باتیں ’’ان دیکھی‘‘ دنیا کی

میں چاہتا تھا کہ صبح کی ریل سے الہ آباد چلاجاؤں، لیکن میزبان کی چائے کے تکلفات کی وجہ سے ریل نہ مل سکی

مختلف خودنوشتوں میں شامل پُراسرار واقعات ۔ فوٹو : فائل

لاہور:
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سائنس میں مابعدالطبیعیات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر کیا کیجیے کہ اس عالم ِ رنگ و بو میں بسنے والے ہر انسان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ ایسے واقعات ضرور رونما ہوتے ہیں جن کی مادّی توجیہ پیش کرنا انسانی علوم کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ طبی ماہرین ایسے واقعات کے شکار لوگوں میں شیزوفرینیا یا مالیخولیا کے اثرات تلاش کرتے ہیں۔

بقول شخص''سائنس جو مادّے کی کائناتی سچائیوں کی تعبیر اور اِنسانی زِندگی میں اْس کے عملی اِطلاق پر مامور ہے، واضح اور روشن زبان میں دراصل عالمِ اسباب و علل کے تحت رونما ہونے والے اْنہی محیرالعقول واقعات کی مادّی توجیہ و تعبیر کا فریضہ سراِنجام دے رہی ہے۔ سائنس داں مادّے کی اِرتقائی صورتوں کے مسلسل مشاہدے کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچتے د کھائی دے رہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔'' نیاز فتح پوری کے بقول '' روحانیت دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ جو نفس ''روح و روحانیت '' کی تحقیق سے متعلق ہے اور دوسرا وہ جسے ہم صرف کیفیات کہہ سکتے ہیں۔''

عرصہ گزرا جب ہندوستان کے ذہین فلم ساز، ادیب وشاعر سمپورن سنگھ گلزار نے ''لیکن'' نامی ایک بے حد دل چسپ فلم بنائی تھی۔ اس فلم میں مافوق الفطرت واقعات سے وابستہ سائنسی پہلوؤں اور توجیہات کو بھی نہایت چابک دستی سے پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کو دیکھنے سے ان واقعات کا ایک اہم پہلو آشکار ہوتا ہے۔

یہ مضمون اس موضوع پر میری کتاب ''حیرت کدہ '' میں شامل اقتباسات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں خودنوشت آپ بیتیوں سے منتخب کردہ اوراق کے علاوہ مختلف کتابوں سے چند ایسے مضامین بھی شامل کیے گیے ہیں جو دست شناسی کے پیشے سے وابستہ لوگوں سے متعلق ہیں، جب کہ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی کتب سے دل چسپ تحریریں شامل کی گئی ہیں۔

حیرت کدہ کو تین حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ حصہ اول میں خودنوشتوں سے پراسرار واقعات کو پیش کیا گیا ہے جب کہ حصہ دوم و سوم میں متفرق کتابوں و جرائد سے اس نوع کے واقعات شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب میں شامل کردہ چند واقعات کی اختصار کے ساتھ تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:

٭بلبلیں نواب کی از شاہ محی الحق فاروقی
موسیٰ رضا ہندوستان کی سول سروس کے سابقہ ملازم ہیں۔ کئی اعلیٰ عہدوں پر رہ چکے ہیں، ان دنوں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ یہ 1960کی ابتدا کا قصہ ہے جب موسی رضا پالن پور کے کلکٹر تھے۔ وہ ایک سرکاری دورے کے دوران پالن پور کے ڈاک بنگلے میں اپنی اہلیہ، بچے اور والدہ کے ساتھ ٹھیرے۔ رات کے وقت ان کی والدہ کی چیخوں کی آواز نے سناٹے میں ایک ہلچل برپا کردی۔ یہ دوڑ کر گئے، معلوم ہوا کہ ان کی والدہ نے ایک مرد اور ایک عورت کو دیکھا جو ان کے ڈاک بنگلے میں قیام پر برہم تھے اور اپنے غصے کا اظہار درشت لہجے میں کررہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں خاتون کی نظروں کے سامنے ہی غائب ہوگئے۔ موسی رضا لکھتے ہیں:

