خیال کی طاقت

ہمارے خیالات ہی ہماری زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔ آپ کا کسی بات پر یقین ہی حقیقت کو جنم دیتا ہے،امریکی ماہر نفسیات


Magazine Report May 23, 2015
البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ بے وقوفی یہ ہے کہ ایک ہی کام کو بار بار ایک ہی طریقے سے کرنا اور مختلف نتائج کی توقع رکھنا، فوٹو : فائل

زندگی بہت دلچسپ ہے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ اسے ڈیزائن کرنے کے بجائے بسر کررہے ہیں۔ جی ہاں ہم اسے ایک آرکٹیکٹ (Architect) کی طرح ڈیزائن کرسکتے ہیں۔ ہر چیز کا آغاز ایک خیال سے ہوتا ہے۔ خیال ایک پہلا قدم ہے اس کے بغیر کوئی بھی عمل ممکن نہیں۔ آئیے ہم ذرا تفصیل سے سمجھتے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ جب ہاتھی کے بچوں کو سدھایا جاتا ہے تو انہیں ایک زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ ہاتھی اس زنجیر کو کھینچتا ہے اور اس سے رہا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جلد ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ بے سود ہے اور وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ جوں جوں ہاتھی بڑا ہوتا ہے تو اس کی زنجیر کو چھوٹا کر دیا جاتا ہے اور آخر میں ایک پتلی سی رسی کے ساتھ اسے باندھ دیا جاتا ہے۔

لیکن ہاتھی کے ذہن کے مطابق یہ بڑی مضبوط زنجیر ہوتی ہے اور وہ اسے توڑ کر کہیں بھاگنے کا نہیں سوچتا۔ وہ جسمانی طور پر اسے بڑی آسانی سے توڑ سکتا ہے۔ لیکن ذہنی طور پر ایک قیدی کی طرح ہوتا ہے۔ جو چیز اسے فرار ہونے سے روکے ہوئے ہے وہ کسی بھی رسی یا زنجیر سے زیادہ ہے۔ یہ اس کا خیال ہی ہوتا ہے جو اسے کہیں بھاگنے نہیں دیتا۔ جب تک یہ رسی اس کی ٹانگ کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ وہ بھاگنے کی کوشش نہیں کرتا۔ بالکل اسی طرح ہم انسانوں نے بھی خود کو ایسی زنجیروں سے باندھ رکھا ہوتا ہے۔ ہم اپنے دماغ میں ان فرضی اور عارضی رسیوں سے خود کو پابند کرلیتے ہیں اور خود کو ایک محدود زندگی گزارنے میں مصروف کردیتے ہیں۔ حالانکہ ہم ان رسیوں سے فوراً نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

اصل میں ہم نے اپنے ذہن کو منفی خیالات سے بھرا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ایک آزادانہ اور بھر پور زندگی گزارنے میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ ان محدود خیالات سے واقف نہ ہوں کیونکہ یہ لاشعوری خیالات کہلاتے ہیں۔

ہم جس بھی چیز کے بارے میں مسلسل سوچتے ہیں وہ ہمارے لاشعور میں چلی جاتی ہے اور ہمارا لاشعور اس سوچ پر چاہے وہ (منفی ہو یا مثبت) عمل شروع کردیتا ہے۔ اسی لیے ہماری زندگی میں اب تک جو کچھ بھی ہوچکا ہے اس کے ذمہ دار صرف ہم خود ہیں اور اس کی زیادہ تر وجہ ہمارے ماضی کے تجربات، حالات و واقعات ہیں۔

ہمارے خیالات بچپن سے ہی ہمارے لاشعور میں اپنی جگہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اردگرد کا ماحول ہمارے والدین، اساتذہ، مذہبی رہنما، ذرائع ابلاغ کا بھی بھر پور حصہ ہوتا ہے۔ پیدائش سے لے کر سات سال کی عمر، بچے کی تربیت کی ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا ذہن کچا ہوتا ہے اور بچہ اپنے ماحول سے اس وقت جو کچھ سیکھتا ہے ساری عمر اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب اس کے ذہن کو پروگرامنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک صحیح سمت یا ڈائریکشن کی جس پر چل کر آئندہ زندگی میں وہ کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔

یہی بچپن کی پروگرامنگ زندگی کے متعلق آپ کے نظریات کو بناتی ہے اور اس سے یہ متعین ہوتا ہے کہ آپ زندگی کے بارے میں خوشگوار خیالات رکھتے ہیں یا غم اور افسوس کرنے کے۔ یہ سب آپ کے خیال جیسا ہے، جیسا کہ کچھ لوگ بغیر کسی وجہ کے ہی خود کو دوسروں سے کمتر محسوس کرتے ہیں اور یہ کہ امیر، امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور غریب، غریب تر۔ اور یہ سچ بھی ہے کہ امیر، امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ انہوں نے اپنا سوچنے کا ایک انداز بنالیا ہوتا ہے اور وہ سمجھے ہیں کہ وہ سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔

آپ کی موجودہ زندگی آپ کے ماضی کے خیالات کا آئینہ ہے۔ آپ اس وقت زندگی میں جہاں کہیں بھی ہیں وہ آپ کی ماضی میں کی گئی پروگرامنگ کا حصہ ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ ''میں یقین کرلوں گا جب میں دیکھ لوں گا۔'' لیکن اس کا متضاد حقیقت ہے کہ ''آپ دیکھ لیں گے جب آپ یقین کرلیں گے۔''

ایک خیال سے ہی حقیقت جنم لیتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ہم کاشت کرتے ہیں اور پھر فصل حاصل ہوتی ہے۔ اگر آپ زندگی میں کچھ بننا چاہتے ہیں، حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ثابت قدمی کے ساتھ اس خیال پر جمے رہیں کہ ایک کامیاب، محبت سے بھر پور، خوشیوں سے بھری زندگی پر آپ کا پورا حق ہے۔

آپ سچے دل سے جس چیز کی بھی تمنا کرتے ہیں وہ چیز آپ کو مل کر ہی رہتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی توجہ صرف اسی چیز پر ہی رکھیں جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو آپ کو نہیں چاہیے اسے کبھی توجہ نہ دیں۔ آپ کی کامیابی اور ناکامی کا آپ کی سوچ اور خیالات سے گہرا تعلق ہے۔ فورڈ کار کے بانی ہنری فورڈ نے کہا تھا کہ آپ کا یقین ہی آپ کو کامیاب یا ناکام بناتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اپنی کامیابی کے بارے میں سوچیں اور یقین کرلیں کہ آپ حاصل کرلیں گے تو جتنا مضبوط آپ کا یقین ہوگا اتنی ہی جلدی آپ نتائج پائیں گے۔

البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ بے وقوفی یہ ہے کہ ایک ہی کام کو بار بار ایک ہی طریقے سے کرنا اور مختلف نتائج کی توقع رکھنا۔ آپ کے ماضی کے خیالات، ماضی میں کیے گئے فیصلے اور عمل اس بات کے ذمہ دار ہیں جن کی وجہ سے آپ زندگی میں اس مقام پر ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ماضی چاہے جیسا بھی ہو اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے آپ کا جو آج ہے وہی سب کچھ ہے۔

آپ کا آج ہی آنے والے کل کو بہتر بنائے گا۔ اگر آپ زندگی میں زیادہ خوشیاں، کامیابیاں اور بھی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آج ہی سے اپنی منفی سوچوں کو بدل ڈالیں۔ سب سے پہلے اپنی قدر کیجئے۔ آپ بہت خاص ہیں اور ہر انسان خاص ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو کسی نہ کسی خوبی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس لیے اپنی اہمیت سمجھتے ہوئے اپنے خیالات کو بھی اہمیت دیں انہیں کبھی حقیر نہ جانیے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔

امریکہ کے سب سے بڑے ماہر نفسیات پروفیسر ولیم جیمز نے کہا تھا: ''ہمارے خیالات ہی ہماری زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔ آپ کا کسی بات پر یقین ہی حقیقت کو جنم دیتا ہے۔'' ہم جیسا سوچتے ہیں ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ صرف آپ اپنے خیالات ہی میں تبدیلی کرکے اپنی زندگی میں انقلابی تبدیلی لاسکتے ہیں۔

ایمرسن نے کہا تھا ''ایک انسان سارا دن جو سوچتا ہے وہی بن جاتا ہے'' اور ولیم جیمز نے کہا تھا کہ ہمارے عہد کی یہ سب سے بڑی دریافت ہے کہ انسان اپنی سوچ کو تبدیل کرکے زندگی کو بدل سکتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے طاقتور مگر سادہ اصول ہے لیکن کم لوگ ہی اسے سمجھ پاتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔

آپ کے خیالات پر صرف آپ کا کنٹرول ہے اور اس کا انحصار آپ پر ہے کہ آپ منفی سوچتے ہیں یا مثبت۔ اگر آپ میں منفی جذبات پائے جاتے ہیں اور آپ کے خیالات محدود ہیں تو آپ اسی تناسب سے کامیابی حاصل کریں گے۔ اگر آپ کی سوچ مثبت ہے اور آپ محبت، خوشی، صحت اور خوشحالی کے متعلق سوچتے ہیں اور دوسروں کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں تو آپ کی زندگی میں بھی ہر طرف خوشیاں اور کامیابیاں ہوں گی۔

ہم اپنے اندر اگر مثبت خیالات رکھتے ہیں تو ہمارے عمل بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس طرح ان کے نتائج بھی مثبت ہوں گے۔ اپنے خیالات کو کنٹرول کرنا سیکھیں اور یاد رکھیں کہ صرف آپ اور آپ اپنے مستقبل میں ہونے والی خوشیوں اور کامیابیوں کے ذمہ دار ہیں اور اپنی قسمت کے بھی۔

جوں ہی آپ اس اصول کو سمجھ لیتے ہیں تو آپ کے ہاتھوں میں اپنی زندگی کا کنٹرول آجاتا ہے اور اس بات کو ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کرلیں کہ جیسا آپ سوچیں گے ویسے ہی بن جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں