اناڑی کی تیز رفتار گھوڑے پر سواری
اداکار باطن فاروقی کے ذہن کی اسکرین پر ابھرتے کچھ ہنستے مسکراتے منظر.
ٹی وی اور اسٹیج کے مشہور فن کار باطن فاروقی کو اداکاری کرتے طویل عرصہ گزر چکا ہے۔
اس دوران انھوں نے کتنے ہی روپ بھرے۔ کبھی مثبت کردار میں نظر آئے تو کبھی کسی برے آدمی کا روپ دھارا۔ سنجیدہ رول ادا کرنے کے ساتھ وہ، خاص طور پر اسٹیج ڈراموں میں، کامیڈی رول بھی نبھاتے رہے ہیں۔ ان کی زندگی اور فن کے سفر میں ایسے کتنے ہی واقعات نے جنم لیا جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ ایسے ہی دو یادگار واقعات انھوں نے ہمیں سنائے، جو قارئیں کی نظر ہیں:
معروف ڈرامے ''زنجیر'' میں میرا کردار وِلین کا تھا۔ ڈرامے میں وِلن ''جبل خان'' پولو اور بُزکُشی کا کھلاڑی ہوتا ہے۔ فیصل بخاری ہدایت کار تھے، انہوں نے پوچھا گھوڑا دوڑا لیتے ہو، میں نے کہا ''بخاری صاحب! کوئی ایسا ویسا۔'' لیکن حقیقت یہ تھی کہ میں نے کبھی گھوڑے کی سواری تو کیا مارے ڈر کے کبھی اس کے پٹھے تک پر ہاتھ نہیں دھرا تھا۔ انہوں نے مجھے 20 ہزار ایڈوانس دیا اور کہا پانچ دن بعد گلگت جانا ہے۔ یاد رہے کہ اس ڈرامے کی کہانی گلگت کے حوالے سے تھی۔ مجھے محسن گیلانی نے اِس ڈرامے میں کردار دلوایا تھا۔ میں خوشی خوشی گھر چلا گیا۔
جب میں نے اسکرپٹ پڑھا تو پریشان ہو گیا، کیوں کہ میرا کردار باقاعدہ گُھڑ سوار کا تھا جو بُز کشی اور پولو کا بہترین کھلاڑی ہے، ٹیم کا کپتان ہے اور اسے ہیرو کی ٹیم سے مقابلہ درپیش ہے۔ میں نے اسٹوڈیو میں یونس صاحب سے گھوڑے پر چڑھنے اُترنے کی کچھ شُد بُد لینے کی کوشش کی اور گلگت کے لیے روانہ ہو گیا۔
سوچا پہلے ڈرامائی سین ہوں گے اور بعد میں یہ گھوڑے والے سین آئیں گے، لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ فیصل بخاری نے پہلے میرے گھوڑے کی ریس اور پولو کی فلم بندی سے شوٹنگ کا آغاز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں پریشان! محسن گیلانی سے ذکر کیا کہ میں گھوڑا نہیں دوڑا سکتا۔ وہ بھی پریشان ہو گئے، کیوںکہ اِس ڈرامے کے لیے بہ قول ان کے میں ہی موزوں ترین شخص تھا۔ اگلے روز دریا کنارے 12 گھوڑے ایک ساتھ کھڑے تھے، جن میں سے چھے میری اور چھے ہیرو کی ٹیم کے تھے۔ کیمرا بہت اونچائی پر فِٹ کیا گیا تھا۔ سین یہ تھا کہ گھوڑے دوڑیں گے اور بُز (دُنبہ) ہم ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کریں گے۔
میں پریشان، گھوڑے پر بیٹھا تھا کہ اُدھر سے ڈائریکٹر صاحب نے ایکشن کی آواز لگائی، سب گھوڑے دوڑ پڑے۔ گھوڑے انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ میرا گھوڑا بھی انتہائی تیزی سے دوڑ پڑا۔ میں نے دیکھا کہ میں ٹھیک بیٹھا ہوں، تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ چھوڑ دیے، بغیر لگام کے اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں لہراتا ہوا سرپٹ گھوڑا دوڑا رہا تھا۔ مجھ سے زیادہ محسن گیلانی صاحب خوش تھے اور خوشی سے نعرے مار رہے تھے کہ ''جبل خان چھا گیا۔'' وہاں موجود لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ میں بہت پائے کا گھڑ سوار ہوں۔ میں نے پولو کے چیمپیئن بلبل خان کو بتایا کہ میں نے پہلی بار گھڑ سواری کی ہے، تو وہ بہت حیران ہوئے۔ بہ ہرحال اُس وقت میں نے سوچ لیا تھا کہ کیمرا آن ہے اور مجھے کچھ کرکے دکھانا ہے۔