''دوسرے دن صبح تعلقے کا معاملت دار ہمارے ساتھ ناشتے میں شریک تھا۔ اس نے1920 کے عشرے میں محکمۂ مالیات میں ایک کلرک کے طور پر اپنی ملازمت کی ابتدا کی تھی ۔ اب اس کی پنشن کا زمانہ قریب آرہا تھا تو سہوری کا مقامی باشندہ ہونے کی وجہ سے اس کا آخری تقرر اپنے ضلع میں ہوگیا تھا۔ جب میں نے رات والا واقعہ اسے سنایا تو اس نے کسی تعجب کا اظہار نہ کیا۔

''حضور! صرف آپ کی ماں نے اس جوڑے کو نہیں دیکھا ہے'' اس نے کہا،''بہت سے لوگ وقتاً فوقتاً اس جوڑے کو دیکھ چکے ہیں۔ اس مرد کا نام 'انڈریو میک فیل' تھا۔ وہ کسٹم کا اسسٹنٹ کلکٹر تھا اور سوئیگام کے ایک بنگلے میں رہا کرتا تھا۔ وہ شکار کا بڑا شوقین تھا اور اس ڈاک بنگلے میں آکر ٹھیرا کرتا تھا۔ ان دنوں یہ علاقہ شکار سے بھرا ہوا تھا۔ ہرن چیتے اور تیندوے، ہر قسم کے جانور موجود تھے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا سا تھا تو میں نے میک فیل صاحب کو دیکھا تھا۔ ایک بار وہ اپنے ساتھ اپنی بیوی کو بھی لائے تھے۔ وہ دونوں ایک آدم خور شیر کے شکار پر گئے، لیکن وہ اسے صرف زخمی کرنے میں کام یاب ہوسکے۔ تیسری رات وہ دوبارہ گئے، لیکن اس بار شیر نے انہیں آلیا۔ وہ دونوں بہت بری طرح زخمی ہوئے۔ میک فیل صاحب کا بایاں ہاتھ اور ان کی بیوی کا ایک پیر ضائع ہوگیا۔ وہ دونوں مہلک زخموں کے ساتھ یہاں گیسٹ ہاؤس میں لائے گئے، لیکن صبح ہوتے ہوتے وہ دونوں مرگئے۔''

٭مقبول جہانگیر کا قصہ
مقبول جہانگیر دلی کے روڑے تھے ۔ تقسیم کے بعد لاہور منتقل ہوئے اور مختلف اخبارات و جرائد سے وابستہ رہے۔ سیارہ ڈائجسٹ لاہور میں مقبول جہانگیر نے اپنی آپ بیتی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ چند ہی اقساط کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔ مذکورہ آپ بیتی سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:

پنڈت سندر لال چہرے مہرے سے جتنے شریف، معصوم اور بھولے بھالے آدمی نظر آتے تھے، اتنے ہی جلاد صفت اور سنگ دل استاد تھے۔ لڑکوں کو روئی کی طرح دھنکنے میں انہیں خاص لطف آتا تھا اور اس خاکسار پر تو ان کی خصوصی توجہ تھی۔ میں دلی کے اس ہندو اسکول میں واحد مسلمان بچہ تھا۔ پنڈت سندرلال ہاتھوں اور چھڑی سے مجھے پیٹتے جاتے اور کہتے جاتے،''ارے مسلؤ! جاؤ، گیا کا گوس [گوشت] کھاؤ، تم یہاں کیا لینے آگئے۔'' یہ جملہ گویا ان کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔

ایک دن نہ معلوم ان کے جی میں کیا آئی کہ میرا ہاتھ دیکھنے بیٹھ گئے۔ دراصل اس روز میں نے کوئی سوال غلط نکال دیا تھا اور میرے ہاتھوں پر وہ بید مار رہے تھے۔ یکایک انہوں نے ہاتھ روک کر میرا ہاتھ پکڑ لیا، جو بید کی ضربوں سے سرخ ہوگیا تھا۔ چند لمحے تک اس کا معائنہ کرتے رہے۔ پھر دوسرا ہاتھ دیکھا۔ اس کے بعد بڑی نرمی اور پیار سے مجھے اپنی میز کرسی کے پاس لے گئے۔ اس تماشے سے جماعت کے سبھی لڑکے حیرت میں تھے اور میں یہ سوچ کر لرز رہا تھا کہ پنڈت جی سزا دینے کا کوئی اور طریقہ سوچ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے لڑکوں سے مخاطب ہو کر کہنا شروع کیا:

