ہماری وہ انتظامیہ کہاں گئی
فوج اور سپریم کورٹ دونوں ادارے اپنے اوپر ٹھونسی گئی اضافی ذمے داریوں سے تنگ ہیں
فوج اور سپریم کورٹ دونوں ادارے اپنے اوپر ٹھونسی گئی اضافی ذمے داریوں سے تنگ ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ اور اس کا خاتمہ اگر فوج نے کرنا ہے تو پھر فوج کے اصل فرائض کا کیا ہو گا، وہ کون ادا کرے گا۔
اسی طرح اگر فوجی عدالتوں نے عدلیہ کے فرائض ادا کرنے ہیں تو سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے پوچھا ہے کہ آرمی چیف مقدموں کے فیصلے کریں گے یا اپنا اصل فوجی کام کریں گے اور پھر ہم عدلیہ والے کیا کریں گے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ ہماری سول انتظامیہ نے کام کرنا ترک کر دیا ہے اور وہ صرف ذاتی کرپشن کی حد تک سرگرم ہے۔ نہ وہ عدلیہ کی کوئی مدد کرتی ہے اور نہ ہی فوج کی، وہ خود رفتہ رفتہ اس قدر ناکارہ ہو چکی ہے کہ کوئی تھانہ ہو یا تحصیل وغیرہ وہاں اگر آپ رشوت دے سکیں تو اپنا کام کروا لیں ورنہ آپ کا کوئی کام نہیں ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔
یہ صورت حال ناقابل برداشت ہے اور کسی ملک کی تباہی کا شاخسانہ اور ابتدائیہ ہے۔ ہم پاکستان میں اپنی روزمرہ کی زندگی میں دن رات یہ سب نہ صرف دیکھ رہے ہیں اس سے گذر بھی رہے ہیں۔ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ چھ معصوم بچے جل کر مر جاتے ہیں مگر ان کو آگ سے بچانے والے ادارے ناکام رہتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں اور آلات کام بھی نہیں کرتے اور اس دوران بچے آگ میں جل جاتے ہیں۔
کوئی چار پانچ دن ہو گئے ہیں جو مجرم تھے یعنی قاتل تھے ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ ہم سب دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ ہم ان بچوں کو بھول جائیں گے۔ اس سے پہلے ہم کتنے ہی حادثوں میں ذمے دار افراد کو کچھ نہیں کہہ سکے اور وہ بے فکر ہو کر اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں اور ہم حکمران اپنی حکمرانی میں۔ عمر بھر حکمرانوں کے اردگرد گھومنے پھرنے کے اب تک معلوم نہیںہو سکا کہ حکومت کیا ہوتی ہے اور حکمران کون۔
اب جب رونے دھونے کی بات ہو رہی ہے تو ہم شاید ہر روز ہی کوئی رلانے والی خبر پڑھتے ہیں کہ ایک مسلمان پاکستانی لڑکی کسی غنڈے یا چند غنڈوں کی وجہ سے اپنی عصمت سے محروم کر دی گئی، زندگی کے سب سے بڑے اور ناقابل علاج اثاثے سے۔ کئی ایک نے تو خودکشی کر لی جنھوں نے ایسا نہیں کیا ان کی زندگی موت سے بدتر بن گئی۔
اگر انھوں نے اپنے ساتھ اس ظلم کو راز رکھنے کی کوشش کی وہ اس راز کا زخم لے کر ختم ہو گئیں اور اس زندگی سے چھوٹ گئیں۔ ہماری زندگی میں کمزور پاکستانیوں کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں اور زخم خوردہ لوگ کسی نہ کسی طرح زندگی کے دن کاٹ ہی لیتے ہیں۔ اوپر جن چار بچوں کا ذکر ہوا ہے کیا ان کے ماں باپ ان معصوموں کی یاد میں تڑپتے نہیں رہیں گے اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کے قاتل زندہ سلامت پھرا کریں گے تو ان کی حالت کیا ہو گی۔ ہمارے جیسے بے رحم ملکوں میں ایسے حادثے ایک معمول ہیں۔
