چک چی اسکیمو نسل کے لوگ

ان کا بنیادی پیشہ سمندروں میں پائے جانے والے جانوروں کا شکار ہے جس پر ان کا گزارہ ہوتا ہے

1934میں یہاں رہنے والے 71 فی صد چکی چی ابھی تک خانہ بدوشی کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ فوٹو : فائل

لاہور:
''چک چی'' مغربی چکوٹکا میں رہنے والے وہ مقامی اسکیمو ہیں جو جزیرہ نما ''چک چی'' اور اس کے سمندری کناروں پر آباد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی آبادیاں بحر منجمد شمالی کے بیرنگ سمندر والے خطے میں بھی پائی جاتی ہیں جو روسی فیڈریشن کی حدود میں آتی ہیں۔ ''چک چی لوگ'' یا ''چک چی اسکیمو'' اپنی ''چک چی زبان'' بولتے ہیں۔ اس زبان کے اصل وارث وہ لوگ ہیں جو Okhotsk Sea کے اطراف میں رہتے بستے ہیں۔

٭چک چی کی ثقافتی تاریخ:چک چی لوگوں کی اکثریت Chukotka Autonomous Okrug میں رہتی ہے جو ایک آزاد اور خود مختار خطہ ہے۔ لیکن اس قوم کے کچھ لوگ پڑوسی Sakha Republic میں بھی رہتے ہیں۔ یہ جمہوریہ Magadan Oblast سے لے کر جنوب مغرب اور Koryak Autonomous Okrugسے لے کر جنوب تک پھیلا ہوا ہے۔



چند ایک چک چی روس کے دوسرے علاقوں میں بھی رہتے ہیں اور بعض چک چی اسکیمو تو یورپ اور شمالی امریکا کے ملکوں تک میں آباد ہیں۔ دنیا بھر میں چک چی لوگوں کی آبادی مجموعی طور پر 16000سے تھوڑی سی زیادہ ہے۔چک چی لوگ روایتی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہیں: ان کا ایک حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ساحلوں پر اور سمندر کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔

یہاں ان لوگوں نے اپنے گھر اور بستیاں بنائی ہیں اور ان کا بنیادی پیشہ سمندروں میں پائے جانے والے جانوروں کا شکار ہے جس پر ان کا گزارہ ہوتا ہے۔ چک چی لوگوں کی دوسری قسم وہ ہے جو عام طور سے قطب شمالی کے بے آب و گیاہ اور سرد ترین میدانوں میں رہتی ہے۔ یہ لوگ خانہ بدوش ہیں اور ان کی معیشت کا سارا دارو مدار رینڈیئر پر ہے۔ یہ لوگ رینڈیئر پالتے ہیں اور ٹنڈرا کے خشک میدانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ سمندر سے دور رہتے ہیں اور رینڈیئر کے گلے پالتے ہیں جو ان کی روزی روٹی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

''چک چی'' ایک روسی نام ہے جو ''چک چی'' لفظ Chauchuسے بنا ہے جس کا مطلب ہے: رینڈیئر سے مالا مال۔ یہ لفظ بنیادی طور پر رینڈیئر پالنے والے ''چک چی'' لوگ استعمال کرتے تھے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ خود کو بحری یا سمندری ''چک چی'' لوگوں سے الگ ظاہر کرسکیں۔ بحری یا سمندری ''چک چی'' افراد کو اصل میں Anqallyt کہہ کر پکارا جاتا تھا، جس کے معنیٰ ہیں: سمندری لوگ، جب کہ مجموعی طور پر ''چک چی'' نسل کے ارکان کے لیے عام طور سے Luoravetlanکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کے لفظی معنیٰ ہیں: سچا یا دیانت دار فرد۔



٭ ''چک چی'' مذہب:اس مذہب میں ہر چیز کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ چاہے وہ جان دارہویا بے جان، وہ روح رکھتی ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک بغیر روح کے اس دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ روح بری بھی ہوسکتی ہے اور اچھی بھی۔ ہر چیز کی روح یا تو مفید اور کارآمد ہوسکتی ہے یا پھر نقصان دہ ہوسکتی ہے اور کسی کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہے۔

بعض چک چی دیومالائی داستانوں اور روایتی کہانیوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس دنیا کا مالک کوئی ایک نہیں بلکہ ایک سے زیادہ خدا ہیں۔ 1920کی دہائی میں یعنی سوویت یونین کے دور میں چک چی مذہبی رسوم کی ادائیگی پر پابندی عائد تھی۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ریاست کے تحت چلائے جانے والے فارمز کو ازسر نو منظم کیا گیا اور چند ایک کو پرائیوٹائز بھی کیا گیا تھا۔ لیکن یہ سارا عملChukotka کی دیہی معیشت کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوا اور اس سے یہاں کے لوگوں کو جو نقصان پہنچا اور اس کے جو بھی اثرات مرتب ہوئے، یہ خطہ ابھی تک ان سے مکمل طور پر نکل نہیں سکا ہے۔