''میرا یہ مسلمان شاگرد قسمت کا بڑا دھنی ہے۔ ایک دن نام پائے گا۔ لیکن اس کے ہاتھ کی لکیریں بتاتی ہیں کہ زندگی میں بڑے دکھ اور بڑے صدمے اٹھائے گا۔ جب یہ دس برس کا ہوگا تو اس کا باپ مر جائے گا۔ پھر یہ اپنے بہن بھائیوں اور بیوہ ماں کو سنبھالے گا۔ چودہ برس کا ہوگا تو ایسا بیمار پڑے گا کہ جان مشکل سے بچے گی۔ اپنی تعلیم کبھی مکمل نہیں کرسکے گا، لیکن اسے علم حاصل کرنے کا شوق ہوگا۔''

خدا جانے پنڈت سندر لال کیا کہہ رہے تھے۔ یہ باتیں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ اپنے ابا کے مرنے کی خبر سن کر میں بری طرح رونے لگا اور پنڈت جی نے مجھے بڑی مشکل سے خاموش کرایا۔ مجھے خوب یاد ہے انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک بڑا ستارہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ اس دن سے مجھ پر پنڈت جی کی مار پیٹ پہلے سے بہت کم ہوگئی۔ شاید اس ستارے نے میری حفاظت شروع کردی تھی۔
میرے مستقبل کے بارے میں انہوں نے جو کچھ کہا حرف بہ حرف پورا ہوگیا ہے۔

٭18 سول لائنز۔ قدرت اﷲ شہاب۔ ایک واقعہ جو شہاب نامہ میں نہیں ہے
شہاب صاحب کے مضمون ''بملا کماری کی بے چین'' روح (18سول لائنز کے نام سے 1968 میں شائع ہوا بعدازاں شہاب نامہ میں شامل کیا گیا) سے کون واقف نہیں ہے۔ شہاب نامہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی خودنوشتوں میں سرفہرست ہے۔ ''بملا کماری کی بے چین روح'' سے متعلق ایک ایسا واقعہ پیش خدمت ہے جس کے راوی ممتاز مفتی ہیں۔ لکھتے ہیں:

میں نے کہا شہاب صاحب! آپ نے جو کٹک کے ہانٹڈ ہاؤس کا نقشہ کھینچا ہے وہ عام ہانٹڈ ہاؤس سے بہت مختلف ہے۔ ہانٹڈ ہاؤس میں عجیب نوعیت کے واقعات ضرور ہوتے ہیں، مگر اس حد تک نہیں کہ کیلا چھیلو تو اندر سے ریت برآمد ہو۔ شہاب صاحب ہانٹڈ ہاؤس کا یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے، لیکن ہر بار تفصیلات میں فرق پڑ جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی وہ جھوٹ بولتے تھے بل کہ وہ پورا سچ بیان نہیں کرتے تھے۔ ایک روز جب شہاب چھلکن کے عالم میں تھا تو اس نے مجھے ہانٹڈ ہاؤس کے متعلق ایک نئی تفصیل سنائی، کہنے لگا: ''میں نے شدت سے محسوس کیا کہ بملا کی روح کو چین نصیب نہ ہوگا جب تک اس کی ہڈیاں جلا کر گنگا میں نہ بہائی جائیں۔ اس لیے ہم سب نے مل کر کمرے کے اس کونے کو کھودنے کے انتظامات کیے جہاں بملا دفن تھی۔ ہم نے گڑھا کھودا اور اس کی ہڈیاں نکال کر اسے بند کردیا اور پھر اس پر سیمنٹ لگا دیا۔



اس بات کی خبر ہندو جادوگروں نے میرے افسر کو دی۔ اس نے فوراً میرے افسران بالا کو رپورٹ کردی کہ قدرت اﷲ نے ایک ہندو لڑکی کو قتل کرکے کمرے کے اندر ہی گڑھا کھود کر دفن کردیا ہے۔ اس نے افسران بالا کو مشورہ دیا کہ پولیس کو حکم دیا جائے کہ کوٹھی کو گھیرے میں لے کر تحقیق کی جائے۔ شہاب نے کہا، جب پولیس آئی تو میرا دل بری طرح دھک دھک کررہا تھا۔ میں اﷲ سے دعا مانگتا تھا کہ یا اﷲ! تو ہی لاج رکھنے والا ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ جب وہ دری اٹھائیں گے تو انہیں تازہ سیمنٹ نظر آجائے گا۔ شہاب نے بتایا، پھر ایک معجزہ رونما ہوا جسے دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ پولیس نے دری اٹھائی تو سیمنٹ اس طرح خشک تھا جیسے سالوں پہلے کا لگا ہوا ہو۔