ہمارے ہاں سزا تو اتفاق سے ملتی ہے جزا بھی نہیں ملتی۔ دنیا میں کہیں بھی اگر گنہگار سزا سے بے خوف ہو اور مظلوم سہارے سے محروم ہو تو ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہتا۔ سزا و جزا انسانی معاشرے میں توازن رکھنے کے لیے لازم ہے اور اسی پر کوئی معاشرہ زندہ رہتا ہے مگر ہمارا تماشا یہ ہے کہ ہم اپنی فوج سے ملک کے دفاع کا نہیں جرائم پیشہ لوگوں کی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں اور فوج حیرت زدہ ہو کر ہم سے پوچھتی ہے کہ ہم اپنا کام کریں یا سول انتظامیہ کو سنبھالیں۔ یہ فوجی عدالتیں صریحاً سول انتظامیہ کی نالائقی کا نمونہ ہیں اور نااہل سول انتظامیہ کی سزا ہیں۔
بات بہت پرانی ہے مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک سی ایس پی افسر نے نام غالباً ریاض الدین تھا، اتنی بڑی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ مرحوم مولانا صلاح الدین ادبی دنیا کے بیٹے تھے جن کے دوسرے بھائی بھی اتنے ہی بڑے افسر تھے۔ ان کا استعفیٰ وقت کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ جب کلرکی بھی ایک نعمت ہو تو کوئی اعلیٰ ترین افسر نوکری چھوڑے تو یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ ریاض صاحب نے کسی کے اصرار پر چند صحافیوں کو بلایا اور ان کے سامنے حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کا ذکر کیا۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا کہ مجھے فکر ہے کہ پاکستان اچھی انتظامیہ سے محروم ہو جائے گا۔
ان دنوں یہ بات سمجھ میں نہ آئی لیکن بعد میں دیکھا کہ جو ملک ڈی سی، ایس پی اور سیشن جج کی حکمرانی میں ایک منصفانہ اور آئیڈیل حکومت پیش کرتا تھا وہ رفتہ رفتہ ان چند بنیادی افسروں سے محروم ہو گیا جنھیں انگریزوں نے بڑی ہی مشکل سے پیدا کیا تھا اور ان کی اہلیت اور فرض شناسی پر برطانوی سامراج کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک عام آدمی کی ڈی سی اور ایس پی تک رسائی ہوتی تھی اور اسے انصاف ملتا تھا۔ ضلع کی پوری انتظامیہ ان کے ماتحت ہوتی تھی اور کسی عام آدمی کی درخواست پر ڈی سی اور ایس پی کا حکم واقعی حکم ہوتا تھا۔ کسی ضلع کی یہ فرض شناس اور عوام دوست انتظامیہ پورے ملک کو انصاف ، عوامی سکون اور اطمینان کے لیے کافی تھی۔
ایک واقعہ سن لیجیے کہ ہمارے ایک بزرگ جو صوفی مزاج اور بے غرض انسان تھے، ہمارے گاؤں سے باہر اپنی خانقاہ مٹھہ ٹوانہ جا رہے تھے ان کے مرید ان کے ساتھ تھے۔ اس سفر کے راستے میں سامنے سے ضلع کے انگریز ڈی سی کی سواری آ رہی تھی۔ ہمارا یہ بزرگ درویش میاں نظام الدین اپنی دھن میں گھوڑے پر سوار چلتیگئے اور رکے نہیں۔ ڈی سی کو اس گستاخی پر غصہ آ گیا۔
اس نے اپنے ہمراہ اس علاقے کے نمبرداروں، ذیلداروں سے پوچھا یہ کون تھا۔ جواب ملا کہ حضور یہ اس علاقے کا ایک درویش صفت زمیندار ہے اور حکومت برطانیہ کی کوئی جاگیر وغیرہ اس کے پاس نہیں ہے کہ اسے اس گستاخی میں ضبط کیا جا سکے۔ ڈی سی کو یہ بات پہنچانے والے اس درویش کے عزیز ذیلدار تھے جنھوں نے دل کی بھڑاس بھی نکال لی۔ ڈی سی اس گستاخی کا صدمہ لے کر جب ضلعی دفتر پہنچا تو معلوم کیا کہ اس پیر کا کوئی جاگیردار مرید۔ ان کی تعداد خاصی تھی۔ مٹھہ ٹوانہ کے ٹوانے اور نون اس درویش کے مرید تھے۔ ڈی سی نے ایک کمزور سے جاگیردار کی جاگیر ضبط کر لی۔ وہ مرید اپنے پیر کے پاس پہنچا اور جواب ملا کہ اس سے بڑی جاگیر ملے گی۔
وہ خوشی خوشی واپس آ گیا۔ بعد میں گورنر نے ناراض ہو کر ڈی سی کا حکم بھی منسوخ کر دیا اور جاگیر بھی بڑھا دی۔ یہ برطانوی دور کا انصاف تھا جب سب کچھ مقامی لوگوں کا تھا تو پھر کسی انگریز کو کیا تکلیف کہ کس کے پاس کیا ہے۔ اسے صرف اپنے وفادار مطلوب تھے اور وفاداری کا معاوضہ مقرر تھا۔ کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی حق سے زیادہ ملتا تھا بس ایک توازن تھا اور جس کو جتنی سزا اور جزا ملنی ہوتی وہ مل جاتی تھی۔
حق بہ حق دار رسید حکومت کا معمول تھا۔ عمل ہوتا تھا صرف آنسو نہیں بہائے جاتے تھے کیونکہ کسی کے آنسو اس کا ذاتی معاملہ ہے اس کا حکمرانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری مشکل ایک اچھی انتظامیہ ہے جو بدقسمتی سے رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے۔ ہماری سیاسی ضرورتوں نے اچھے افسر اور فرض شناس اہلکار ختم کر دیئے ہیںاور سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دولت کو بحال کیا جا سکے گا یا نہیں۔
اسی طرح اگر فوجی عدالتوں نے عدلیہ کے فرائض ادا کرنے ہیں تو سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے پوچھا ہے کہ آرمی چیف مقدموں کے فیصلے کریں گے یا اپنا اصل فوجی کام کریں گے اور پھر ہم عدلیہ والے کیا کریں گے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ ہماری سول انتظامیہ نے کام کرنا ترک کر دیا ہے اور وہ صرف ذاتی کرپشن کی حد تک سرگرم ہے۔ نہ وہ عدلیہ کی کوئی مدد کرتی ہے اور نہ ہی فوج کی، وہ خود رفتہ رفتہ اس قدر ناکارہ ہو چکی ہے کہ کوئی تھانہ ہو یا تحصیل وغیرہ وہاں اگر آپ رشوت دے سکیں تو اپنا کام کروا لیں ورنہ آپ کا کوئی کام نہیں ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔
یہ صورت حال ناقابل برداشت ہے اور کسی ملک کی تباہی کا شاخسانہ اور ابتدائیہ ہے۔ ہم پاکستان میں اپنی روزمرہ کی زندگی میں دن رات یہ سب نہ صرف دیکھ رہے ہیں اس سے گذر بھی رہے ہیں۔ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ چھ معصوم بچے جل کر مر جاتے ہیں مگر ان کو آگ سے بچانے والے ادارے ناکام رہتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں اور آلات کام بھی نہیں کرتے اور اس دوران بچے آگ میں جل جاتے ہیں۔
کوئی چار پانچ دن ہو گئے ہیں جو مجرم تھے یعنی قاتل تھے ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ ہم سب دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ ہم ان بچوں کو بھول جائیں گے۔ اس سے پہلے ہم کتنے ہی حادثوں میں ذمے دار افراد کو کچھ نہیں کہہ سکے اور وہ بے فکر ہو کر اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں اور ہم حکمران اپنی حکمرانی میں۔ عمر بھر حکمرانوں کے اردگرد گھومنے پھرنے کے اب تک معلوم نہیںہو سکا کہ حکومت کیا ہوتی ہے اور حکمران کون۔
اب جب رونے دھونے کی بات ہو رہی ہے تو ہم شاید ہر روز ہی کوئی رلانے والی خبر پڑھتے ہیں کہ ایک مسلمان پاکستانی لڑکی کسی غنڈے یا چند غنڈوں کی وجہ سے اپنی عصمت سے محروم کر دی گئی، زندگی کے سب سے بڑے اور ناقابل علاج اثاثے سے۔ کئی ایک نے تو خودکشی کر لی جنھوں نے ایسا نہیں کیا ان کی زندگی موت سے بدتر بن گئی۔
اگر انھوں نے اپنے ساتھ اس ظلم کو راز رکھنے کی کوشش کی وہ اس راز کا زخم لے کر ختم ہو گئیں اور اس زندگی سے چھوٹ گئیں۔ ہماری زندگی میں کمزور پاکستانیوں کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں اور زخم خوردہ لوگ کسی نہ کسی طرح زندگی کے دن کاٹ ہی لیتے ہیں۔ اوپر جن چار بچوں کا ذکر ہوا ہے کیا ان کے ماں باپ ان معصوموں کی یاد میں تڑپتے نہیں رہیں گے اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کے قاتل زندہ سلامت پھرا کریں گے تو ان کی حالت کیا ہو گی۔ ہمارے جیسے بے رحم ملکوں میں ایسے حادثے ایک معمول ہیں۔
ہمارے ہاں سزا تو اتفاق سے ملتی ہے جزا بھی نہیں ملتی۔ دنیا میں کہیں بھی اگر گنہگار سزا سے بے خوف ہو اور مظلوم سہارے سے محروم ہو تو ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہتا۔ سزا و جزا انسانی معاشرے میں توازن رکھنے کے لیے لازم ہے اور اسی پر کوئی معاشرہ زندہ رہتا ہے مگر ہمارا تماشا یہ ہے کہ ہم اپنی فوج سے ملک کے دفاع کا نہیں جرائم پیشہ لوگوں کی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں اور فوج حیرت زدہ ہو کر ہم سے پوچھتی ہے کہ ہم اپنا کام کریں یا سول انتظامیہ کو سنبھالیں۔ یہ فوجی عدالتیں صریحاً سول انتظامیہ کی نالائقی کا نمونہ ہیں اور نااہل سول انتظامیہ کی سزا ہیں۔
بات بہت پرانی ہے مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک سی ایس پی افسر نے نام غالباً ریاض الدین تھا، اتنی بڑی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ مرحوم مولانا صلاح الدین ادبی دنیا کے بیٹے تھے جن کے دوسرے بھائی بھی اتنے ہی بڑے افسر تھے۔ ان کا استعفیٰ وقت کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ جب کلرکی بھی ایک نعمت ہو تو کوئی اعلیٰ ترین افسر نوکری چھوڑے تو یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ ریاض صاحب نے کسی کے اصرار پر چند صحافیوں کو بلایا اور ان کے سامنے حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کا ذکر کیا۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا کہ مجھے فکر ہے کہ پاکستان اچھی انتظامیہ سے محروم ہو جائے گا۔
ان دنوں یہ بات سمجھ میں نہ آئی لیکن بعد میں دیکھا کہ جو ملک ڈی سی، ایس پی اور سیشن جج کی حکمرانی میں ایک منصفانہ اور آئیڈیل حکومت پیش کرتا تھا وہ رفتہ رفتہ ان چند بنیادی افسروں سے محروم ہو گیا جنھیں انگریزوں نے بڑی ہی مشکل سے پیدا کیا تھا اور ان کی اہلیت اور فرض شناسی پر برطانوی سامراج کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک عام آدمی کی ڈی سی اور ایس پی تک رسائی ہوتی تھی اور اسے انصاف ملتا تھا۔ ضلع کی پوری انتظامیہ ان کے ماتحت ہوتی تھی اور کسی عام آدمی کی درخواست پر ڈی سی اور ایس پی کا حکم واقعی حکم ہوتا تھا۔ کسی ضلع کی یہ فرض شناس اور عوام دوست انتظامیہ پورے ملک کو انصاف ، عوامی سکون اور اطمینان کے لیے کافی تھی۔
ایک واقعہ سن لیجیے کہ ہمارے ایک بزرگ جو صوفی مزاج اور بے غرض انسان تھے، ہمارے گاؤں سے باہر اپنی خانقاہ مٹھہ ٹوانہ جا رہے تھے ان کے مرید ان کے ساتھ تھے۔ اس سفر کے راستے میں سامنے سے ضلع کے انگریز ڈی سی کی سواری آ رہی تھی۔ ہمارا یہ بزرگ درویش میاں نظام الدین اپنی دھن میں گھوڑے پر سوار چلتیگئے اور رکے نہیں۔ ڈی سی کو اس گستاخی پر غصہ آ گیا۔
اس نے اپنے ہمراہ اس علاقے کے نمبرداروں، ذیلداروں سے پوچھا یہ کون تھا۔ جواب ملا کہ حضور یہ اس علاقے کا ایک درویش صفت زمیندار ہے اور حکومت برطانیہ کی کوئی جاگیر وغیرہ اس کے پاس نہیں ہے کہ اسے اس گستاخی میں ضبط کیا جا سکے۔ ڈی سی کو یہ بات پہنچانے والے اس درویش کے عزیز ذیلدار تھے جنھوں نے دل کی بھڑاس بھی نکال لی۔ ڈی سی اس گستاخی کا صدمہ لے کر جب ضلعی دفتر پہنچا تو معلوم کیا کہ اس پیر کا کوئی جاگیردار مرید۔ ان کی تعداد خاصی تھی۔ مٹھہ ٹوانہ کے ٹوانے اور نون اس درویش کے مرید تھے۔ ڈی سی نے ایک کمزور سے جاگیردار کی جاگیر ضبط کر لی۔ وہ مرید اپنے پیر کے پاس پہنچا اور جواب ملا کہ اس سے بڑی جاگیر ملے گی۔
وہ خوشی خوشی واپس آ گیا۔ بعد میں گورنر نے ناراض ہو کر ڈی سی کا حکم بھی منسوخ کر دیا اور جاگیر بھی بڑھا دی۔ یہ برطانوی دور کا انصاف تھا جب سب کچھ مقامی لوگوں کا تھا تو پھر کسی انگریز کو کیا تکلیف کہ کس کے پاس کیا ہے۔ اسے صرف اپنے وفادار مطلوب تھے اور وفاداری کا معاوضہ مقرر تھا۔ کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی حق سے زیادہ ملتا تھا بس ایک توازن تھا اور جس کو جتنی سزا اور جزا ملنی ہوتی وہ مل جاتی تھی۔
حق بہ حق دار رسید حکومت کا معمول تھا۔ عمل ہوتا تھا صرف آنسو نہیں بہائے جاتے تھے کیونکہ کسی کے آنسو اس کا ذاتی معاملہ ہے اس کا حکمرانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری مشکل ایک اچھی انتظامیہ ہے جو بدقسمتی سے رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے۔ ہماری سیاسی ضرورتوں نے اچھے افسر اور فرض شناس اہلکار ختم کر دیئے ہیںاور سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دولت کو بحال کیا جا سکے گا یا نہیں۔