اس وقت صورت حال یہ ہے کہ Chukotka کے بے شمار دیہات میں متعدد دیہی چک چی اور ان کے ساتھ ساتھ متعدد روسی بھی اس قدر بے بس اور لاچار ہوگئے ہیں کہ صرف انسانی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے جانے والے اداروں کی مدد سے ہی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ چک چی لوگوں نے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا، مشکلات سے مقابلہ کیا، مگر اپنی جدوجہد میں کمی نہیں کی، بلکہ دن رات محنت کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اس خطے میں بعض چک چی نوجوانوں نے تو یونی ورسٹی کی ڈگریاں بھی حاصل کرلی ہیں، ان میں سے بعض شاعر بن چکے ہیں، بعض بہت اچھے رائٹرز اور مصنف ہیں، کچھ سیاست داں بن گئے ہیں اور کچھ استاد، جب کہ بعض ڈاکٹر بھی بن چکے ہیں اور اپنی قوم کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔

زمانۂ قبل از تاریخ میں چک چی خانہ بدوش تھے اور رینڈیئر پالتے تھے۔ یہ لوگ شکار کرکے بھی اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ مگر موجودہ دور میں یہ تھوڑا بہت شکار بھی کرتے ہیں جن میں قطبی ریچھ کا شکار یہ بڑے شوق سے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سمندری جانوروں اور رینڈیئر کا شکار ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔




٭سوویت دور میں چک چی لوگوں کی معاشی سرگرمیاں: 1920کے عشرے میں سوویت یونین نے سمندری یا ساحلی اور خشکی پر رہنے والے، دونوں قسم کے چک چی افراد کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں شروع کی تھیں، جس کے نتیجے میں انہوں نے چک چی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ریاست کے زیر انتظام 28فلاحی یا رفاہی ادارے قائم کیے۔ان سب اداروں میں بنیادی طور پر رینڈیئر کی گلہ بانی پر توجہ دی گئی تھی اور ساتھ ہی سمندری جانوروں کے شکار کو بھی اہمیت دی تھی۔ اس کے علاوہ ساحلی مقامات پر مقامی آبادیوں کی مدد کے لیے والرس کے دانت کی دست کاری کا کام بھی شروع کرایا گیا تھا۔

٭تعلیم و تربیت: چکی چی لوگ شروع سے ہی سوویت اسکولوں میں پڑھتے تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ان کے لگ بھگ 100فی صد لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور روسی زبان بڑی مہارت اور روانی سے بولتے ہیں۔ تعلیم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد آج یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ بہت کم چک چی براہ راست یا تو رینڈیئر کی گلہ بانی کرتے ہیں یا پھر آبی جانوروں کا شکار کرتے ہیں، یہ قدامت پرست لوگ نہ جانے کیوں آج بھی زمانۂ قدیم میں ہی جی رہے ہیں اور ان کا طرز زندگی وہی ماضی بعید والا ہے۔ ان لوگوں کے طرز زندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ آج بھی اپنے مخصوص ٹینٹس یا خیموں میں رہتے ہیں جنہیں ان کی زبان میں yaranga کہا جاتا ہے۔



٭روسیوں کے ساتھ تعلقات: روسیوں نے سب سے پہلے اس وقت چکی چی لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے جب وہ 1643میں دریائے Kolyma اور 1649ء میں دریائے Anadyr پہنچے تھے۔Nizhnekolymskسے Anadyrskکے قلعے تک کا راستہ جو جنوب مغرب سے گزرتا تھا، یہ چک چی کا اہم اور خاص علاقہ تھا اور یہ ایک بہت زبردست اور بڑا تجارتی راستہ بھی بن چکا تھا۔

Yakutskسے Anadyrsk تک کے زمینی یا خشکی کے سفر میں چھ ماہ لگتے تھے۔اگلے پچاس برس یعنی نصف صدی تک چک چیوں کو عام طور سے نظر انداز کیا جاتا رہا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ جنگجو اور لڑاکو تھی، ویسے بھی ان کے پاس صرف چند اقسام کے فر ہی تو تھے۔ پر 1700کے قریب اس وقت جنگ بھڑک اٹھی جب روسیوں نے جزیرہ نما Kamchatka میں کام کرنا شروع کردیا۔ یہ وہ اہم وقت تھا جب روسیوں کو چک چکیوں اور Koryaksسے بھی تحفظ کی ضرورت تھی۔ انہیں فتح کرنے کی پہلی کوشش 1701میں کی گئی۔ پھر 1708، 1709اور 1711میں دوسری مہمات بھی روانہ کی گئیں۔ اس موقع پر بڑی خوں ریزی ہوئی اور بہت سے بے گناہ لوگ بھی مارے گئے، مگر برائے نام کام یابی مل سکی۔