٭بند گلی میں شام، از توصیف تبسم
توصیف تبسم، ادیب، شاعر، انداز تحریر حد درجے متاثر کن۔ ان کی خودنوشت ''بند گلی میں شام'' ایک عہد کا قصہ ہے۔ لفظ لفظ تحیر، سطر سطر رچاؤ سے بھرپور۔ اس خودنوشت میں لکھتے ہیں:

ایک بدروح کا واقعہ خود مجھے والد صاحب نے مجھے سنایا۔آبادی سے باہر میراں صاحب ولی کے مقبرہ کے باہر بہت سی پرانی قبریں ہیں۔ ان میں ایک قبر ایک سپیرے کی بھی ہے جس کی موت سانپ کے کاٹنے سے واقع ہوئی۔ والد کا معمول تھا کہ وہ صبح صادق سے پہلے بیدارہوتے۔ میراں صاحب ولی کے مقبرہ کی طرف ٹہلنے نکل جاتے۔ اذان کی آواز آتی تو وہیں نماز پڑھتے اور میراں صاحب ولی کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپس آجاتے۔

ایک دن چاندنی رات تھی مگر بادل بھی تھے۔ یہ جاگے تو آسمان روشن دکھائی دیا۔ یہ سمجھے صبح ہونے والی ہے۔ جب دیر ہوگئی اور اذان کی آواز نہیں سنی تو وہیں زیارت کی پشت کی طرف، جدھر چھوٹا دروازہ ہے، ایک چبوترے پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک شخص اپنی انگلی تھامے ان کے پاس آیا اور بولا۔ مجھے کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہے بہت درد ہورہا ہے۔ تم کچھ پڑھ کر دم کردو۔ والد صاحب نے کوئی سورۃ پڑھی اور اس کی انگلی پر دم کردیا۔ وہ شخص آگے چلاگیا، مگر پھر تھوڑی دیر کے بعد انگلی پکڑ کے واپس آیا اور کہنے لگا درد کم نہیں ہوا اور دم کردو۔ انہوں نے کچھ پڑھ کر پھر دم کردیا۔ وہ شخص چلاگیا، مگر تیسری مرتبہ پھر واپس آیا۔

ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مقبرہ کے چھوٹے دروازہ سے ایک شخص نکلا اور اس شخص کو ڈانٹا جو باربار انگلی پر دم کروارہا تھا۔ وہ کہنے لگے تو باز نہیں آئے گا۔ ہر شخص کو پریشان کرتا ہے۔ چل یہاں سے خبردار! اب اگر دوبارہ آیا۔ وہ شخص اپنی انگلی تھامے سرجھکائے ایک طرف چلاگیا۔ اچھی خاصی دیر ہوگئی تھی۔ یہ بھی چبوترے سے اٹھ کر گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں گشت کے سپاہی ملے، وقت پوچھا تو پتا چلا کہ دوبجے ہیں۔ تب ان کو خیال آیا کہ وہ بار بار انگلی پر دم کروانے والا شخص دراصل اس سپیرے کی روح تھی جو میراں صاحب ولی کے احاطے کے باہر دفن ہے اور زیارت کے چھوٹے دروازے سے باہر آکر اس کو ڈانٹنے والی ہستی سوائے میراں صاحب کے کوئی اور نہیں تھی، جن کے مزار پر والد صاحب روزانہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔

٭محمد منصور کاظم کی ''میری داستان''
منصور کاظم صاحب اعلیٰ سرکاری عہدوں پر رہے۔ اسلام آباد میں تعیناتی رہی۔ کردار کے ایسے بے داغ کہ سول سروس کی ملازمت میں روز اول جیسے داخل ہوئے تھے ویسے ہی پاک صاف ملازمت سے سبک دوشی کے بعد بھی نکلے۔ راقم الحروف کو ان سے شرف نیاز حاصل رہا۔ منصور کاظم صاحب کا انتقال کراچی میں 7 جنوری 2015 کو ہوا۔

آپ نے اپنی خودنوشت میں ضلع آرہ، لہ شہسرام کے ایک شاہ صاحب کا قصہ لکھا ہے۔ یہ 1921 ء کی بات ہے۔ کاظم صاحب لکھتے ہیں:

