تھری ڈی پرنٹراب ہڈیاں بھی بنائیں گے
پرنٹر سے تیار کردہ ہڈیوں میں خون کی نالیوں کا اپنا نظام بھی ہوگا تاکہ وہ اپنے ارد گرد کے ٹشوز کے ساتھ جڑسکے، ماہرین
دور حاضر میں تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے ہر چیز ہی تیار کی جارہی یہاں تک کہ طبی ماہرین ایسا تھری ڈی پرنٹر تیار کر رہے ہیں جو ایسی ہڈیاں تیار کر ے گا جن میں خون کی نالیاں بھی موجود ہوں گی۔
جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق ایک جانب جہاں طبی ماہرین تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے جسم کے عضلات بھی تیار کرنے کی کوشش میں ہیں وہیں جرمنی کی فرائی برگ یونیورسٹی کے ماہرین نے اس سمت میں ایک اور قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اوروہ ہے تھری ڈی پرنٹرکی مدد سے ایسی ہڈیاں تیار کرنا جس کے اندر خون کی نالیوں کا اپنا نظام بھی موجود ہو۔ اس طرح اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ جسم میں ایسی کوئی ہڈی لگانے کے بعد وہ اپنے ارد گرد کے ٹشوز کے ساتھ جلد جُڑ جائے گی۔
فرائی برگ یونیورسٹی کے پلاسٹک اینڈ ہینڈ سرجری سینٹر کے ٹشو انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ گُنٹر فِنکینزلر کا کہنا ہے کہ پرنٹ شدہ خون کی نالیوں کو صرف اس چیز کی ضرورت ہوگی کہ وہ نصب شدہ ہڈی کے ارد گرد موجود قدرتی ٹشوز اور جسم کی دیگر نالیوں کے ساتھ براہ راست جُڑ جائیں، اس نئی تکنیک کی بدولت وقت کے حوالے سے بہت اہم فرق پڑے گا۔
تحقیق سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے درپیش سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے پرنٹرز مصنوعی مواد استعمال کرتے ہیں جنہیں ہمارا جسم قبول نہیں کرتا تاہم جرمن محققین اس مقصد کے لیے انسانی جسم کے مناسب خلیوں کو استعمال کریں گے۔ اس طرح سے جو ہڈیاں اور ان میں موجود خون کی نالیاں ہوں گی وہ ممکنہ طور پر جسم مسترد نہیں کرے گا اور وہ جسم کا حصہ ہی بن جائیں گی۔
جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق ایک جانب جہاں طبی ماہرین تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے جسم کے عضلات بھی تیار کرنے کی کوشش میں ہیں وہیں جرمنی کی فرائی برگ یونیورسٹی کے ماہرین نے اس سمت میں ایک اور قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اوروہ ہے تھری ڈی پرنٹرکی مدد سے ایسی ہڈیاں تیار کرنا جس کے اندر خون کی نالیوں کا اپنا نظام بھی موجود ہو۔ اس طرح اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ جسم میں ایسی کوئی ہڈی لگانے کے بعد وہ اپنے ارد گرد کے ٹشوز کے ساتھ جلد جُڑ جائے گی۔
فرائی برگ یونیورسٹی کے پلاسٹک اینڈ ہینڈ سرجری سینٹر کے ٹشو انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ گُنٹر فِنکینزلر کا کہنا ہے کہ پرنٹ شدہ خون کی نالیوں کو صرف اس چیز کی ضرورت ہوگی کہ وہ نصب شدہ ہڈی کے ارد گرد موجود قدرتی ٹشوز اور جسم کی دیگر نالیوں کے ساتھ براہ راست جُڑ جائیں، اس نئی تکنیک کی بدولت وقت کے حوالے سے بہت اہم فرق پڑے گا۔
تحقیق سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے درپیش سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے پرنٹرز مصنوعی مواد استعمال کرتے ہیں جنہیں ہمارا جسم قبول نہیں کرتا تاہم جرمن محققین اس مقصد کے لیے انسانی جسم کے مناسب خلیوں کو استعمال کریں گے۔ اس طرح سے جو ہڈیاں اور ان میں موجود خون کی نالیاں ہوں گی وہ ممکنہ طور پر جسم مسترد نہیں کرے گا اور وہ جسم کا حصہ ہی بن جائیں گی۔