1729میں اس وقت نئی جنگ شروع ہوئی جب چک چیوں نے Okhotskسے آنے والے لشکر کو شکست دی اور ان کا کمانڈر بھی مار ڈالا۔ اس کے بعد اس لشکر کی قیادت میجر Dmitry Pavlutsky کو سونپ دی گئی، جس نے نہایت شدید اور تباہ کن طریقے اختیار کیے۔ اس نے خوب قتل و غارت گری کی۔ ان کی بستیوں اور لوگوں کو جلا ڈالا۔ ان کے رینڈیئرز کے گلوں کو وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کردیا ، صرف یہی نہیں عورتوں اور بچوں کو بھی محکوم بنالیا۔

1742میں سینٹ پیٹرز برگ نے ایک اور جنگ شروع کرادی جس میں چک چیوں اور Koryaks کو مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس جنگ (1744-7)میں بھی بڑی بربریت اور غارت گری کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جب مارچ 1747میں Pavlutskyہلاک ہوا تو اس جنگ کا خاتمہ ہوا۔



کہا جاتا ہے کہ چک چی لوگوں نے کئی سال تک اس کمانڈر کا سر بطور ٹرافی اپنے پاس رکھا تھا۔ 1750کے عشرے میں مزید جنگیں لڑی گئیں۔ 1762میں سینٹ پیٹرز برگ نے ایک مختلف پالیسی اختیار کی۔ اصل میں Anadyrsk کے قلعے کی دیکھ بھال اور نگرانی پر اس زمانے میں لگ بھگ 1,380,000 روبل خرچ ہوتے تھے، لیکن اس جگہ سے ٹیکسوں کی صورت میں صرف 29,150روبل وصول ہوتے تھے۔

چناں چہ 1764 میں Anadyrsk کا قلعہ اجاڑ اور ویران ہوگیا۔ ادھر چک چکیوں نے بھی روسیوں کے ساتھ پرامن تجارت شروع کرنے میں کوئی دل چسپی نہ لی۔ 1788سے زیریں Kolymaمیں ایک سالانہ تجارتی میلے کا آغاز ہوا۔ ایک اور تجارتی میلہ 1775میں Angarka کے مقام پر لگایا گیا۔ یہ جگہ دریائے Bolshoy Anyuy کی وادی یا دین تھی۔ یہ تجارت شروع تو ہوگئی تھی مگر انیسویں صدی کے اواخر میں اس وقت ختم ہوگئی جب وھیل کا شکار کرنے والے امریکیوں اور دوسرے ملکوں کے لوگوں نے اس ساحل پر قدم رکھے اور اپنا سامان تجارت بھی یہاں کے ساحلوں تک پہنچادیا۔1815کے بعد کہیں جاکر پہلی آرتھوڈوکس مشنریز نے چک چکی کے علاقے میں قدم رکھا۔



٭سوویت دور: چار Orthodoxاسکولوں کے علاوہ چک چی کی سرزمین پر 1920 کے عشرے کے اواخر تک کوئی اور اسکول نہیں تھے۔ 1926 میں صرف 72تعلیم یافتہ چکی چی تھے۔ 1932میں ایک لاطینی alphabetیا حروف تہجی یہاں متعارف کرائے گئے مگر 1937 میں ان کی جگہ Cyrillicنے لے لی۔ 1934میں یہاں رہنے والے 71 فی صد چکی چی ابھی تک خانہ بدوشی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ 1941میں صورت حال یہ تھی کہ یہاں کے 90فی صد رینڈیئرز ابھی تک نجی ملکیت میں تھے۔ مگر 1950کے عشرے میں بھی خود ساختہ kulaksاپنے رینڈیئرز کے گلوں کے ساتھ اس خطے میں گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ البتہ 1990کے بعد یہاں سے روسی بہت بڑے پیمانے پر ہجرت کرگئے۔

٭چک چی یوکرائن میں:یوکرائن میں کرائی جانے والی آخری مردم شماری (2001) کے مطابق یوکرائن میں صرف 30چک چی رہ رہے ہیں۔ ان میں سے صرف 3چک چی زبان بولتے ہیں، جب کہ زیادہ تر یعنی لگ بھگ 24 افراد روسی بولتے ہیں اور صرف 2یوکرائنی بولتے ہیں۔
Load Next Story