ان حضرات کا نام شاہ مبارک صاحب تھا۔ وہ صوبہ بہار کے پشتینی باشندے نہیں تھے، بل کہ غالباً صوبہ سرحد کے کسی دور دراز علاقے سے تعلق رکھتے تھے مگر بعد میں شہسرام آکر بس گئے تھے۔ وہ غیرشادی شدہ تھے، اس لیے بالکل تنہائی میں شہر کے باہر ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے خشک گھاس کے پتوں کے ایک کمرے کے جھونپڑے میں رہتے تھے، جس میں مٹی کے تیل کا ایک چراغ جلتا رہتا تھا اور اس کے ساتھ ایک لکڑی کا تخت تھا جس پر وہ سوتے تھے اور نیچے بچھی ہوئی چٹائی پر عبادات میں مشغول رہتے تھے۔ ان کی زندگی عجیب غیرمعمولی تھی۔ وہ چند شرائط پر ہی لوگوں سے ملاقات کرتے تھے۔

یعنی کسی قسم کا نذرانہ یا کھانے کی چیزیں بھی ان کو پیش نہ کی جائیں۔ والد صاحب کا بیان تھا کہ وہ زبردست صاحب کرامات تھے۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بیک وقت ساری دنیا کے ہر مقام کو دیکھ رہے ہیں اور جو بھی سوال کیا جائے اس کا فوری جواب دے دیتے تھے۔ اس عظیم ہستی کے ایک ناقابل یقین واقعے کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ ایسا ہوا کہ والد صاحب کے انتہائی بے تکلف دوست اور ہم جماعت نے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لندن جاکر بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کا نام سید محمد نعیم تھا اور پٹنہ کے متمول زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

والد صاحب اس زمانے میں شہسرام میں تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ جانے سے قبل شاہ صاحب سے اپنے ولایت کے سفر اور بیرسٹری کے امتحان میں کام یابی کے لیے دعا کراکر جائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ چناں چہ والد صاحب عصر کی نماز کے بعد نعیم صاحب کے ساتھ شاہ صاحب کی جھونپڑی میں داخل ہو کر سامنے بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے دعا کی اور بعد میں نعیم صاحب کے ہاتھ میں کلائی کی نہایت بوسیدہ گھڑی اور اس کے ٹوٹے ہوئے فیتے کو دیکھ کر کہا کہ کیا اچھا نہ ہوتا کہ آپ کوئی نئی گھڑی لگا کر انگلستان جاتے۔ نعیم صاحب نے جواب دیا کہ شہر پٹنہ میں ان کی پسندیدہ وہ گھڑی نہ ملی جو کلکتہ کی ویسٹ اینڈ واچ کمپنی کی بڑی دکان میں موجود ہے اور وہ وقت کی کمی کے باعث وہ اس کو کلکتہ سے نہ منگوا سکے۔

شاہ صاحب نے گھڑی کی قیمت دریافت کی اور پوچھا کہ کیا یہ رقم وہ ابھی ساتھ رکھتے ہیں۔ نعیم صاحب نے اثبات میں جواب دے کر یہ رقم ان کے سامنے رکھی۔ شاہ صاحب نے گھڑی کا نام، ماڈل اور کمپنی کا نام بھی ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھوا کر رقم کے ساتھ اسی چٹائی پر رکھ دیا اور اس کو ایک رومال سے ڈھک دیا۔ پندرہ بیس منٹ گزرنے کے بعد شاہ صاحب نے نعیم صاحب سے کہا کہ ان کی گھڑی آگئی ہے اور اسے وہ اس کو رومال کے نیچے سے اٹھالیں۔

چناںچہ نعیم صاحب نے رومال ہٹا کر دیکھا تو وہ گھڑی نہایت اچھی طرح پیک کی ہوئی تھی اس کے ساتھ اسی گھڑی کی قیمت کی ادائیگی کی رسید بھی اسی دن کی دستخط شدہ موجود تھی۔ گھڑی کی قیمت کے علاوہ بچی ہوئی تھوڑی سی فاضل رقم بھی وہیں ساتھ موجود تھی۔ اس حیرت انگیز واقعے کے بعد شاہ صاحب نے ان کو مع گھڑی رخصت کیا۔ شہسرام کا شہر، کلکتہ سے سات سوکلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس فاصلے سے گھڑی منگوا کر شاہ صاحب نے سب کو سخت متحیر کردیا۔ والد صاحب اکثر اس واقعے کو مجھے سنایا کرتے تھے اور شاہ صاحب کی کرامتوں کا نہایت احترام سے بیان کرتے تھے ۔

٭ نقی محمد خاں خورجوی کی ''عمر رفتہ ''
خورجوی صاحب اگلے وقتوں کے ان بزرگوں میں سے تھے جن کا دم اس زوال پذیر معاشرے میں غنیمت تھا۔ شاہداحمد دہلوی نے جہاں اور بہتیرے نیک کام کیے وہاں ایک کام یہ بھی کیا کہ خاں صاحب سے ان کی خودنوشت لکھوائی اور ساقی میں اہتمام سے شائع کی۔ نقی محمد خاں خورجوری نے ''عمر رفتہ '' میں کئی ماورائے عقل واقعات لکھے ہیں۔ ان میں سے ایک یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ لکھتے ہیں:

میں چاہتا تھا کہ صبح کی ریل سے الہ آباد چلاجاؤں، لیکن میزبان کی چائے کے تکلفات کی وجہ سے ریل نہ مل سکی۔ وہ تو اپنے سرکاری کاموں میں مصروف ہوگئے اور میں نے کچھ سوکر اور کچھ کروٹیں بدل بدل کر دن گزارا اور چار بجے اسٹیشن لکھنؤ پر پہنچ گیا۔

اُس زمانے میں لکھنؤ کا اسٹیشن ایک معمولی عمارت تھی۔ کمروں کے سامنے ٹین کا لمبا سائبان تھا، جہاں بینچیں مسافروں کے بیٹھنے کے واسطے پڑی تھیں، لیکن کوئی خالی نہ تھی جس پر میں بیٹھتا۔ میں نے ادھر سے ادھر ٹہلنا شروع کردیا۔ یہاں جو واقعہ پیش آیا وہ بھی عجیب و غریب تھا۔

ایک بینچ پر تین صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک صاحب ضعیف العمر لاغر اندام لکھنؤ کی وضع کی دوپلی ٹوپی، ڈھیلا پاجامہ اور انگرکھا پہنے دونوں پیر اوپر اٹھائے ہوئے بیٹھے تھے۔ بائیں ہاتھ میں 'ہر دم تازہ' تھا۔ یہ اُس زمانے میں وہ حقہ ہوتا تھا جو شاید دو پیسے یا ایک آنے میں بھرابھرایا آگ پانی سے تیار ملتا تھا۔ پینے کے بعد اس کو پھینک دیتے تھے۔ ان بزرگ کا داہنا ہاتھ اپنے داہنے مڑے ہوئے گھٹنے پررکھا ہوا تھا۔ میں جب ٹہلتا ہوا ان کے قریب سے گزرا تو انہوں نے مجھے آواز دے کر مخاطب کیا۔ میں قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔

سوال کیا کہ ''کیا تم شاہ فضل الرحمٰن صاحب گنج مرادی کے مرید ہو؟'' (جن کے انتقال کو عرصہ گزر گیا تھا) میں نے جواب دینے میں تامل نہ کیا اور کہا کہ ''جی نہیں!''
انہوں نے تعجب کے لہجے میں میرے ہی الفاظ کو دہرایا، جی نہیں!؟''
میں نے کہا کہ میں مرید نہیں ہوں۔
آوازان کی کرخت اور لہجہ سخت تھا۔ بولے تم جھوٹ بولتے ہو۔ حضرت مولانا کا ہاتھ رکھا ہوا میں تمہاری پیٹھ پر دیکھ رہا ہوں۔''
یہ سن کر میں حیران ہوگیا اور مجھے اپنی دس سال کی عمر کاوہ واقعہ یاد آگیا۔ جب والد صاحب مجھے حضرت مولانا کے پاس گنج مراد لے گئے تھے اور انہوں نے اپنا ہاتھ میری پشت پر رکھ کر توجہ فرمائی تھی۔

میں نے کہا کہ حضرت آپ صحیح فرماتے ہیں جب میں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو بہت کم عمر تھا اور اس واقعے کو بھول گیا تھا۔ یہ سن کر انہوں نے پھر حقہ کے ایک دوکش لیے۔ ریل آگئی اور میں سامان رکھوانے میں مصروف ہوگیا۔سامان رکھ کر میں نے ان بزرگ کی تلاش شروع کی تاکہ ان کا ہم سفر ہوکر وقت دل چسپی سے گزاروں لیکن وہ پھر نہ ملے۔ اور میں الہ آباد واپس آگیا۔
Load Next Story