس نے حیرت سے کہا تھا ارے! کمال ہے یار! شاعر ہوتے ہوئے سگریٹ سے بیگانے۔


میں نے کہا تھا ہاں بس یوں ہی سمجھ لو۔ وہ ملاقات بڑی اچھی ملاقات رہی تھی اور اب جب کہ میں بھی لاہور میں بحیثیت نغمہ نگار فلمی دنیا سے وابستہ ہو چکا تھا تو تسلیم فاضلی اور میں کئی فلموں میں ساتھ لکھنے کے بھی آرزو مند تھے۔ اسی دوران موسیقار نذیر علی بھی پروڈکشن آفس میں اپنے سازندوں کے ساتھ آ گئے تھے انھیں میڈم سنگیتا کا پیغام مل چکا تھا اور وہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ سنگیتا نے آتے ہی نذیر علی اور فاضلی سے کہہ دیا تھا کہ میں شوٹنگ میں مصروف ہوں۔ تم لوگ آج ہی چاہے کتنا بھی وقت لگ جائے چاہے ساری رات گزر جائے۔

''سوسائٹی گرل'' کا تھیم سانگ تیار کر کے اٹھو گے۔ سنگیتا یہ کہہ کر فلور پر شوٹنگ کرنے چلی گئی اور تسلیم فاضلی، نذیر علی کے ساتھ گیت کی تیاری کا موڈ بنانے لگے۔ اس دوران تسلیم فاضلی نے دو تین سگریٹ پھونک دیے۔ پھر وہ ایک دم نذیر علی سے کہنے لگا یار! ہمیں زیادہ جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فلم کا نام ہے ''سوسائٹی گرل'' اور ایک سوسائٹی گرل کیا ہوتی ہے۔ وہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسی لڑکی ہوتی ہے جسے کٹی پتنگ کا نام دیا جاتا ہے جو کبھی کسی کے ساتھ اور کبھی کسی کے ہاتھ لگتی ہے۔ پھر تسلیم فاضلی نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بڑے خوبصورت ترنم کے ساتھ ایک مصرعہ گنگنایا:

اک کٹی پتنگ ہوتی ہے سوسائٹی گرل

مسرور انور کی طرح تسلیم فاضلی کے ترنم سے بھی اکثر موسیقار انسپائر ہوتے تھے۔ نذیر علی نے بھی اس وقت تسلیم فاضلی کے ترنم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً ہارمونیم کے ساتھ اور طبلے کی سنگت میں اسی مصرعے کو دھن کے ساتھ ڈویژن کر کے سنایا:
اک کٹی پتنگ ہوتی ہے
سوسائٹی گرل
سوسائٹی گرل
سوسائٹی گرل

اور پھر فوراً ہارمونیم طبلہ بند کر کے سب کی طرف دیکھنے لگا۔ ردھم اور مصرعہ کی ڈویژن بھی کمال تھی سب نے کہا نذیر علی! ایک بار پھر سناؤ۔ نذیر علی نے دوبارہ وہی مصرعہ مکھڑے کے انداز میں سنایا تو سب کے دل پر نقش ہو گیا، اسی دوران سنگیتا بھی اپنی شوٹنگ کے فلور سے اپنے آفس میں کسی کام سے آئی تو اسے بھی وہ مکھڑا سنایا گیا تو سنگیتا بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی اور اس نے اس وقت تھیم سانگ کا مکھڑا اوکے کر دیا۔

تسلیم فاضلی فلم انڈسٹری میں ان دنوں بڑا تیز رفتار نغمہ نگار مشہور تھا۔ اس نے اس دوران دو سگریٹ اور پیے اور گیت کے دو انترے مزید لکھ کر گیت مکمل کر دیا اسی ہفتے وہ گیت ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کر لیا گیا۔ جسے سنگیتا نے اپنی شوٹنگ شیڈول میں رکھتے ہوئے وہ تھیم سانگ خود پر عکس بند کرایا اس عکس بندی میں اداکارہ کویتا نے بھی حصہ لیا تھا۔

''سوسائٹی گرل'' پھر تیز رفتاری کے ساتھ ایورنیو اسٹوڈیو میں مکمل کر لی گئی اور سنگیتا نے اپنی اس فلم کی تشہیر بھی بڑے پیمانے پر کی تھی۔ فلم کے اسٹوڈیو شو ہی میں، فلم کی کامیابی کی باتیں شروع ہو گئی تھیں اور ساری فلم انڈسٹری کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ سنگیتا نے بڑی جانفشانی اور محنت سے ڈائریکشن کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔

اب سب کو بس فلم کی ریلیز کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔ یہ فلم سنگیتا کے لیے بھی ایک بہت بڑا امتحان تھی کیونکہ فلم اسٹوڈیو میں چاہے کتنی ہی اچھی بنی ہو اگر سینماؤں پر بھی کامیاب ہوتی ہے تو بات بنتی ہے۔ فلم جب ریلیز ہوئی تو اس نے میدان مار لیا اور سنگیتا ''سوسائٹی گرل'' کے سپر ہٹ ہونے کے بعد ایک کامیاب ہدایت کارہ کا اعزاز حاصل کر چکی تھی۔
Load Next Story