یہ واقعہ 1984-85 کا ہے، میں اور سلیم خواجہ (معروف فن کار) ایک پروڈیوسر کے کہنے پر حسن ابدال گئے۔ اُس نے ہمیں اُمید دلائی تھی کہ ڈراما بڑا ہِٹ جائے گا اور معقول معاوضہ دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حسن ابدال ایک قصبہ ہے، جہاں تھیٹر کا کلچر اتنا مضبوط نہیں ہے۔ خیر ہم چار فن کار دو دن پہلے حسن ابدال پہنچ گئے۔ ہم میں ایک خاتون بھی تھیں۔ ڈراما شروع ہوا تو ہال بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ بہ مشکل دس پندرہ دیکھنے والے تھے۔ ڈرامے کے بعد ہم ہوٹل آئے، جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا۔ وہاں پروڈیوسر نے ہم سے کہا کہ میں صبح آئوں گا اور غائب ہو گیا۔ اگلا سارا دن انتظار کیا، ہم پریشان تھے کہ ہوٹل کا بل ادا کرنا ہے، دو دن کے بعد ہال میں لگی کرسیوں کا مالک کرائے کے لیے ہمارے پیچھے پڑ گیا۔ ہم صورت حال بھانپ گئے۔ اگلے روز ہم سب فن کار بازار میں نکلے اور اس ڈرامے کے کچھ ٹکٹ فروخت کیے، لیکن اب ہمیں دو دن اور رُکنا پڑگیا، جس سے ہمارے واجبات میں اضافہ ہو گیا۔
بہ ہرحال ہم نے ایک ساتھی فن کارہ کو پنڈی روانہ کردیا۔ اگلے دن ہوٹل والے اور کرسیوں والے کو فارغ کیا۔ اب ہماری جیب میں جتنے پیسے تھے وہ سب خرچ ہو گئے تھے۔ جب ہم ہوٹل سے روانہ ہوئے تو ہم سب نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، جو کچھ نکلا سب مل ملا کر پچیس روپے بنے۔ ہم بس میں سوار ہو گئے۔ حسن ابدال سے پنڈی کا کرایہ صرف 5 روپے تھا۔ وہ پیسے ہم نے سلیم خواجہ کے پاس جمع کرا دیے، جو کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا۔ کنڈیکٹر نے ہم سے جھگڑا شروع کر دیا کہ سامان کا کرایہ بھی دو۔ بڑی مشکل سے اُسے سمجھا بجھا کر پندرہ روپے میں راضی کیا۔
گرمی کا موسم تھا، بس کے شیشے کھلے ہوئے تھے ناگاہ پانچ کا نوٹ سلیم خواجہ کے ہاتھ سے اُڑا اور اسے ہوا نے اچک لیا۔ ہم سب قہقہے لگانے لگے، بس کے مسافر حیرت سے ہماری طرف دیکھنے لگے۔ راول پنڈی پہنچے تو آخری پانچ کا نوٹ دور دراز رہنے والے ایک ساتھی فن کار کو دیا تاکہ وہ ویگن کا کرایہ دے کر گھر چلا جائے۔ میں سلیم خواجہ کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ گیا، راستے میں سلیم خواجہ کو اُتارا۔ گھر پہنچ کر ماں سے پچیس روپے لے کر ٹیکسی والے کو دیے اور یوں ''لَوٹ کے بدھو گھر کو آئے'' والا معاملہ ہوا۔ میں چوں کہ فن کار ہوں اور فن کار کبھی حالات سے نہیں گھبراتا۔ سو اِس ساری صورت حال سے مجھ پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی، لیکن یہ واقعہ میری زندگی کا یادگار واقعہ ہے۔
اس دوران انھوں نے کتنے ہی روپ بھرے۔ کبھی مثبت کردار میں نظر آئے تو کبھی کسی برے آدمی کا روپ دھارا۔ سنجیدہ رول ادا کرنے کے ساتھ وہ، خاص طور پر اسٹیج ڈراموں میں، کامیڈی رول بھی نبھاتے رہے ہیں۔ ان کی زندگی اور فن کے سفر میں ایسے کتنے ہی واقعات نے جنم لیا جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ ایسے ہی دو یادگار واقعات انھوں نے ہمیں سنائے، جو قارئیں کی نظر ہیں:
معروف ڈرامے ''زنجیر'' میں میرا کردار وِلین کا تھا۔ ڈرامے میں وِلن ''جبل خان'' پولو اور بُزکُشی کا کھلاڑی ہوتا ہے۔ فیصل بخاری ہدایت کار تھے، انہوں نے پوچھا گھوڑا دوڑا لیتے ہو، میں نے کہا ''بخاری صاحب! کوئی ایسا ویسا۔'' لیکن حقیقت یہ تھی کہ میں نے کبھی گھوڑے کی سواری تو کیا مارے ڈر کے کبھی اس کے پٹھے تک پر ہاتھ نہیں دھرا تھا۔ انہوں نے مجھے 20 ہزار ایڈوانس دیا اور کہا پانچ دن بعد گلگت جانا ہے۔ یاد رہے کہ اس ڈرامے کی کہانی گلگت کے حوالے سے تھی۔ مجھے محسن گیلانی نے اِس ڈرامے میں کردار دلوایا تھا۔ میں خوشی خوشی گھر چلا گیا۔
جب میں نے اسکرپٹ پڑھا تو پریشان ہو گیا، کیوں کہ میرا کردار باقاعدہ گُھڑ سوار کا تھا جو بُز کشی اور پولو کا بہترین کھلاڑی ہے، ٹیم کا کپتان ہے اور اسے ہیرو کی ٹیم سے مقابلہ درپیش ہے۔ میں نے اسٹوڈیو میں یونس صاحب سے گھوڑے پر چڑھنے اُترنے کی کچھ شُد بُد لینے کی کوشش کی اور گلگت کے لیے روانہ ہو گیا۔
سوچا پہلے ڈرامائی سین ہوں گے اور بعد میں یہ گھوڑے والے سین آئیں گے، لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ فیصل بخاری نے پہلے میرے گھوڑے کی ریس اور پولو کی فلم بندی سے شوٹنگ کا آغاز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں پریشان! محسن گیلانی سے ذکر کیا کہ میں گھوڑا نہیں دوڑا سکتا۔ وہ بھی پریشان ہو گئے، کیوںکہ اِس ڈرامے کے لیے بہ قول ان کے میں ہی موزوں ترین شخص تھا۔ اگلے روز دریا کنارے 12 گھوڑے ایک ساتھ کھڑے تھے، جن میں سے چھے میری اور چھے ہیرو کی ٹیم کے تھے۔ کیمرا بہت اونچائی پر فِٹ کیا گیا تھا۔ سین یہ تھا کہ گھوڑے دوڑیں گے اور بُز (دُنبہ) ہم ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کریں گے۔
میں پریشان، گھوڑے پر بیٹھا تھا کہ اُدھر سے ڈائریکٹر صاحب نے ایکشن کی آواز لگائی، سب گھوڑے دوڑ پڑے۔ گھوڑے انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ میرا گھوڑا بھی انتہائی تیزی سے دوڑ پڑا۔ میں نے دیکھا کہ میں ٹھیک بیٹھا ہوں، تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ چھوڑ دیے، بغیر لگام کے اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں لہراتا ہوا سرپٹ گھوڑا دوڑا رہا تھا۔ مجھ سے زیادہ محسن گیلانی صاحب خوش تھے اور خوشی سے نعرے مار رہے تھے کہ ''جبل خان چھا گیا۔'' وہاں موجود لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ میں بہت پائے کا گھڑ سوار ہوں۔ میں نے پولو کے چیمپیئن بلبل خان کو بتایا کہ میں نے پہلی بار گھڑ سواری کی ہے، تو وہ بہت حیران ہوئے۔ بہ ہرحال اُس وقت میں نے سوچ لیا تھا کہ کیمرا آن ہے اور مجھے کچھ کرکے دکھانا ہے۔
یہ واقعہ 1984-85 کا ہے، میں اور سلیم خواجہ (معروف فن کار) ایک پروڈیوسر کے کہنے پر حسن ابدال گئے۔ اُس نے ہمیں اُمید دلائی تھی کہ ڈراما بڑا ہِٹ جائے گا اور معقول معاوضہ دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حسن ابدال ایک قصبہ ہے، جہاں تھیٹر کا کلچر اتنا مضبوط نہیں ہے۔ خیر ہم چار فن کار دو دن پہلے حسن ابدال پہنچ گئے۔ ہم میں ایک خاتون بھی تھیں۔ ڈراما شروع ہوا تو ہال بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ بہ مشکل دس پندرہ دیکھنے والے تھے۔ ڈرامے کے بعد ہم ہوٹل آئے، جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا۔ وہاں پروڈیوسر نے ہم سے کہا کہ میں صبح آئوں گا اور غائب ہو گیا۔ اگلا سارا دن انتظار کیا، ہم پریشان تھے کہ ہوٹل کا بل ادا کرنا ہے، دو دن کے بعد ہال میں لگی کرسیوں کا مالک کرائے کے لیے ہمارے پیچھے پڑ گیا۔ ہم صورت حال بھانپ گئے۔ اگلے روز ہم سب فن کار بازار میں نکلے اور اس ڈرامے کے کچھ ٹکٹ فروخت کیے، لیکن اب ہمیں دو دن اور رُکنا پڑگیا، جس سے ہمارے واجبات میں اضافہ ہو گیا۔
بہ ہرحال ہم نے ایک ساتھی فن کارہ کو پنڈی روانہ کردیا۔ اگلے دن ہوٹل والے اور کرسیوں والے کو فارغ کیا۔ اب ہماری جیب میں جتنے پیسے تھے وہ سب خرچ ہو گئے تھے۔ جب ہم ہوٹل سے روانہ ہوئے تو ہم سب نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، جو کچھ نکلا سب مل ملا کر پچیس روپے بنے۔ ہم بس میں سوار ہو گئے۔ حسن ابدال سے پنڈی کا کرایہ صرف 5 روپے تھا۔ وہ پیسے ہم نے سلیم خواجہ کے پاس جمع کرا دیے، جو کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا۔ کنڈیکٹر نے ہم سے جھگڑا شروع کر دیا کہ سامان کا کرایہ بھی دو۔ بڑی مشکل سے اُسے سمجھا بجھا کر پندرہ روپے میں راضی کیا۔
گرمی کا موسم تھا، بس کے شیشے کھلے ہوئے تھے ناگاہ پانچ کا نوٹ سلیم خواجہ کے ہاتھ سے اُڑا اور اسے ہوا نے اچک لیا۔ ہم سب قہقہے لگانے لگے، بس کے مسافر حیرت سے ہماری طرف دیکھنے لگے۔ راول پنڈی پہنچے تو آخری پانچ کا نوٹ دور دراز رہنے والے ایک ساتھی فن کار کو دیا تاکہ وہ ویگن کا کرایہ دے کر گھر چلا جائے۔ میں سلیم خواجہ کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ گیا، راستے میں سلیم خواجہ کو اُتارا۔ گھر پہنچ کر ماں سے پچیس روپے لے کر ٹیکسی والے کو دیے اور یوں ''لَوٹ کے بدھو گھر کو آئے'' والا معاملہ ہوا۔ میں چوں کہ فن کار ہوں اور فن کار کبھی حالات سے نہیں گھبراتا۔ سو اِس ساری صورت حال سے مجھ پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی، لیکن یہ واقعہ میری زندگی کا یادگار واقعہ ہے۔